بَرشَور ، افسانہ از محمد حمید شاہد
’’اْس نے اَپنی بیوی کے نام پر بیٹی کا نام رکھا ۔۔۔۔۔ اور بیٹی کے نام پر مسجد بناڈالی۔۔۔۔
چھی چھی چھی‘‘
جب عبدالباری کاکڑ کی چھی چھی میرے کانوں میں پڑی ، میں فضل مراد رودینی کی طرف متوجہ تھا اوریہ جان ہی نہ پایا ،وہ افسوس کر رہا تھا، اس پر نفرین بھیج رہا تھا یا اْس کا تمسخر اڑاتی اَپنی ہنسی دبا رہا تھا۔
رودینی چال ڈھال اور لہجے کا پکا بلوچ تھا ۔ بات کرتے ہوے آدھا جملہ منھ ہی میں گھما کر نگل لیا کرتا یا یوں ہونٹ سکیڑ لیتاکہ اَدھ کہی بات بھی گرفت میں نہ آتی تھی لہذا اس کی بات سمجھنے کے لیے صرف اس کی طرف متوجہ رہنا پڑتا تھا۔
رودینی یہاں بلوچستان سے اس کمیٹی کا ممبر تھا جس نے وفاقی حکومت کی ہدایت پر لگ بھگ سارے صوبے کے قحط کی سی کیفیت سے دوچار علاقوں کا دورہ کرکے متاثرین کی بحالی کے لیے موزوں حکمت عملی تجویز کرنا تھی۔ہم اسلام آباد سے تین آئے تھے، نورنشان خان ہماری کمیٹی کا کنوینئر تھا۔ وہ تھا توچارسدے کا پٹھان، مگر اسلام آباد میں مستقل قیام اور وفاقی دارلحکومت کے سب سے بڑے کلب کی ممبر شپ نے اسے بڑے رکھ رکھاؤ والا بنا دیا تھا۔ وہ ہر فرد کو پورا پوراپروٹوکول دینے کا قائل تھااور دیتا بھی تھا۔اس کا ایسا کرنا شروع شروع میں اچھا لگتا، مگرجب وہ بَد لے میں ایسے ہی پروٹوکول کا متمنی نظر آنے لگتا تو بہت کوفت ہوتی۔عمر اور مرتبے میں وہ ہم سب سے بڑا تھا، لہذا سب اس کی خواہش کا جیسے تیسے احترا م کر لیا کرتے ،تاہم ہوا یوں کہ جونہی ہماری فلائیٹ کوئٹہ پہنچی اسے ایسا کمال کا پروٹو کول ملا کہ وہ ہمارے بادلِ ناخواستہ والی عزت افزائی سے بے نیاز ہوگیا۔
اِسلام آباد سے کمیٹی کا تیسرا ممبر عابد وسیم تھا ، بلا کا ہنسوڑ۔ وقفے وقفے سے اُسے کوئی نہ کوئی پُر لطف بات یاد آ جایا کرتی تھی ،جسے وہ بڑے اِہتمام سے شروع کرتامگر کنوینئر کے چہرے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہی سب کچھ بھول جایا کرتا تھا ۔کوئٹہ آنے اور کنوینئر کے پروٹو کول سمیٹنے کی مصروفیت نے اُس کی زبان کی گرہ کھول دی تھی ، اَب اُسے کوئی شگفتہ بات یاد آتی تو وہ مجھے کہنی مار کر ایک طرف لے جاتا ، اَپنی کہتا اور اِتنا منھ کھول کر ہنستا کہ اُس کے منھ کے اندر تالو کے عقب میں لٹکتا کتا کھؤں کھؤں پر جھولنے لگتاتھا۔
کنوینئر ضرورت پڑنے پر بلوچستان سے کسی اور آفیسر کو کمیٹی کا غیر مستقل ممبر بنا نے کا اختیار رَکھتا تھا۔کوئٹہ اِئیر پورٹ پر ہمیں ریسیو کرنے والوں میں عبدالباری کاکڑ، صحبت خان پانیزئی اور غوث بخش لشاری بھی موجود تھے، اور تینوں نے ہوٹل پہنچنے سے لے کر اگلی صبح پہلی میٹنگ تک وہ پرلطف پروٹوکول دیاتھا کہ کنوینئر نے پہلی ہی میٹنگ میں انہیں بطور کو آپٹڈ ممبر بٹھالیا تھا۔
