بے لگام اور بے رحم

زاہدہ حنا

بے لگام اور بے رحم

از، زاہدہ حنا

کبھی یوں ہوتا ہے کہ کسی کے مقدر کا ستارہ زندگی کا سورج غروب ہونے کے بعد طلوع ہوتا ہے۔ سعادت حسن منٹو کے ساتھ یہی ہوا۔ وہ تقسیم سے پہلے ممبئی میں تھے تو کامیاب لکھنے والے تھے۔ تقسیم کے بعد بیوی کے اصرار پر پاکستان آئے، تو نئی سرزمین انھیں راس نہ آئی۔ زندہ تھے تو فحش نگار اور غیر ذمے دار کہے گئے، وہ شراب پیتے تھے اور آخری دنوں میں ان کی شراب نوشی اتنی بڑھی کہ وہ ان کو پی گئی۔ وہ ایک ناکام انسان کے طور پر زندگی سے گزرے۔

ممبئی میں وہ جس فلمی دنیا سے وابستہ تھے اور جہاں انھیں 5000 روپے مہینہ ملتا تھا، اس کا عشر عشیر بھی انھیں پاکستان میں میسر نہ آیا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ممبئی میں ان کے قدردان رہتے تھے اور لاہور میں جہاں ایک نو آزاد مملکت کا غلغلہ تھا، وہاں وہ بے توقیر ہوئے اور اس کے ساتھ ہی مفلس بھی۔ ان کی خود داری کو کچھ لوگوں نے اپنی ایڑیوں سے کچل دیا۔ وہ منٹو جو اردو ادب کا ایک بڑا نام تھے، 10 روپے کے ایک پوے کے لیے اپنے افسانے کچھ مدیروں کے ہاتھوں فروخت کرنے لگے، یوں ہمارا ایک بڑا ادیب لاہور میں اپنی جان سے گزر گیا۔

برسوں وہ مطعون رہے۔ اب کچھ دنوں پہلے وہ اردو افسانے کے افق پر طلوع ہوئے اور اس وقت ماہ کامل کے طور پر افسانے کے آسمان پر چمکتے ہیں۔ چند ہفتوں پہلے ان کا یوم وفات گزرا ہے، اس موقع پر مشہور ادبی مجلے نقوش کے مدیر محمد طفیل کا ’’توشۂ خاص‘‘ سوشل میڈیا پر گردش میں رہا۔

ستمبر اکتوبر 1954ء کا ’نقوش‘ شائع ہوا تو اس میں محمد طفیل نے منٹو صاحب کی تحریر اس نوٹ کے ساتھ شائع کی کہ ’’ہمارا خیال ہے خود ادیبوں سے بھی اپنی ذات کے بارے میں لکھوانا چاہیے کہ وہ خود کو کس عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس شمارہ میں منٹو صاحب نے اپنے بارے میں کچھ فرمایا ہے۔ ان کا قلم چونکہ بڑا بے باک ہے اس لیے وہی بے باکی انھوں نے اپنے بارے میں بھی اختیار کی ہے۔ ویسے یہ بڑی ہمت کی بات ہے کہ جس طرح ان کا قلم دوسروں کے لیے ’’بے لگام‘‘ ہے، وہی قلم اپنے لیے بھی انتہائی بے رحم ہے۔‘‘

اس تحریر کی اشاعت کے چند مہینوں بعد منٹو کا انتقال ہوگیا اور اپنے بارے میں یہ تعزیتی تحریر منٹو کی اہم تحریروں میں شمار کی گئی۔ منٹو نے اپنے بارے میں لکھا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ منٹو کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا بڑا کٹھن کام ہے، لیکن ایک لحاظ سے آسان بھی ہے اس لیے کہ منٹو سے مجھے قربت کا شرف حاصل رہا ہے اور سچ پوچھیے تو منٹو کا میں ہمزاد ہوں۔‘‘

