(ناصر عباس نیر)
دو ہفتے پہلے حیدرقریشی سے طے پایا تھا کہ میں ۲۰؍مئی کو انھیں، ان کے گھر واضحہیٹرسائم ملنے آؤں گا۔ ملاقات بھی ہو جائے گی اور سیر بھی! کل رات میں نے ایک پاکستانی ناصر خاں کی مدد سے فرینکفرٹ کے لیے ٹرین کا ٹکٹ خرید لیا تھا۔ یہاں دو طرح کی ٹرینیں ہیں: تیز رَو اور آہستہ گام۔ پہلی کا ٹکٹ مہنگا اور دوسری کانسبتاً سستا ہوتا ہے، تاہم جرمنی میں سفر (خواہ بس کا ہو، ٹرام کایا ٹرین کا) قدرے مہنگا ہے۔ چناں چہ میں نے آہستہ گام یعنی ریجنل باہن (جسے ڈوئچے میں ریجائیونل بَہن کہتے ہیں) کا ٹکٹ لے لیا تھا۔ یہاں ٹکٹ پورے دن کے لیے ہوتا ہے۔ یہ آپ کی مرضی ہے کہ کس وقت سفر کرتے ہیں__ صبح چھے بجے بیدار ہوا۔ جلدی اٹھنے کی عادت نہیں، اس لیے کافی مشکل ہوئی، تاہم میں پیدل چلتا ہواساڑھے سات کے لگ بھگ ہائیڈل برگ بہن کوف پہنچ گیا ۔ معلوم ہوا مطلوبہ گاڑی آٹھ بج کر چوبیس منٹ پر آئے گی۔ میں نے کافی کا ایک کپ خریدا اور سٹیشن پر پڑی لکڑی کی ایک بینچ پر بیٹھ کر اسے جرعہ جرعہ پینے لگا۔ ہائیڈل برگ درمیانے سے بھی ذراکم درجے کا اسٹیشن ہے،پھر بھی یہاں ہر منٹ کوئی نہ کوئی گاڑی روانہ ہورہی ہوتی ہے۔سکرٹ اورجینزپہنے لڑکیاں ،نوجوان ، بوڑھے اورکہیں کہیں ایک آدھ بچہ بھی نظر آجاتاہے۔یہ ایک معمول کا منظر تھا۔ معمول کا منظر آدمی کو خود کلامی کی تحریک دیتا ہے۔
چند دن پہلے حیدر قریشی کو جدید ادب کا میراجی نمبر نکالنے پر تجویز دی تھی۔ انھوں نے کہا کہ میں موضوعات اور مصنفین کے بارے میں انھیں معلومات دوں۔ گرم گرم کافی کے گھونٹ لیتے ہوئے میراجی کو یاد کر رہا تھا، جسے پاکستان بننے کے بعد ایک طرح سے ہم نے اپنی ثقافتی و جمالیاتی فضا سے جلاوطن کر دیا تھا۔ ۱۹۴۸ء ہی سے ہماری تنقید میں پاکستانی ثقافت کو اسلام، عربی اور محمد بن قاسم سے منسلک کرنے کی جس بحث کا آغاز ہوا، اس میں میراجی کی جمالیات کی جگہ نہیں تھی۔ جن لوگوں نے پاکستانی ثقافت کو موہن جودڑو سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی، وہ رفتہ رفتہحاشیے پر چلے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھی کی فکر کی تقدیر سے میراجی کا ادبی مستقبل جڑا تھا__ مجھے یاد آیا اسی سال کے اوائل میں حلقہ اربابِ ذوق لاہور نے میراجی پر ایک نشست کا اہتمام کیا، مجھے بھی مدعو کیا۔ میں نے میراجی کی تنقید پر مقالہ پڑھا۔ اس نشست میں پندرہ سے زیادہ لوگ نہیں تھے۔ تین لوگوں نے زبانی گفتگو کی اور بے حد سرسری! یہ بات افسوس ناک تھی کہ جدید نظم اور جدید تنقید کے نقش گر، میراجی کے لیے محض چند لوگ آئے، مگر جس امر واقعہ نے اسے ایک المیے میں بدل دیا، وہ یہ تھاکہ یہ وہی حلقہ تھا جسے میراجی نے ایک مزاج دیا تھا، ایک ایسی شناخت دی تھی، جس پر حلقے سے وابستہ تمام ناقدین فخر کرتے ہیں۔ مگر دنیا میں یہ اکثر ہوتا ہے کہ ہم اپنے پُرکھوں کے کارناموں کا ذکر فخر سے کرتے ہیں، مگر ان کارناموں کے سلسلے کو نہ تو جاری رکھتے ہیں اور نہ اس روح کو قائم رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ کارنامے ممکن ہوئے تھے۔ دنیا کی یہ عمومی تاریخ، حلقے کی گذشتہ کئی سالوں کی کارکردگی میں خود کو دہرا رہی ہے__ بہ ہر کیف میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے موضوعات کی فہرست بنائی۔ اگر ان پر اچھے مقالات لکھے جا سکے تو امید ہے میراجی کے امتیازات کی طرف لوگوں کی توجہ ہوگی۔
بالآخرآہستہ گام نے قدم رنجہ فرمایا۔یہ گاڑی جدید دنیا کی ہاہو اور بھاگم بھاگ سے قطعاً بے نیاز تھی،اور ہماری ٹرینوں سے کافی مماثلت رکھتی ہے (یہی وجہ تھی کہ جدید دنیا کے لوگ بھی اس میں کم کم تھے)۔ یہ ہر چند منٹ بعد رک جاتی ۔پتا چلتا، کوئی چھوٹا سا سٹیشن ہے۔ یہ مزاجاً دیہاتی ہے۔ ہر ایک سے رہ و رسم اور سلام دعا کی قائل ہے اور اسے جلدی یا مقررہ وقت پہنچنے کی کوئی فکر نہیں تھی۔ چناں چہ یہ کوئی پونے دو گھنٹے میں فرینکفرٹ سٹیشن پر پہنچی۔ اسے پہلی بار دیکھا۔ کافی بڑا، وسیع، کئی سمتیں، کئی منزلیں۔ آدمی چکرا جاتا ہے اور نیا آدمی تو بوکھلا جاتا ہے۔ حیدر قریشی موجود تھے۔ ہم تیز تیز چلتے ہوئے ایک خاص پلیٹ فارم پر پہنچے۔ وہاں سے لوکل ٹرین لی جس نے ہمیں انیس منٹ بعد ایک جگہ اتارا، وہاں بس میں بیٹھ کر ہم ہیٹرسائم پہنچے۔ یہ جدید طرز کا چھوٹا سا شہر ہے، بے حد صاف ستھرا، سبزہ تو خیر پورے جرمنی میں ہے۔میں نے کوئی قطعہ زمین یہاں سبزے اور ہریالی سے خالی نہیں پایا۔ چند دن پہلے ڈاکٹر کرسٹینا سے درختوں کا ذکر چھڑا۔ وہ برابر پاکستان کی خبریں پڑھتی رہتی ہیں۔ کہنے لگیں کہ انھیں یہ جان کر افسوس ہوا کہ لاہور میں سڑک کو وسیع کرنے کے لیے کچھ درخت کاٹنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ میں نے وضاحت کی کہ نہر کی سڑک پر اس قدر ٹریفک کا ہجوم ہوتا ہے کہ اس سڑک کو وسیع کرنا ناگزیر ہو گیا ہے اور درخت آڑے آ رہے ہیں۔ کہنے لگیں درختوں کو کاٹنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی دوسرا متبادل تلاش کرنا چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم ان قدیمی آریائی لوگوں کا جنگل اور درختوں سے متعلق کیا اساطیری عقیدہ ہے، مگر موجودہ زمانے میں یہ درختوں، جھاڑیوں اور پودوں کو اپنی زندگی کا ناگزیر حصہ سمجھتے ہیں۔ نباتاتی زندگی سے انھیں عشق ہے، اب جس کا مظاہرہ ان کے کھانے پینے کی اشیا میں بھی ہونے لگا ہے۔ انڈے تک نباتاتی ہیں، یعنی ان مرغیوں کے انڈے، جن کی خوراک فطری اور نباتاتی ہے۔ ہر شے میں ’بیو‘ (Bio) کو اہمیت دے رہے ہیں۔