برشور کا لفظ میں نے کاکڑ کی زبان سے سنا تھا۔اس کی باتوں سے میں نے اندازہ لگالیا تھا کہ یہ پشین بازار سے آگے اُوپر پہاڑوں کے اندر اس گاؤں کا نام تھا جو خشک سالی سے شدید متاثر ہوا تھا۔ہمارے پاس جو رپورٹس تھیں ان کے مطابق ڈیرہ مراد جمالی کی تین تحصیلوں کہ جن کے رقبے نہری تھے، کو چھوڑ کر ساراہی بلوچستان متاثرہ تھالہذاکمیٹی کے دیگر ممبران اس کی باتوں پر بہت زیادہ توجہ نہ دے رہے تھے ۔۔۔ مگر برشورنام کا صوتی تاثر ایساتھا کہ میرے اندر کہیں گہرائی تک اتر گیا ۔
تاج محمد ترین کی بیوی کے نام پر بیٹی کا نام رکھنے اور بیٹی کے نام سے ایک وسیع اور عالیشان مسجد تعمیر کرنے کی بات اس نے غالباً چوتھے روز تب بتائی تھی جب کمیٹی مختلف علاقوں کے مشاہدے کے لیے نکلنا چاہتی تھی۔اس نے اصرار کیا تھا کہ پہلے ہمیں برشور چلنا چاہیے مگر رودینی نے اسے سختی سے ٹوک دیا کیوں کہ اس نے سارا شیڈول پہلے سے بناکر مختلف علاقوں کے مَقامی افسران کو تقسیم کر رکھا تھا۔ویسے بھی رودینی کمیٹی کا مستقل ممبر تھا، بے شک اب کاکڑ کنوینئر کا چہیتا ہو گیا تھا، مگر دورے کے انتظامی معاملات کے حوالے سے رودینی کا استحقاق ایسا تھا کہ جس کا احترام بہ ہرحال ہمیں کرنا تھا اور کرنا بھی پڑا۔کاکڑ کے برشور کے لیے اصرار نے رودینی کو کچھ ایسا بَد مزہ کیا کہ وہ دورے کے آخر تک کاکڑ اور کنوینئر سے کھچا کھچا رہاتاہمعابد وسیم ایک اورسامع میسر آنے پر خُوِش تھا۔
تربت ہم فوکر سے گئے ۔نوشکی اور خاران جیسے علاقوں کازمینی سفر تھکا دینے والا تھا۔واپسی پر اس حصے کی اُجڑی ہوئی وسعت ہمارے دِلوں میں دُکھ اور بے بسی بن کرگُھس چکی تھی۔ نصیرآباد کے نہری علاقے حوصلہ دیتے رہے جبکہ باقی ضلعوں میں وہی سنسان تباہی سنسنا رہی تھی۔ سب علاقے یوں اُجڑے ہوے تھے جیسے ہر جگہ کوئی بھوت پھر گیا تھا۔ زیارت قدرے سرسبز تھا مگر آسمان کی ناراضی یہاں بھی صاف دیکھی جا سکتی تھی ۔چمن بس نام کا چمن رہ گیا ،اِدھر اُدھر دھول اُڑتی تھی۔لورا ،ٹِٹی کلی، مہول، پونگہ، قلعہ سیف اللہ اور مسلم باغ کی ساری کاریزیں سوکھ چکی تھیں، خضدار، درہ مولا، لندھاوا، کچھی کے میدان، درہ بولان، ڈھاڈرا ور سبی جیسے علاقوں سے ہم لگ بھگ گاڑیاں بھگاتے ہوے گزر گئے مگر اِن کے اُجاڑ پن نے پھر بھی ہمیں آ لیاتھا۔اِس دوران ہم کئی بار کوئٹہ آئے اور سستا کر پھرِ نکل کھڑے ہوئے۔ہر بار کا کڑ نے کہا : ’’آپ برشور دیکھ لیتے تو جتنی تباہی آپ دیکھ آئے ہیں،وہ سب کم تر لگتی۔ ‘‘جو تباہی ہم دیکھ آئے تھے اس سے زیادہ کا تصور ہمارے لیے ممکن ہی نہ تھا مگر کاکڑ کا کہنا تھا: ’’برشور کی بلندیوں سے دکھ شور مچاتا اترتا ہے اور سیدھا دلوں میں گھس جاتا ہے۔