اب تک اس شخص کے بارے میں جوکچھ لکھا گیا ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ان مضامین میں پیش کیا گیا ہے حقیقت سے بالاتر ہے۔ بعض اسے شیطان کہتے ہیں، بعض گنجا فرشتہ… ذرا ٹھہریے، میں دیکھ لوں کہیں وہ کم بخت سن تو نہیں رہا… نہیں ٹھیک ہے، مجھے یاد آگیا کہ اس وقت وہ پیا کرتا ہے۔ اس کو شام کے چھ بجے کے بعد کڑوا شربت پینے کی عادت ہے۔ ہم اکٹھے ہی پیدا ہوئے اور خیال ہے کہ اکٹھے ہی مریں گے، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے اور ہمیشہ مجھے یہ اندیشہ بہت دکھ دیتا ہے۔ اس لیے کہ میں نے اس کے ساتھ اپنی دوستی نبھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، اگر وہ زندہ رہا اور میں مرگیا تو ایسا ہوگا کہ انڈے کا خول تو سلامت ہے اور اس کے اندر کی زردی اور سفیدی غائب ہوگئی۔

یوں تو منٹو کو میں اس کی پیدائش ہی سے جانتا ہوں۔ ہم دونوں اکٹھے ایک ہی وقت 11 مئی 1912ء کو پیدا ہوئے لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ خود کو کچھوا بنائے رکھے، جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن اندر چھپا لے تو آپ لوگ ڈھونڈتے رہیں لیکن اس کا سراغ نہ ملے۔ لیکن میں بھی آخر اس کا ہمزاد ہوں۔ میں نے اس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا۔ منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا باعث ہے۔ اس کے والد، خدا انھیں بخشے، بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل۔ ان دو پاٹوں کے اندر پس کر یہ دانۂ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہوگا، اس کا اندازہ آپ کرسکتے ہیں۔

اس کی افسانہ نگاری کے متعلق سنیے، وہ اول درجے کا فراڈ ہے۔ پہلا افسانہ اس نے بعنوان ’’تماشہ‘‘ لکھا، جو جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے سے متعلق تھا۔ یہ اس نے اپنے نام سے نہ چھپوایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس کی دست برد سے بچ گیا۔ اس کے بعد اس کے متلون مزاج میں ایک لہر پیدا ہوئی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے۔ یہاں اس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اس نے انٹر کا امتحان دو بار فیل ہوکر پاس کیا، وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں، اور آپ کو یہ سن کر بھی حیرت ہوگی کہ وہ اردو کے پرچے میں ناکام رہا۔

لوگ کہتے ہیں کہ وہ اردو کا بہت بڑا ادیب ہے اور میں یہ سن کر ہنستا ہوں۔ اس لیے کہ اردو اب بھی اسے نہیں آتی۔ وہ لفظوں کے پیچھے یوں بھاگتا ہے جیسے کوئی جال والا شکاری تتلیوں کے پیچھے۔ وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریروں میں خوبصورت الفاظ کی کمی ہے۔ وہ  لٹھ مار ہے، لیکن جتنے لٹھ اس کی گردن پر پڑے ہیں، اس نے بڑی خوشی سے برداشت کیے ہیں۔

وہ اکثر کہا کرتا ہے کہ وہ افسانہ نہیں سوچتا، خود افسانہ اسے سوچتا ہے۔ یہ بھی ایک فراڈ ہے، حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جب اسے افسانہ لکھنا ہوتا ہے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جب کسی مرغی کو انڈا دینا ہوتا ہے، لیکن وہ یہ انڈا چھپ کر نہیں دیتا، سب کے سامنے دیتا ہے۔ اس کے دوست یار بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس کی تین بچیاں شور مچا رہی ہوتی ہیں اور وہ اپنی مخصوص کرسی پر اکڑوں بیٹھا انڈے دیے جاتا ہے جو بعد میں چُوں چُوں کرتے افسانے بن جاتے ہیں۔ اس کی بیوی اس سے بہت نالاں ہے۔ وہ اس سے اکثر کہا کرتی ہے کہ تم افسانہ نگاری چھوڑ دو … کوئی دکان کھول لو۔

افسانہ لکھنے کے معاملے میں وہ نخرے ضرور بگھار رہا ہے لیکن میں جانتا ہوں، اس لیے… کہ اس کا ہمزاد ہوں… کہ وہ فراڈ کررہا ہے۔ اس نے ایک دفعہ خود لکھا تھا کہ اس کی جیب میں بے شمار افسانے پڑے ہوتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے، جب اسے افسانہ لکھنا ہوگا تو وہ رات کو سوچے گا… اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ صبح پانچ بجے اٹھے گا اور اخباروں سے کسی افسانے کا رس چوسنے کا خیال  کرے گا… لیکن اسے ناکامی ہوگی، پھر جھنجھلا کر اپنی بیوی سے خوامخواہ کا جھگڑا شروع کردے گا۔ یہاں سے بھی ناکامی ہوگی تو باہر پان لینے کے لیے چلا جائے گا۔