حیدرقریشی نے اپنی بیگم سے فون پر ہی کہ دیا تھا کہ فوراً ناشتہ لگائے۔ لہٰذا ہم جونہی ساتویں منزل پر واقع ان کے کشادہ فلیٹ میں پہنچے تو میز پر کھانا لگا ہو اتھا۔ کئی دنوں بعد روٹی/پراٹھا اور دال کھائی۔ جرمنی آنے کے بعد دوسری مرتبہ پاکستانی کھانا کھایا ہے__ کچھ دیر وہاں بیٹھنے، چند منٹ ٹی وی پر پاکستانی نیوز چینل دیکھنے کے بعد دریائے مائن کی سیر کو گئے۔ پاکستانی چینل پر وہی لوڈشیڈنگ، اس کے خلاف مظاہروں، بم دھماکوں، ماردھاڑ والے سیاسی بیانات تھے! یہاں آ کر احساس ہوا ہے کہ ’ہم‘ اور ’ان‘ میں کسی قدر فرق اورفاصلہ ہے!
مائن،جرمنی کا طویل ترین دریا ہے۔رائن اور ڈینیوب دوسرے دو مشہورترین دریا ہیں۔مائن پورے کاپورا جرمن ہے،یعنی جرمنی کے علاقوں میں بہتا ہے۔ یورپ کے دریا چوڑائی میں ہماری نہروں کی مانند ہیں۔ مائن پر نیکر کی طرح رونق نہیں تھی۔ ہلکی سی ویرانی کا احساس ہوا۔ نیکر کے کناروں کو خوش رنگ سبزے سے نظرزیب بنایا گیا ہے، مگر مائن کے کنارے،کم از کم اس مقام پر، وہ بات نہیں تھی۔ اس مقام پر یہ نیکر سے چوڑائی ذرا سا چھوٹا ہے۔ اس کا پانی خاصا مٹیالا اور گندا تھا۔ حیدرقریشی نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ بہت آہستہ بہتا ہے۔ اسی لیے اس کا پانی میں سڑاند نہیں تھی۔ کچھ لوگ بھی مائن کی طرح ہوتے ہیں۔ کئی چہرے نظروں کے آگے گھوم گئے__ دریا میں اس وقت خاصی ہلچل،بلکہ چنگھاڑ سی پیدا ہوتی ہے، جب کوئی شپ گزرتا ہے۔ایک لمحے کو محسوس ہوتا ہے جیسے کسی سوئے عفریت کو جگا دیا گیا ہو۔ یہاں دریاؤں کے ذریعے بھاری سامان کی ترسیل کا پورا نظام موجود ہے۔مائن سے تو یہ کام کچھ زیادہ ہی لیا جاتاہے۔یہ فرینکفرٹ، اوفن باخ، ورزبرگ کے شہروں کے قریب سے گزرتا ہے۔فرینکفرٹ کے آس پاس کا علاقہ صنعتی ہے،اس لیے دریا صنعتی اشیا کی ترسیل کی خدمت پر مامور ہے،یا پھر کروز کی سیر کے لیے۔چوں کہتین سو تیس میل طویل اس دریا کے کناروں پر کچھ تاریخی قصبے آباد ہیں،اس لیے کروز کی سیرکے ساتھ ساتھ ان قصبوں کی سیاحت کے لیے بھی لوگ آتے ہیں __ یہاں دھوپ کافی تیز تھی۔ واپس آنے لگے تو حیدر قریشی نے کہا، آئیں ایک خاص گلی سے چلتے ہیں__ مجھے اشتیاق ہوا۔ ذرا آگے چلنے کے بعد سامنے ایک گرجا نظر پڑا۔ انھوں نے بتایا کہ گرجے کے بالکل سامنے سینماگھر ہے۔ جا کر دیکھا تو گرجا کے دروازے کے بالکل سامنے سینما تھا۔ مجھے اوّل غالب یاد آئے:مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے؍بھوں پاس آنکھ قبلہ حاجات چاہیے۔پھر خیا ل آیا کلاسیکی شاعروں کے زمانے میں سینمانہیں تھا مگر انھوں نے مسجد و مے خانہ پر زبردست شاعری کی ہے۔ قائم چاند پوری کا شعر ہے:
کوئی دن آگے بھی زاہد عجب زمانہ تھا
ہر اک محلہ کی مسجد شراب خانہ تھا
میر نے توکمال ہی کیا ہے:
تجھ کو مسجد ہے مجھ کو مے خانہ
واعظا اپنی اپنی قسمت ہے