‘‘جب وہ اِس طرح بات کر رہا ہوتا تورودینی اور لاشاری کے چہروں پر اُکتاہٹ سی آ جاتی یوں جیسے کاکٹر ایسے معاملے کو اُٹھا رہا ہو جو کمیٹی کے ٹی او آر سے باہر کا ہو۔ کاکٹر اور پانیزئی دونوں کوئٹہ میں مقیم تھے اوراُن کی دل چسپی ایسے علاقوں میں زیادہ تھی جہاں سیب، بادام، انار، اخروٹ اورانگور کے باغات بہ کثرت تھے۔کئی برس کی خشک سالی کے باعث اِن باغات سے بارہ سے بائیس لاکھ سالانہ کمانے والے بھی کنگال ہو کر یوں اجڑے تھے کہ یقین نہ آتا تھا۔جب ہماری ٹیم پٹھان کوٹ کی کاریز کا خشک ہوتا منبع دیکھ کر نکلی تو ایک سفید پوش یک دم عین سڑک کے بیچ ہمارا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا; یوں کہ ڈرائیور بہ مشکل گاڑی روک پایا تھا۔مجھے اس کے اس طرح سڑک پر آ جانے پر شدید غصہ آیا اور شاید زبان سے کوئی نازیبا جملہ بھی نکل گیا تھا ۔کاکڑ نے سنا تو بتا یا کہ وہ کلی سگر کا عبداللہ جان تھا، چار ہزار درختوں والے کالا کلو سیبوں کے باغ کا مالک ۔ اس کا باغ سات برس پہلے پہلی بار سترہ لاکھ میں بکا تھا۔ جب سے آسمان سے رحمت برسنا بند ہوئی، اس نے باغ بچانے کے لیے ہرسال نیا بور لگایا مگر پانی اتنا نیچے چلا گیا کہ ہرسال آٹھ دس لاکھ اسی پر اُٹھ جاتے ۔ پانی ہر بار نکلا ضرور مگر اتنا کہ دو چار مہینے پائپ کا منھ بھرا ہوا ہوتا پھر کم ہوتا چلا جاتا حتی کہ ڈوبتی نبض کی طرح جَھٹکے کھاتے کھاتے ختم ہو جاتا ۔زمین کی گہرائی میں پانی تلاش کرتے کرتے کنگال ہونے والا شخص پشتو میں ہمارے کنوینئر کو کچھ کَہ رہا تھا۔جب وہ بات کر چکا تو کنوینئر نے جیب سے پرس نکالا، پانچ سو کا نوٹ الگ کیا اور اس کی کھلی ہتھیلی پر رکھ دیا۔سیبوں کے باغ کا مالک مٹھی بھینچ کر تیزی سے سڑک سے اترا، اور لورالائی کی سمت بھاگ کھڑا ہوا۔کاکڑ نے گاڑی میں بیٹھتے ہوے بتایا کہ وہ ہمیں امدادی سامان تقسیم کرنے والی ٹیم سمجھ بیٹھا تھا۔ لورا،قلعہ سیف اللہ اورمسلم باغ میں باغوں کے ایسے ہی مالک آٹے کے لیے امداد مانگتے پائے گئے ۔کا کٹرکا اصرار تھا:’’ بر شور کے تاج محمد ترین، جس نے بیٹی کے نام سے مسجد بنائی تھی ، کا قصہ بھی اتنا ہی تکلیف دہ تھا ۔۔۔اور شاید اس سے بھی زیادہ۔‘‘
جب ہم سفر کر کر کے اُکتا چکے تو رودینی نے بتایا کہ طے شدہ پروگرام کے مطابق ابھی ہمیں سراواں کے پہاڑی اور جھلاواں کے میدانی علاقے دیکھنے تھے۔اِس پروگرام میں برشور نہ آتا تھا۔رودینی کوشش کر کے اِس طرف نکلنے کی گنجائش نکال سکتا تھا مگر یوں لگتا تھا جیسے وہی نہ چاہتا تھا ۔۔۔اور اب یہ بات کاکڑ کو مشتعل کیے دیتی تھی; تاہم اس کا بس ہی نہ چل رہا تھا۔
