بے وضو لا پتہ نماز
از، وارث رضا
ہمارے خطے اور ملک میں آج کل کے تناؤ زدہ سیاسی ماحول میں سیاست کی کوئی کَل سیدھی ہی دکھائی نہیں دیتی۔ بر سرِ اقتدار جماعت تحریک انصاف جو ملک کے عوام کو انصاف اور خوش حالی کے نام پر لائی گئی تھی وہ بھی آئیں بائیں شائیں کے تبدیل شدہ بیانیے کا شکار نظر آتی ہے ہے۔ جب کہ اس کو لانے والے طاقت ور حلقے اب اس بات پر فکر مند ہیں کہ انہوں نے تحریک انصاف کو لانے میں اس قدر عجلت کیوں دکھائی کہ وہ نماز سے پہلے وضو نہ کرنے کی کیفیت سے دو چار ہو گئی۔
جس طرح نماز سے پہلے وضو کرنا عبادت کا ایک حصہ ہوتا ہے اسی طرح کسی بھی فرد یا سیاسی بساط پر کسی گروہ کو لانے سے پہلے اس کی سوچ اور معیار کو جانچنا بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف رخ کرتا ہے۔ سو یہی کچھ طاقت کے خداؤں کے ساتھ ہاتھ ہو گیا کہ جنہوں نے تحریک انصاف کو زبردستی مانگ تانگ کی عددی اکثریت دلائی اور اس امید سے تحریک انصاف کی حکومت بنوائی کہ کاٹھ کے الو کا پتلی تماشا پاکستانی عوام کے ساتھ پانچ برس جاری رکھ کر اپنے بین الاقوامی اور خطے کے مفادات کا کھیل بہ آسانی کھیل لیں گے۔
مگر، ڈھاک کے تین پات کی مانند عرف عام میں تحریک انصاف کے ”چول“ آنکھ پھاڑے کبھی نواز شریف کے بیرون ملک چلے جانے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو کبھی مولانا کے آزادی مارچ کی نا کامی کے ڈھول کو پیٹا جا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی غلامی میں ملک کی مہنگائی، بے روز گاری، معاشی تباہی سمیت لا پتہ ہونے والے غیر قانونی اقدامات اور سیاسی ابتری کے تسلسل سے پی ٹی آئی کے کارکنان اور حامی مکمل غافل ہیں، اور مجال جو انہیں یہ مذکورہ غیر جمہوری اقدامات نظر آ جائیں۔
دوسری جانب عمران خان کی حکومتی اتحادی جماعتیں بالعموم اور اختر مینگل کی جماعت حکومت سے شاکی نظر آتی ہیں۔ بی این پی کا شکوہ ہے کہ اتحاد سے پہلے کے مطالبے لا پتہ افراد کی باز یابی سے موجودہ حکومت ایسی غافل ہے کہ انہیں لا پتہ افراد کی باز یابی یاد ہی نہیں۔
بی این پی کے بلوچ رہنما کا شکوہ پاکستانی میڈیا پر آ چکا ہے کہ عمران خان کی حکومت لا پتہ افراد کی باز یابی کے مطالبے سے مسلسل راہ فرار اختیار کر رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ عمران حکومت کسی خلائی طاقت کے کنٹرول میں ہے جو لا پتہ افراد کی گم شدگی کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔ بلوچ رہنما کا کہنا تھا کہ اختر مینگل کی وطن واپسی کے بعد پارٹی حکومت سے اپنے اتحاد کا اَز سرِ نو جائزہ لے گی۔
بی این پی کے لا پتہ افراد کی باز یابی کا ذکر اپنی جگہ مگر اس سلسلے میں تازہ واقعہ خیبر پختون خوا میں بھی ہو چکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اب بھی نا معلوم افراد دھرتی ماں کے بیٹوں کو بندی خانے میں قید کرنے کے در پے ہیں، خبر ہے کہ خیبر پختون خوا سے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور نیشنل پارٹی کے پختون رہنما ادریس خٹک بھی 13 نومبر اسلام آباد جاتے ہوئے صوابی انٹرچینج سے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد کے ہاتھوں اغوا کر لیے گئے ہیں۔ جن کا تا حال کوئی سراغ نہ مل سکا ہے۔
آمدہ اطلاعات کے مطابق ادریس خٹک کی ایف آئی آر تک نہیں کاٹی جا رہی جب کہ ادریس خٹک کے لواحقین اور سیاسی دوست ملک بھر میں صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ ادریس خٹک نے جامعہ کراچی سے تعلیم مکمل کی وہ دوران طالب علمی طلباء تنظیم ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے متحرک رکن رہے؛ لکھت پڑھت سے اپنے کنبے کا پیٹ پالنے والا سیاسی اور سماجی کارکن ادریس خٹک کئی روز سے لا پتہ ہے۔
نہیں معلوم کہ ادریس خٹک کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ گھر کے افراد کی آنکھیں دروازے پر ٹکٹکی لگائے ادریس خٹک کی منتظر کسی فون یا فون کال کی آواز سننے کی متمنی ہیں جو ان کی آنکھوں کے آنسوؤں کو خشک کر سکیں۔ معلوم نہیں ادریس خٹک کے سیاسی وارث کیا کر رہے ہیں۔ اگر اپنے دیس کی بہتری کے لیے خواب دیکھنا ہی جرم ہے تو پھر ادریس واقعی مجرم ہے بہ قولِ معین قریشی:
