بنیادی تنقیدی تصورات : تھیئری (theory) کی ایک اہم کتاب کا اردو ترجمہ
تبصرۂِ کتاب، ڈاکٹر محمد شیراز دستی
گذشتہ برس گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو میرے ایک دوست الیاس بابراعوان ایک دن میرے دفتر تشریف لائے اور کہنے لگے کہ میں پیٹر بیری (Peter Barry) کی کتاب Beginning Theory“” کا ترجمہ کر رہا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ میں ہفتے میں ایک دن کچھ ترجمہ کر کے آپ سے ڈسکس کر لیا کروں۔ میں نے کہا ،”کیوں نہیں، یہ تو بہت اہم کام ہے۔ میں ضرور ڈسکس کرنا چاہوں گا، اس بہانے میں بھی کچھ سیکھ لوں گا۔ “لیکن دل میں مجھے پکا یقین تھا کہ گرمیوں کی ان چھٹیوں میں یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ مگر ٹھیک ایک ہفتے بعد الیاس بابراعوان “بنیادی تنقیدی نظریات” کا پہلا باب بغل میں دابے میرے دفتر پہنچ گئے۔
خیر میں نے خود کو تسلی دی کہ شروع میں ہم سب بہت motivated ہوتے ہیں۔ اگلے ہفتے نہیں آئیں گے۔ شاعر ہیں، کسی بھی وقت نمل (NUML) کی کسی بس کے اندر بسی خوشبو پہ غزل چھیڑ بیٹھیں گے۔ نوجوان آدمی ہیں، کرکٹ میچوں کے اگلے سیزن کے لیے پیپسی کا کریٹ منگوا کر تکیے کی ٹیک لگا لیں گے۔ فوٹوجینک ہیں فیس بک پر اپنی تصویر ڈال کر دن میں پانچ پانچ سو مرتبہ لائکس اور کمنٹس دیکھیں گے۔
ایک شخص جس کی زندگی میں یہ سب کام ہو سکتے ہوں وہ پیٹر بیری کی ضخیم کتاب کے ترجمے میں نہیں الجھے گا۔ خاص طور پر ایک تخلیق کار ترجمے جیسے تھینک لیس کام میں کیسے محو ہو سکتا ہے؟ مگر آپ حیران ہوں گے کہ الیاس بابراعوان نے religiously اپنے بنائے ہوئے شیڈیول کی پیروی کی اور ایک طویل عرصے تک ہر منگل کو میرے ساتھ اپنا ترجمہ شیئر کیا۔
اس سے انہیں کیا فائدہ ہوا یہ تو میں نہیں جانتا البتہ ان ملاقاتوں سے میری بہت تعلیم ہوئی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر منگل والے دن یہ اپنا ترجمہ میرے ساتھ شیئر کرتے تھے تو بدھ، جمعرات وغیرہ کو کچھ اور دوستوں کو بھی ضرور پابند کیا ہو گا۔ یہی ایک اچھے اسکالر کی خوبی ہوتی ہے۔ ایک اچھے ترجمہ نگار کی طرح الیاس بابراعوان نےکبھی اپنی سوچ کو حتمی نہیں سمجھا۔ ایک ایک اصطلاح کے ترجمے کو کئی دوستوں سے ڈسکس کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اسے کیا نام دیا جائے؟ ان کی اس محنت کا ثمر آج “بنیادی تنقیدی تصورات” کی صورت میں ہمارے سامنے کتابی شکل میں موجود ہے۔
مزید ملاحظہ کیجیے: تنقید ادبی سر گرمی کیسے بن سکتی ہے؟ از، محمد حمید شاہد