اگلے روز جب ہم نیچائی اور مستونگ سے گزر کر نوشکی کی طرف جا رہے تھے تو وہ ہمیں اس صحرا نما علاقے کی طرف لے گیا جہاں جگہ جگہ جانوروں کے ڈھانچے پڑے ہوے تھے۔ رودینی نے ایک جگہ گاڑیاں رکوا لیں وہ نیچے اُترا، اُنگلیاں سیدھی کرکے زمین میں دبائیں اور مٹھی میں مٹی بھر کر اپنے قدموں پر گھوما، یوں کہ اُس کی مٹھی کھل کر چاروں طرف مٹی پھینکتی چلی گئی۔پھر وہ تقریباً چیختے ہوے کہنے لگا:’’کاکڑ تمہیں ان لوگوں کا دُکھ بڑا نظر آتا ہے جن کے باغ اجڑ گئے، جنہوں نے بہت کچھ دیکھا اور اَب بھوک دیکھ کر بوکھلائے پھرتے ہیں۔دیکھو ، ذرااِن لوگوں کا دُکھ دیکھو ۔ اِنہوں نے بھوک کی گود میں جنم لیا ہے۔۔۔اِنہوں نے بھوک کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں ہے۔‘‘ وہ بھاگتا ہوا تھوڑا سا دُور گیا ، جھکا اور ایک ڈھانچے سے ہڈی کو جَھٹکا دے کر الگ کر کے پلٹا، اُسے کاکڑ کے چہرے کے سامنے لہراتے ہوے کہا : ’’یہ ہڈیاں اِنہی بھیڑ بکریوں کی ہیں جن کے تھنوں سے یہاں والے بھوک دوہتے رہے ہیں، اس خشک سالی کے ہلے میں تمہیں جتنی ہڈیاں زمین کے اوپر نظر آ رہی ہیں نا، اتنی ہی زمین میں دفنا دی گئی ہیں ۔ جانتے ہو کس لیے ؟‘‘
اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی نگاہیں کاکڑ کے چہرے سے الگ نہ کی تھیں۔کا کڑ اس اچانک سوال پر بوکھلا سا گیا تھااسے کچھ سوجھ نہ رہا تھا۔رودینی نے اس کے چہرے سے نظریں الگ کیں اور انہیں اپنے قدموں والی زمین پر گاڑ کر کہا: ’’ تم جو باغوں کے اُجڑ نے کا قصہ بار بار لے بیٹھتے ہو تم کیا جانوکہ زمین میں دبائی گئی ہڈیاں صرف بھیڑ بکریوں کی نہیں ہیں۔۔۔تیرے میرے جیسے انسانوں کی بھی ہیں۔۔۔ ان انسانوں کی،جنہوں نے بھوک کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ۔۔۔ اور ۔۔۔ جوبھوک ہی سے مر گئے ہیں۔‘‘
یہ کہتے ہوے وہ زمین پر بیٹھ گیا تھا۔
ہم کوئٹہ سے کراچی کو نکلنے والی سڑک پر سفر کر رہے تھے۔مستونگ کے بعد قلات آیا قلات سے مسلسل تین گھنٹے سفر کرنے کے بعد خضدار،پڑنگ آباد، سوراپ، کھڈکوچہ، باغبانہ، زہری، وڈھ، توتک، مغلئی، ہر کہیں وہی دِل جکڑنے والی ویرانی تھی ۔ہمیں آگے جانا تھا مگر آگے جا نہ سکے۔سب چپ تھے۔ ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوے ، مسلسل باہر پھیلی ویرانی کو اَپنی آنکھوں میں سمیٹ چکے تھے ۔اِسی دوران نہ جانے کب رودینی نے کہا تھا ’’ واپس پلٹتے ہیں ۔۔۔آ۔۔۔آگے بھی یہی کچھ ہے۔‘‘ ایسا کہتے ہوے اس کا گلا رندھا گیا تھا۔ کسی نے کوئی جواب نہ دیا مگر سب نے گویا رودینی کی تجویز مان لی تھی ۔