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا
ابتلاء کی عجب گھڑی ہے کہ ادریس خٹک کے دوست بے بس اور لواحقین لاچار۔ ماں ایسی ریاست اپنے بیٹے کے زندہ سلامت ہونے کی دعا میں مصروف ہے۔
یہ ادریس خٹک کی کہانی نہیں بل کہ ان ہزاروں کی بکا ہے جو اس عمرانی حکومت میں بے جرم و خطا راستوں سے سادہ لباس کے خلائی افراد کے ہاتھوں عقوبت گاہوں میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کی کن کن کوتاہیوں اور ناقص انتظام کا تذکرہ کیا جائے۔ جدھر دیکھو ایک عجیب اضطراب اور عوام کی پکار ہے۔ جو اپنی معاشی تنگ دستی کی داستان بھی اپنے سگے کو بتانے سے گریزاں کر دیے گئے ہیں۔
ہماری حکومت کے وزیر اعظم اپنے حریف سیاست دانوں کی نقلیں اتارنے میں قوم کو الجھائے ہوئے ہیں۔ ایک طرف پی ٹی آئی کی معاشی اور سیاسی حکمت عملی ناقص ہونے کے ساتھ مزاح کے مختلف گوشے وا کر رہی ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی کی غیر سیاسی سوچ اور بَہ غیر منصوبہ بندی حکومتی امور چلانے کی بے ڈھنگی چال دن بہ دن لنگڑی ہونے کے در پے ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کی خطے اور ملکی سیاسی پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین کا خیال ہے کہ پندرہ ماہ کی معاشی اور سیاسی میدان میں ناقص کار کردگی ملک کے مستقبل کی کم زوری کا عندیہ دیتی ہوئے خطر ناک حکومتی بیانیے کا پردہ چاک کر رہی ہے۔
ایک جانب باہمی دوستی کا دم بھرنے پر کرتار پور بارڈر بہ غیر کسی بندش اور قانونی شرائط کے کھولا جا رہا ہے تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر پر مودی پالیسی پر عملی اقدامات کے بہ جائے شدید زبانی رد عمل اور بیانات داغے جا رہے ہیں اور عالمی برادری کی جانب للچاتی نظروں سے کشمیر تنازعے اور کرفیو کی پابندی ختم کروانے کے لیے رحم کی بھیک مانگنے پر وزارت خارجہ کو لگا دیا گیا ہے۔
اسی اثناء سیاسی طور سے کم زور بیانیے کی حکومت کے پیش نظر امریکہ اپنی طاقت کے زور پر خطے میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے جال بچھانے میں مصروف نظر آتا ہے اور پاکستان کے چین سے اقتصادی تعلقات کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کسی طور برداشت کرنے پر تیار نہیں۔
اس کے مقابل خطے کے سیاسی اور معاشی حالات پر چین اور اس کے اتحادیوں کی نظریں بھی کسی ممکنہ ٹکراؤ کے لیے تیار نظر آتی ہیں۔ خطے کے اس سیاسی اور معاشی مفاد کے تناظر میں یہ خطہ واضح طور پر امریکی مفادات اور چینی مفادات کی کشیدگی کا حصہ بننے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
اس منظر نامے میں پی ٹی آئی کی کم زور سیاسی اور خارجہ پالیسی طاقت کے توازن میں امریکہ کی جانب جھکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جس سے خطے میں افغان جنگ کی طرح ایک معاشی بحران جنم لے سکتا ہے۔ چُوں کہ سیاسی اور خارجہ امور کی کم زور گرفت رکھنے والی پی ٹی آئی حکومت ملکی بحران میں پھنسے رہنے کی وجہ سے آئی ایم ایف کے بھر پُور ٹیکس عوام سے لینے پر مُصر ہے تو دوسری جانب حکومت اپوزیشن کی مہنگائی اور بے روز گاری کے بیانیے کو کم کرنے میں نا کام نظر آتی ہے۔
اس پورے سیاسی ماحول میں پی ٹی آئی حکومت کے تبدیل کیے جانے کی صدائیں بھی ہیں، جن میں ملکی اپوزیشن کے ساتھ چین کے خطے میں معاشی مفادات کا دباؤ بھی شامل ہے۔ اس ساری صورت حال میں ایسا لگتا ہے کہ عمران حکومت بہ غیر کسی معاشی اور خارجہ پالیسیوں کی تیاری کے لائی گئی ہے۔
اس کا مکمل فائدہ اپوزیشن اور طاقت ور ادارے اٹھانے پر کمر بستہ ہیں، گویا کہ پی ٹی آئی کی حکومت بہ غیر منصوبہ بندی کے ایسی ہی ہے جیسے کہ بے وضو نماز ادا کر دی جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنی معاشی اور سیاسی کم زوریوں پر کیسے اور کیوں کر قابو پا سکتی ہے یا پھر … ؟