میں نے لاہور کے شاہی محلے اور شاہی مسجد کی مثال دی۔ حیدر قریشی نے کہا، وہ گزرے زمانے کی باتیں ہیں۔ اب ہمارے یہاں رواداری اور سیکولر طرز زندگی ممکن نہیں__ مگر یہاں کفر اور دین ایک دوسرے کے روبرو ہیں۔ دونوں کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں اور کون کس دروازے کا انتخاب کرتا ہے، اس کی آزادی ہے۔ سب سے بڑھ کراہم بات یہ ہے کہ لوگوں کے آزادانہ انتخاب پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا__ مجھے نہیں معلوم کہ جو لوگ گرجے میں جاتے ہیں، وہ سامنے سینما میں داخل ہونے والوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہوں گے۔ اس رائے کا اظہار نہیں ہوتا۔ ویسے تو یہاں کوئی دوسرے کے معاملات کی نہ تو ٹوہ میں رہتا ہے نہ مداخلت کرتا ہے، لیکن اگر کوئی اپنے دل میں نیکی کے تکبر اور دوسروں کے اعمال پر حرف گیری سے باز رہتا ہے تو اسے انسان کی ثقافتی زندگی کی عظیم منزل سمجھنا چاہیے۔خیر، یورپ نے یہ منزل نہ تو ایک دن میں حاصل کی ہے ،نہ اچانک۔ اسی یورپ میں جو کچھ کیتھولک عیسائیوں نے پروٹیسٹنٹوں کے ساتھ کیا، وہ اس سے کم بدتر نہیں تھا جو ہمارے یہاں ایک فرقے کے لوگ دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔ ویسے یہ ایک اہم سوال ہے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو مذہبی اور سیکولر دنیاؤں کے ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو قائم وآباد رہنے کو ممکن بناتی ہے؟ مخصوص سیاسی نظام؟کوئی خاص فلسفہ؟ مخصوص تہذیبی قدریں؟ جدیدیت میں فرد کی آزادی کا احترام،اور اس سے پیدا ہونے والی رواداری؟اکثر کا خیال ہے کہ آخر الذکر ہی نے دو مختلف دنیاؤں کو ایک دوسرے کے متوازی ،حالت امن میں برقرار رکھنے کو ممکن بنایاہے۔لیکن ہمیں جدیدیت سے پہلے بھی رواداری کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ مثلاًبابرکے زمانے کے پوٹھوہار کے گھکڑ سردار سلطان سید خاں کے نام پر قائم کیے گئے ، مارگلہ پہاڑی ،اسلام آباد میں سید پور گاؤں میں مسجد، مندراور گوردوارہ ایکہی احاطے میں آج بھی موجود ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ تین مختلف مذاہب کے لوگ ایک صحن میں جمع ہوں گے ،علیک سلیک کرتے ہوں ،پھر اپنی اپنی عبادت گاہوں کا رخ کرتے ہوں گے۔واپس آکر پھر ایک دوسرے سے سلام دعا کے ساتھ ساتھ دنیا جہان کے موضوعات پر بات چیت کرتے ہوں گے۔ میراخیال ہے کہ سید پور گاؤں کا وہ احاطہ جہاں اسلام، ہندومت اور بدھ مت کے ماننے والے اکٹھا ہوتے تھے، ایک حقیقی سیکولر مقام تھا۔ایک دوسرے کی مذہبی و نجی زندگی (اپنے اپنے مذہب کی عبادت کا لمحہ ،انسان کی زندگی کا سب سے بڑا نجی لمحہ ہے!)کا احترام اور اس پر اعتراض و فتوے کے ذریعے مداخلت کرنے سے گریزہی حقیقی سیکولر رویہ ہے!