کوئٹہ پہنچنے پر بھی سب چپ رہے ۔ہمارے پاس ایک پورا دن بچ گیا تھا۔ کاکڑ اب برشور کا نام تک نہ لے رہا تھا۔ہم سب کے بیچ اتنی خاموشی حائل ہو گئی تھی کہ ایک دوسرے سے بات کرنااز حد دشوار ہورہا تھا اور ہم محسوس کرنے لگے تھے کہ ایک لمحہ مزید اسی جگہ پر یوں گم صم بیٹھے رہنے سے ہمارے سینے پھٹ جائیں گے لہذا کاکڑ اور لاشاری کو اپنے اپنے گھر اور باقیوں کو ہوٹل میں اپنے اپنے کمروں کے لیے اٹھ جانا چاہئے۔
تقریباسب اُ ٹھ چکے تھے، کنوینئر، کاکڑ،لشاری، پانیزئی اور عابد وسیم گھٹنوں پر ہاتھ رکھے کھڑے ہونے کے عمل میں تھے میں پوری طرح کمر سیدھی کر چکا تھا بس ایک رودینی اَپنی نشست سے ہلا تک نہیں تھا ۔ہمیں یوں اُٹھتے دیکھا تو کہا: ’’ میری تجویز ہے کہ کل برشور چلتے ہیں ۔‘‘
ہم سب نے پہلے رودینی کو اور پھر کاکڑ کو دیکھا ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ آن کی آن میں سارا سناٹا شور مچاتا ہمارے اندر سے بہتا دور ہوتا چلا گیا۔ہم دِن بھر کے تھکے ہوے تھے اور ہمیں آرام کے لیے جداہونا تھا مگر ہم کہیں نہیں جا رہے تھے ۔
کاکڑ نے ہمیں بتایا کہ تاج محمد ترین اس کے بچپن کا دوست تھا۔دونوں کوئٹہ کے پبلک سکول میں اکٹھے پڑھتے رہے تھے اور تب دونوں کی کئی خُوِشگوار شامیں ہنہ جھیل پر یوں گزری تھیں کہ اسے ابھی تک یاد آتی تھیں ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ کیسے اسے کلی سر خانزئی کے میرثنااللہ ترین کی بیٹی اچھی لگی اور کیسے اُس نے ایک شام اس کے گھر کے باہر کلاشنکوف سے مسلسل فائرنگ کرکے اَپنی محبت کا اعلان کیا ۔ کن مشکلوں سے کلی سر خانزئی والے رشتہ دینے پر آمادہ ہوے ۔ کیسے اُس کی بیوی ایک بیٹی جنم دیتے ہوے مر گئی اور کیسے اُس نے عین جنازہ گاہ میں اِعلان کیا کہ اُس نے اَپنی بیٹی کا نام اَپنی بیوی کے نام پر نور جان رکھ دیا ہے۔
کاکڑ جو بغیر سانس لیے بولے جارہا تھا یہاں پہنچ کر دم لینے کو رکا تو ہمارا تجسس اِتنا بڑھا کہ ہم اُس کے بولنے کا بے چینی سے اِنتظار کر رہے تھے تاہم حوصلہ مجتمع کرنے کے لیے جتنا وقت اُسے چاہیے تھا وہ اُس نے لے لیا اور پھر بتا یا : ’’ اسی برس اس کا باغ گیارہ لاکھ میں کراچی کے ایک بیوپاری نے خریدا۔ ایک سال درختوں پر زیادہ پھل لگتے اور اس سے اگلے سال کم۔‘‘ اس نے ہمیں یہ بات ایسے لہجے میں بتائی جیسے ہمیں پہلے سے معلوم ہو پھر اس پر اضافہ کیا : ’’ اس کی قسمت دیکھئے کہ ہر سال اس کا باغ پہلے سے بھی زیادہ قیمت دیتا بس فرق یہ تھا کہ کم پھل والے سال میں باغ پچھلے سال سے ہزاروں میں اوپر جاتا اور بھاری پھل والے سال لاکھوں کا اضافہ دیتا۔ انہی برسوں میں اس نے اپنے لیے اور اَپنی بیٹی کے رہنے کے لیے قلعہ بنایا۔ آپ نے دیکھا ہی ہے کہ یہاں ہرتمن کا میر اور صاحب حیثیت فرد قلعہ بنا کر رہتا ہے۔ وہ جدی حیثیت والا تھا، بندوق، تلوار، خنجر کمان ، گھوڑا اور قلعہ مُدّتوں اس خاندان کی دل چسپیوں کا سامان رہے تھے ۔۔۔ مگر اس نے قلعہ نئے سرے سے بنوایا، گھوڑے کی جگہ پجارو آگئی۔میں نے اس کے پاس بڑھیا سے بڑھیا کلاشنکوف دیکھی ۔۔۔ وہ بڑا شوقین مزاج ہے اس سلسلے میں۔‘‘