ہم سب جانتے ہیں کہ تھیئری کی زبان مشکل ہوتی ہے۔ نظریہ دان کا علاقہ ہماری کائنات کے مشکل موضوعات سے ہوتا ہےاور انہیں آسان انداز میں بیان کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ پیٹر بیری نے اپنی کتاب میں اسے انتہائی سہل بنانے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کوشش میں اس سے زیادہ کامیاب ہمارا ترجمہ نگار ہوا ہے، جس نے نہ صرف اردو کے آسان الفاظ کا استعمال کیا بل کہ جہاں کہیں بھی کوئی انگریزی کی اصطلاح استعمال ہوئی اس کو اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی لکھ دیا تاکہ اگر کسی نے اس پر مزید کچھ پڑھنا ہو تو اس کے لیے آسانی ہو کہ وہ اس اصطلاح پر موجود انگریزی مواد سے استفادہ کر سکے۔
اس کتاب کی اشاعت سے میں الیاس بابراعوان کے وژن کا بھی قائل ہوا ہوں۔ انہوں نے ہماری ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اہم کتاب کا انتخاب کیا؛ پھر اس کا بروقت اور بہترین ترجمہ کیا؛ اسے شائع کروا کے متعلقہ قارئین تک اس کی فراہمی کو ممکن بنایا اور ایک بہت ہی اچھا کام انہوں نے یہ کیا کہ کتاب کا پیش لفظ میری معلم ڈاکٹر نجیبہ عارف سے لکھوا لیا، جسے پڑھ کر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ تھیئری کب، کیسے اور کن حالات میں وجود میں آئی؟ علاوہ ازیں اس کتاب میں شامل فکرِ تازہ کے معلم و مبلغ ڈاکٹر روش ندیم کا مضمون “تھیئری کا شعور: ایک نیا چیلنج” ہمیں کئی ایسے سوال سوچنے پر مجبور کرتا ہے جنہیں ساتھ لے کر آگے بڑھیں تو پیٹر بیری کی کتاب کی بہتر تفہیم ہوسکتی ہے۔
اردو میں تھیئری پر جن لوگوں نے لکھا ہے ان میں ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، قاضی افضال حسین، پروفیسر حامدی کاشمیری، ڈاکٹر عتیق اللہ، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، ڈاکٹر مولا بخش، سید خالد قادری، قاسم یعقوب اور احمد سہیل، جیسے کئی اکابر و احباب شامل ہیں لیکن میں بعض وجوہات کی بنا پر اس کتاب کو اردو میں مغربی تھیئری پر موجود درسی مواد کی ضمن میں، ایک اہم اور وقیع کام سمجھتا ہوں۔
اس کتاب کو ایک اختصاص تو یہ حاصل ہے کہ اب تک لکھی جانے والی باقی کتب کے مقابلے میں یہ ادبی تھیئری پر ایک مکمل کتاب ہے یعنی اس وقت تک ادب کے مطالعے کے لیے جتنے بھی چھوٹے بڑے نظریات پیش کیے گئے ہیں ان سب کا بنیادی تعارف اس میں موجود ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ پیٹر بیری نے یہ کتاب لکھی ہی اس مقصد سے تھی کہ اسے پڑھ کر طلبہ تھیئری کا ادب پر اطلاق کر سکیں۔ لہذا اس کتاب کی دستیابی نے ہمارے طلبہ کے لیے نہ صرف تھیئری کی تفہیم آسان بنا دی ہے بل کہ تھیئری کی مدد سے ادبی متون کا مطالعہ بھی آسان کر دیا ہے۔
مزید بر آں اس کتاب کی مدد سے ہم اپنےادب، سماج، اور طرزِ زندگی کو اپنے سماجی تناظر میں تھیورائز کر سکتے ہیں اور اس سے بھی ایک اور قدم آگے جا کر مغربی ادبی نظریات کے نقائص پر سوال اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح ہم سب جو پہلے ہی اپنے تنقیدی شعور کو استعمال کر کے تھیئری کو ہماری نظریاتی روایات میں پرکھتے ہیں، اسے پڑھ کراور بھی زیادہ مدلل انداز میں جواب آں تھیئری دے سکیں گے۔