مائن کے کنارے سیر کرتے ہوئے، حیدرقریشی نے پشاور کے ڈاکٹر ظہور اعوان کا واقعہ سنایا جو کچھ عرصہ پہلے یہاں آئے تھے۔ حیدرقریشی انھیں ایک جگہ بٹھا کر گھر کسی کام سے گئے، واپس آئے تو اعوان صاحب وہاں پر نہ ملے۔ حیدرقریشی نے سخت پریشانی کے عالم میں اِدھراُدھر ہر جگہ چھان مارا، موصوف کا کوئی اتا پتا نہیں۔ مسلمانوں اور پاکستانیوں کے بارے میں مغرب میں جو عمومی رائے پائی جاتی ہے، اس کا خیال آتے ہی، ان کی پریشانی مسلسل بڑھے جا رہی تھی کہ اچانک وہ مائن کے کنارے اُگی جھاڑکیوں سے برآمد ہوئے۔ حیدرقریشی کی پریشانی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فخریہ بتانے لگے کہ وہ دریا میں اتر کر پانی کا لطف لے رہے تھے۔ زہے نصیب! یورپ میں یورپی طرزِ زندگی کا لطف، مگر حیدرقریشی اس پر ہنسنے کے بجائے اور پریشان ہوئے کہ اگر خدانخواستہ اسی دوران میں کوئی شپ گزرتا تو اس سے پانی میں جو اتھل پتھل مچتی ہے، تو پشاور کے اعوان صاحب اس کی نذر ہو جاتے۔ معلوم نہیں ڈوبنے کی خبر آتی یا خودکشی کی!__ چند دن پہلے ان کا انتقال ہوا ہے۔ خدا ان کے درجات بلند کرے!
گھر پہنچے تو اچانک تیز ہوا چلنے لگی۔ ابھی سخت تیز دھوپ تھی اور اب ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔یہاں عوامی طور پر رائج ہے کہ تھری ڈبلیو (WWW) کا کوئی اعتبار نہیں،کب بدل جائیںیا کھو جائیں۔ ورک، ویدر اوروومن۔ میں صرف ویدر یعنی موسم کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ اس کے بدلنے کا واقعی کچھ پتا نہیں چلتا۔ ویسے اکثر عورت (بالخصوص محبوبہ)کوبے اعتبار موسم کے استعارے سے سمجھنے کی روش تو ہمارے یہاں بھی ہے۔احمد فراز کا مشہور شعر ہے: یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیاہے؍ کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں!مرد کے عیش پسند تخیل نے بھی کیا کیا باتیں گھڑی ہیں۔فیض صاحب یاد آئے: آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے / اس کے بعد آئے جو عذاب آئے ۔
میں فرینکفرٹ سکول کا مداح ہوں۔ میں اس مقام کو دیکھنے کا تمنائی تھا جس سے تھیوڈوراڈورنو،والٹر بنجامین، ہربرٹ مارکوزے،میکس ہورخی مر، ولہلم ریخ، ایرخ فرام ،ہیبر ماس جیسے مفکر وابستہ تھے،اورجنھوں نے کلاسیکی مارکسی فکر کو ایک نئی سمت دی تھی۔ہ لوگ مارکسیت کی سادہ تشریح سے مطمئن نہیں تھے اور چاہتے تھے کہ بیسویں صدی کی سرمایہ داریت اور اس کی نوبہ نو شکلوں کی تفیہم مارکسی پیراڈائم میں کریں۔ میں نے ڈاکٹر کرسٹینا سے فرینکفرٹ یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف سوشل ریسرچ کا پتا لے لیا تھا، جس سے مذکورہ مفکر وابستہ تھے۔ حیدرقریشی نے اپنے بیٹے عثمان سے کہا کہ وہ ہمیں وہاں لے جائے۔ وہ فرینکفرٹ میں ٹیکسی چلاتا ہے، اس لیے وہ اس کے چپے چپے سے واقف ہے۔ وہ ہمیں لے گیا۔ یونیورسٹی میں ہر ایک کو آنے جانے کی اجازت نہیں، مگر عثمان نے متعلقہ آدمی سے کہا کہ ہم لوگ ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے خاص طور پر اس یونیورسٹی کو دیکھنے آئے ہیں۔ وہ اپنی یونیورسٹی کی شان کا ذکر سُن کر معلوم نہیں پھولے سمایا کہ نہیں مگر اس نے ہمیں بخوشی اندر جانے کی اجازت دے دی۔ فرینکفرٹ یونیورسٹی (جو دراصل گوئٹے کے نام پر ہے) ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی طرح کشادہ نہیں، ایک مرکزی تین منزلہ عمارت ہے ،اور خاصی بڑی ہے اور وسیع ہے، جس میں کئی شعبے ہیں۔ اس عمارت V2ایک حصہ ہے، اسی کی ہمیں تلاش تھی۔
اب نئے لوگ وہاں ہیں، میں کسی نام سے واقف نہیں تھا۔ کوئی موجود بھی نہیں تھا۔ ساڑھے تین کے بعد سب لوگ چلے جاتے ہیں۔کوئی ملتا تو ضروران گزرے دنوں کا تذکرہ اس سے سنتا، جب انھی کمروں اور ہر آمدے میں باہر کے حقیقی سماجی، ثقافتی، معاشی مسائل پر یہاں کے نقاد/ مفکر غور و فکرکیا کرتے تھے اور بحث مباحثہ کرتے تھے اور جس کی گونج اب تک سنائی دیتی ہے__
۱۹۱۷ء میں روس کا اشتراکی انقلاب،انسانی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا۔ایک طرف یہ نو آبادیاتی محکوموں کے بجھتے،راکھ ہوتے دلوں کو ایک حقیقی جوش سے بھردینے والا واقعہ تھا،اور دوسری طرف ان مفکروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا واقعہ تھا جو دنیا کو فکر کے ذریعے بدلنے میں اب تک ناکام رہے تھے ۔ایک مادیت پسندانہ فلسفہ کیسے ،ایک نئی سماجی وسیاسی ومادی حقیقت کو وجود میں لاسکتا ہے؟ فرینکفرٹ سکول اسی سوال کی کوکھ سے پید اہواتھا۔انقلاب روس کے صرف پانچ سال بعد فیلکس ویل نامی ایک نوجوان نے اس موضوع پر پی ایچ ۔ڈی کا مقالہ لکھا کہ اشتراکیت کے نفاذ میں کس قسم کے عملی مسائل کا سامنا ہوسکتاہے۔اسے وراثت میں تاجر باپ کی طرف سے کافی رقم ملی تھی ،جسے اس نے مذکورہ سوال پر تحقیق کی خاطر ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کے لیے وقف کردیا۔اس نے پہلے ایک ہفتے کا سمپوزیم منعقد کیا ،جس میں ہنگری کے جارج لوکاش بھی شامل ہوئے۔وہی لوکاش کی۱۹۲۳ ء میں شایع ہونے والی تاریخ اور طبقاتی شعور نامی کتاب کا ہمارے یہاں بھی کافی شہرہ ہوا۔