ایک مرتبہ وہ پھر چپ ہو گیا ۔ شاید اسے اَپنی کہی ہوئی بات کی تصحیح کی ضرورت پڑ گئی تھی ، منھ ہی منھ میں بڑ بڑ ایا: ’’ شوقین مزاج ہے کہاں؟ ، کبھی تھا۔‘‘ گلا صاف کرنے کو تھوڑا سا کھانسا اور اَپنی بات کو آگے بڑھا تے ہوے کہا: ’’ جس سال قلعہ مکمل ہوااُسی برس اُس نے بیٹی کے نام سے مسجد بنوانی شروع کی۔ ہم نے کبھی نہ سنا تھا کہ کسی نے اَپنی ہی بیوی کا نام یوں سرعام لیا ہو۔۔۔اُس نے قبرستان میں سب کے سامنے لیا تھا۔ اس سارے علاقے میں آج تک گھر کی کسی خاتون کے نام پر کسی نے مسجد کا نام بھی نہیں رکھا تھا ۔۔۔ مگر۔۔۔ اس نے رکھا ۔۔۔ جب رکھ دیا تو لوگ تعجب کا اظہار کرتے تھے ۔۔۔ تاہم جب عالیشان مسجد مکمل ہو گئی تو سب اُس کی بیٹی نور کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔‘‘
کاکڑ نے اِدھر اُدھر خالی نظروں سے دیکھا ،لمبی سانس لی تو ’آہ،نکل گئی کہا: ’’ بَد قسمت‘‘
اور پھر بولتا چلا گیا: ’’ جس برس مسجد نور مکمل ہوئی تھی نا، اس سے اگلے برس بارش کی ایک بوند نہ پڑی تھی اور اس سے اگلے سات سال بھی خالی چلے گئے ۔ پہلے پہل اس کے ہاں پانی کی کمی نہ تھی اس کے باغ کی سیرابی کے لیے آٹھ ٹیوب ویل تھے پانچ نیچے، تین اوپر۔۔۔ مگر جو ں جوں زمین کے اندر پانی کی سطح گرتی چلی گئی توں توں وہ بوکھلا کر جو سمجھ آیا، یاجس نے جو صلاح دی کرتا چلا گیا۔ مسلسل خشک سالی نے اس کا سب کچھ نگل لیا۔ ایک ایک کرکے ٹیوب ویل خشک ہوتے رہے۔ وہ سوکھتے باغ کو بچانے کے لیے ہر برس دو تین نئے بور لگواتا رہا مگر زمین کا پیٹ بانجھ عورت کے رحم کی طرح خالی نکلتا ۔ اس کے پاس جو جمع جتھا تھا اسی میں اٹھ گیاپھر وہ مقروض ہوتا چلا گیا ۔۔۔ مگر وہ باغ نہ بچا پایا۔‘‘
اگلے روز جب ہم خد خانزئی ، میاں خانزئی ، طور مرغہ ، کڑی درگئی اور کِلی سرخانزئی کے علاقوں سے گزرے تو حد نظر تک درختوں کے کٹے تنے نظر آئے،صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہاں کبھی سیبوں کے باغ تھے ، گھروں پر پڑے تالے مکینوں کی نقل مکانی کا نوحہ سناتے تھے ۔ یوں لگتا تھا ایک عذاب الہی تھا جو پوری بستی کو روند کر نکل گیا تھا۔ بند خُوِشدل خان خشک پڑا تھا، پانیزئی نے بتایا کہ ہمارے بزرگوں میں سے بھی کسی نے اس بند کو پہلے خشک ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ گاڑی تِرائی سے اُوپر نکلی تو پانیزئی نے اِطلاع دی : ’’ ہم برشور کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں۔ ‘‘