پان اس کی ٹیبل پر پڑا رہے گا لیکن افسانے کا موضوع اس کی سمجھ میں پھر بھی نہیں آئے گا۔ آخر وہ انتقامی طور پر قلم یا پنسل ہاتھ میں لے گا اور 786 لکھ کر جو پہلا فقرہ اس کے ذہن میں آئے گا، اس سے افسانے کا آغاز کردے گا۔ بابو گوپی ناتھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، ممی، موذیل، یہ سب افسانے اس نے اسی فراڈ طریقے سے لکھے ہیں۔

یہ عجیب بات ہے کہ لوگ اسے بڑا غیر مذہبی انسان سمجھتے ہیں اور میرا بھی خیال ہے کہ وہ کسی حد تک اس درجہ میں آتا ہے۔ اس لیے کہ اکثر اوقات وہ بڑے گہرے موضوعات پر قلم اٹھاتا ہے، اور ایسے الفاظ اپنی تحریر میں استعمال کرتا ہے جن پر اعتراض کی گنجائش بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ جب بھی اس نے کوئی مضمون لکھا، پہلے صفحے کی پیشانی پر 786 ضرور لکھا جس کا مطلب ہے بسم اﷲ… اور یہ شخص جو اکثر خدا سے منکر نظر آتا ہے کاغذ پر مومن بن جاتا ہے، یہ وہ کاغذی منٹو ہے، جسے آپ کاغذی باداموں کی طرح صرف انگلیوں ہی میں توڑ سکتے ہیں، ورنہ وہ لوہے کے ہتھوڑے سے بھی ٹوٹنے والا آدمی نہیں۔

اب میں منٹو کی شخصیت کی طرف آتا ہوں، جو چند القاب ہیں بیان کیے دیتا ہوں، وہ چور ہے، دغاباز ہے اور مجمع گیر ہے۔ منٹو جھوٹ بقدر کفایت بولتا ہے لیکن اس کے گھر والے، مصیبت ہے کہ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس کی ہر بات جھوٹی ہے… اس تِل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو۔ وہ ان پڑھ ہے، اس لحاظ سے کہ اس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا، فرائیڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گزری، ہیگل کا وہ صرف نام ہی جانتا ہے، ہیولک ایلس کو وہ صرف نام سے جانتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ… میرا مطلب ہے تنقی دنگار یہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام مفکروں سے متاثر ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، منٹو کسی دوسرے شخص کے خیال سے متاثر ہوتا ہی نہیں‘‘۔

’’نقوش‘‘ کے لیے منٹو نے اپنا جو تعزیت نامہ لکھا وہ بہت تفصیلی ہے، اس کے صرف چند حصے یہاں دیے گئے ہیں، اس تحریر کو لکھنے کے صرف 3 مہینے بعد اس دنیا سے خون تھوکتا ہوا رخصت ہوا۔ اپنے بارے میں اس نے جو کچھ لکھا، اس کا کٹیلاپن ہلا کر رکھ دیتا ہے، اس کا سفاک قلم ہی اپنے بارے میں یہ تحریر لکھ سکتا تھا۔

اب کئی برس سے منٹو پر کیسی کیسی کتابیں سامنے آرہی ہیں، فلمیں اور ٹیلی پلے بنے ہیں، اس کی تعریف و توصیف میں کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ کاش اسے زندگی میں بھی کچھ سراہا جاتا۔ وہ تڑپ تڑپ کر عصمت چغتائی اور بعض دوسرے دوستوں کو یہ نہ لکھتا کہ مجھے واپس ممبئی بلالو۔ اس کی آواز کسی تک نہ پہنچی اور وہ حالات کے بھنور میں ڈوب گیا۔ شاید ساتویں آسمان پر بیٹھا اب وہ غالب کا یہ شعر گنگناتا ہو کہ:

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

express.pk