ناول کا فن بھی اس کی مشہور کتاب ہے جسے اردو میں کم پڑھا گیا،تاہم ارودکے ترقی پسندوں نے لوکاش کو لیننی مارکسیت کے ترجمان کے طور پر زیادہ دیکھاہے۔ لوکاش نے اپنی کتاب معاصر حقیقت نگاری کا معنی میں ایک باب لکھا تھا :’’کافکا یاٹامس مان‘‘؟ میرا خیال ہے کہ اردو کی ترقی پسند تنقید کا بڑا حصہ اسی مضمون کی شرح ہے۔ اس مضمون میں لوکاش نے ماڈرنسٹ اور رئیلسٹ ادیبوں میں ایک ایسی تقسیم ،بلکہ ثنویت کہنا چاہیے، کی لکیر کھینچی ،جس نے آگے چل کر ادیبوں کودو دشمن گروہوں میں بانٹ دیا۔ٹامس مان کو رئیلسٹ ہے ،اور اشتراکی تناظر کا خیال رکھتا ہے ،جب کہ کافکاماڈرنسٹ ہے ،اور اس کے یہاں حقیقت معاصر عہد سے متعلق ہونے کے باوجود ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہے۔ اردوکی ترقی پسند تنقید میں بھی حقیقت نگاری اور جدیدیت کی کم وبیش یہی تفریق نظر آتی ہے۔ایک طرف رئیلسٹ کرشن چندر ہے ،دوسری طرف نفسیاتی حقیقت نگار منٹوہے؛ایک طرف فیض ہے ،اس کے مدمقابل میراجی ہے۔خیر، بات دوسری طرف چلی گئی۔ نوجوان فیلکس ویل نے فرینکفرٹ یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ قائم کیا،اور بعد ازاں جس سے وہ چندلوگ وابستہ ہوئے ،جن کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ انھی کی تحقیق کے نتیجے میں سوویت یونین کی مارکسی تنقید کے متبادل کے طور پر ایک نئی مارکسی تنقید کا دبستان وجود میں آیا ،جس کی سب سے بڑی خصوصیت ،اس کا بین العلومی ہونا تھا۔اس انسٹی ٹیوٹ کے آخری بڑے مفکر و نقاد ہیبر ماس ہیں۔
میں نے اس عمارت کو بے حد غور سے دیکھا۔ پیلی اور بھورے مائل رنگ کی عمارت ہے۔ داخلہ کے مرکزی مقام پر اسی رنگ کا سنگِ مرمر ہے۔ سفید مرمر کے پتھر کا بھی اپنا شکوہ ہے، جو تاج محل میں نظر آتا ہے، مگر بھورے سنگِ مرمر میں بھی دل کش چمک تھی۔مرمر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ پرانا نہیں ہوتا۔ گویا وقت سے آزاد ہوتا ہے__ اسے دیکھنے سے روشنی کا انتہائی مدھم احساس ہوتا ہے اور یہ احساس روشنی کو بڑھانے کی خواہش جگاتا ہے۔ کیا خاص رنگ کے پتھروں کاخاص طرح سے سوچنے سے کوئی تعلق ہے؟ عمارتوں کا ہم پر کس قسم کا اثر ہوتا ہے ؟مجھے اورینٹل کالج کی سرخ رنگ کی عمارت یا د آئی۔ اس کے ساتھ جانے کیا کیا یاد آیا۔قدیم متون پر معصومانہ قسم کی تحقیق، ترقی کی دوڑ، سازشیں ،رومانس،خود نگر ی کی خو،تکبراور جانے کیا کیا۔ کچھ نہ کچھ تو اثر ہوتا ہے عمارتوں کا۔Congnitive نہ سہی، Affectiveسہی!