کاکڑ نے خشمناک آنکھوں سے پانیزئی کو دیکھا جیسے اس نے یہ اطلاع قبل از وقت دے دی تھی یا جیسے یہ اطلاع یوں نہیں دی جانی چاہئے تھی ۔ تاہم وہ چپ رہا حتی کہ مسجد کے مینار نظر آنے لگے۔ اُس نے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا۔ گاڑی رک گئی ہم سب اس کے پیچھے پیچھے سڑک پر اُتر آئے۔اُس نے اوپر پہاڑیوں کی تنی چھاتیوں کی سمت اُنگلی اُٹھائی اور کہا: ’’ آسمان سے ایک بوند بھی ٹپکے۔۔۔ اُن دو چوٹیوں کے بیچ سے پھسلتی نیچے دامن میں آ جاتی ہے۔‘‘
اُس کی انگلی پہاڑی کی ناف تک چلی آئی تھی، وہاں تک ،جہاں زمین ہموار کرکے اُوپرتلے کئی تختے بنا دیئے گئے تھے۔ انہی تختوں پر سیدھی قطاروں میں سیاہ لمبوترے نقطے سے نظرآتے تھے جو نیچے دامن تک چلے گئے تھے۔ کاکڑ نے بتایا تھا کہ وہ درختوں کے باقی رہ جانے والے ٹھنٹھ تھے۔ اُس نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب باغ آباد تھا تو پوری وادی میں زمین کے ایک چپے پر بھی نگاہ نہ پڑتی تھی مگرہم نے جدھر دیکھا اُدھرجہنم کے شعلوں جیسی مٹی ہی نظرآتی تھی۔
اسی جہنم کے بغلی حصے میں گاؤں کی آبادی تھی۔گھروں کا سلسلہ جہاں ختم ہوتا تھاوہیں وہ مسجد تھی جس کا ہم مسلسل ذکر سنتے آئے تھے۔مسجد واقعی عالیشان تھی۔میں نے اندازہ لگایا اس آبادی کے گھروں میں بسنے والے سارے مرد، عورتیں اور بچے بھی اس کے صحن میں جمع ہو جاتے تب بھی اس کا تین چوتھائی حصہ دوسری بستیوں سے آنے والے نمازیوں کے لیے بچ رہتا اور دوسری آبادیوں والے آ جاتے تو بھی شاید سارا صحن نہ بھر پاتا۔
’’وہ نور مسجد ہے نا۔‘‘
مجھے پوچھنے کی ضرورت نہ تھی مگر میں نے پوچھ لیا۔ اس بار پانیزئی بولا: ’’ یقیناً‘‘۔۔۔
’’اتنی بڑی!‘‘ میرا اگلا سوال تھا۔
کاکڑ بولا : ’’ تب وہ کہتا تھا ، مجھے جنت میں اتنا ہی بڑا گھر چاہیئے۔‘‘
ہم چلتے چلتے نیچے تک آ گئے تھے، اتنے میں ڈرائیور اوپر سے گاڑی گھما کر لے آیا ۔ اب ہم اُس راستے پر تھے جو باغ کی چاردیواری کے ساتھ ساتھ آبادی تک چلتا تھا۔ کاکڑ نے بتایا :’’اب یہ باغ ترین کا نہیں ہے۔‘‘۔۔۔
’’ کیا مطلب؟‘‘ کنوینئر نے پوچھا: ’’ ابھی تو تم کَہ رہے تھے کہ یہ باغ تاج محمد ترین کا ہے؟۔‘‘
’’ یہ باغ ترین ہی کا تھا مگر اِسے تباہی سے بچانے کے لیے اس نے زر گل سے جو قرض اٹھایا تھا اس میں یہ باغ، وہ قلعہ اور اس کا سارا اسباب بک چکا ہے ۔۔۔ اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ابھی اسے آدھے سے زیادہ قرض دینا ہے۔‘‘
زرگل کے بارے میں ہمیں پہلے ہی بتایا جاچکا تھا کہ وہ سرحد کے اِدھرُ ادھر آتا جاتا رہتا اور خوب کماتا تھا۔سارے علاقے میں پے منٹ کے نام کے حیلے سے سود پر قرض دیتاتھا۔
زر گل کا نام آیا تو کاکڑ نے بتایاکہ کل جب وہ ہوٹل سے اپنے گھر گیاتھا تو ترین وہاں اس کا پہلے سے منتظر تھا اور اس نے بتایاتھا کہ قرض کی واپسی کے لیے زرگل بہت دباو ڈال رہا تھا ۔زرگل کے لمبے ہاتھ تھے ۔اخروٹ آباد کے چند تلنگے ہر وقت اس کے ساتھ رہتے تھے۔اس کا دباؤ کوئی بھی برداشت نہ کر پاتا تھا لہذا ترین کا یوں پریشان ہونا بجا تھا ۔کاکڑ نے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوے اضافہ کیا تھا: ’’ میں اس کی کتنی مدد کر سکتا تھا۔۔۔چالیس پچاس ہزار حد سے حد ایک لاکھ۔۔۔ جتنا اس نے اٹھایا تھا، اسے ہم جیسے سفید پوشوں کی مدد سے نہیں اتارا جاسکتا تھا۔‘‘
گاڑی عین مسجد کے سامنے رک گئی تھی کہ پچیس تیس آدمی مسجد سے نکل رہے تھے ۔کاکڑ یک دم گاڑی سے اترا، لمبے لمبے قدم اٹھاتا لوگوں کے وسط میں سر نیوڑھائے کھڑے اس شخص کے پاس پہنچا، جس کے بارے میں پانیزئی نے بتا یا کہ وہ ترین تھا۔
ابھی ہم گا ڑیوں سے اتر ہی رہے تھے کہ ہمیں دھاڑیں مار مار کر رونے کی آواز سنائی دی ۔ دیکھا تو ترین کا کڑ کی چھاتی سے لگا ’’ہائے نور، ہائے نور‘‘ کہتا پچھاڑیں کھا رہا تھا۔اس سے دگنی عمر والے تسبیح اُٹھائے دودھ جیسی سفید ریش والے معزز نظرآنے والے شخص نے اس کے کندھے پر اَپنی تسبیح والا ہاتھ رکھا اور کہا:’’ترین کیوں تماشابناتے ہو تم نے پچھلے سات سالوں میں جتنی پے منٹ مانگی میں نے دی ۔۔۔میں نے دی نا؟۔۔۔ دیکھو میں نے تمہاری بیٹی سے اتنے شریف لوگوں کے سامنے نکاح کیا ہے۔۔۔ اب باقی قرض میں خدا رسولؐ کے نام پر تمہیں معاف کرتا ہوں ۔‘‘
ترین چپ ہونے کے بہ جائے اور شدت سے چیخا:’’خدا رسولؐ کے نام پر۔۔۔؟‘‘
پھر وہ ’’ ہائے نور‘‘ کہتا مسجد کی سمت بڑھااور ایک ستون کو دونوں ہاتھوں میں جکڑ کر یوں جھنجھوڑنے لگا جیسے پوری مسجد کو کھسکا کر کہیں لے جانا چاہتا ہو، حتی کہ وہ نڈھال ہو گیا۔بے بسی سے سر ستون کے ساتھ ٹکرایا اور کہا: ’’ کاش میں تمہیں بیچ کر نور، اَپنی نور کو بکنے سے بچا لیتا۔‘‘
’’کیا کفر بکتے ہو‘‘
زرگل چیخا۔ اس کا ہاتھ فضا میں یوں ناچا کہ موٹے دانوں والی لمبی تسبیح دائرہ بناتی دائیں بائیں جھولنے لگی۔ اس کے ساتھ کھڑے ہٹے کٹے دو آدمیوں نے اشارہ پاکر اسے مسجد کے ستون سے زبردستی الگ کیا اور کھینچتے ہوے قلعے میں لے چلے مگر وہ مسلسل کَہ رہا تھا : ’’کاش میں تمہیں بیچ سکتا نور‘‘ ۔۔۔
آواز دور ہوتی جا رہی تھی ، ہم گاڑی میں بیٹھے تو ایک دفعہ پھر ایک دوسرے سے آنکھیں چرا رہے تھے۔ہم جلد ہی برشور کی حدود سے نکل آئے مگر برشور ہمارا پیچھا کرتا رہا۔