فرینکفرٹ یونیورسٹی کی اس عمارت کے سامنے ایک مصنوعی آبشار بنائی گئی ہے،جو زیادہ بلند نہیں ہے۔ نسبتاً بلندی سے زیر زمین پانی لایا جاتا اور پھر ایک چادر کی صورت اسے آٹھ دس منٹ کی بلندی سے ایک بڑے تالاب میں بہا دیا جاتا ہے۔ ایک ترنم آواز مسلسل پیدا ہوتے چلی جاتی ہے۔ اسی آبشار کے عین اوپر ایک عورت کا کھردرا سا سنگی مجسمہ ہے، جو لباس کی قید اور دنیا کے خوف سے آزاد ہے۔ آبشار جس تالاب میں گرتی ہے، وہ ایک سوئمنگ پول کی قسم کا لگتا ہے۔ شاید اسی مناسبت سے یہ مجسمہ یہاں نصب کیا گیا ہے۔ یہ بلند قامت جرمن عورت کا مجسمہ ہے۔ طے کرنا مشکل لگتا ہے کہ ابھی نہا کر آئی ہے یا نہانے سے پہلے یہاں بیٹھی ہے۔ مگر ایک بات واضح ہے، وہ دھوپ تاپ رہی ہے، یعنی غسل آفتابی میں مصروف ہے۔ اس نے اپنے بدن کا دایاں حصہ اور سرسے زیرناف تک کا حصہ سورج کی طرف کر رکھا ہے۔ اس کی سڈول اور تنی ہوئی پتھریلی چھاتیاں بے حد نمایاں ہیں یا ہماری نظر انپر زیادہ پڑتی ہے۔ اس نے بائیں جانب سر جھکایا ہوا ہے، ہاتھ زمین پر ٹکا یا گیا لگتا ہے، سوئمنگ پول کو دیکھ رہی ہے__ ایک یونیورسٹی میں مادر پدر آزاد عورت کا مجسمہ! پاکستان کی ایک قدیم ،اور قدامت پسندجامعہ میں پڑھانے والے ،اور خاص طور پر اورینٹل کالج سے وابستہ استاد کے لیے تو یہ سوال عین فطری تھا۔یہ حسن کی علامت تومجھے نہیں لگا۔میں نے جرمن عورتوں کو دیکھا ہے، بعض تو اتنی ہی حسین ہیں ،جتنا ایک مرد کا تخیل جستجوے حسن میں ایک نسوانی پیکر کا خاکہ کھینچ سکتا ہے۔یہ مجسمہ صرف قامت سے جرمن ہونے کا ثبوت دیتاہے۔یہ سبزی مائل سیاہ پتھر کا بنا ہوا ہے اور خاصا پرانا لگتا ہے۔ کیا یہ فطرت کی علامت ہے؟ مگر صرف عورت ہی فطرت کی علامت کیوں؟ شاید یہ دھوپ کو ترستی یورپی مخلوق کی علامت ہے؛ شاید یہ عورت کی آزادی کی علامت ہے؟ شاید یہ ثقافتی جبر کے خلاف احتجاج کی علامت ہے (لباس آخر ثقافتی جبر ہی ہے، کم از کم اب)__ کیا اس مجسمے کا ایک نئی ،جرأت مندانہ فکر سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟ میں اپنے سوال پر اس زاویے سے غور کرتے ہوئے ذرا نہیں گھبراتا اور مجھے لگتا ہے کہ میری یہ جرأت معنی خیز ہے۔ یہ مجسمہ ایک پیغام توبالکل واضح طور پر دیتا ہے کہ آدمی چاہے تو ہر خوف سے آزاد ہو سکتا ہے اور اپنی طرف دھیان رکھتے ہوئے بڑے بڑے اقدامات کے خاکے وضع کر سکتا ہے۔ نیز آدمی اپنی اصل کے ساتھ سماج کے سامنے آ سکتا ہے، شرمندگی کو بالاے طاق رکھتے ہوئے!
وہیں ذرا آگے، ایک فوارہ ہے (ہائیڈل برگ میں فوارے نہیں، مگر فرینکفرٹ میں کئی ہیں) اس کے سامنے ایک عجب شے ہے۔ دور سے دیکھیں تو ایک قوی الجثہ آدمی نظر آتا ہے اور اس کے اندر کئی رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ آکر معلوم ہوتا ہے کہ ہے تو آدمی، مگر اسے نہ مجسمہ کہہ سکتے ہیں نہ تصویر! یہ ایک نئی چیز ہے۔ اسے حرفوں سے بنایا گیا ہے۔ انگریزی، جرمن ، عربی، چینی، ہندی کے حروف کو جوڑ کر ایک آدمی کی فولادی شبیہہ بنائی گئی ہے۔ سر کو ذرا سا آگے جھکاتے ہوئے اور دونوں ہتھیلیوں کو کہنیوں پر ٹکا کر ایک دوسرے سے ملاتے ہوئے لیکچر دینے کے انداز میں! میں نے اس علامت کو پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کہ ہم عالمی دنیا کے شہری ہیں۔
کیسا عجب اتفاق ہے کہ عالمی ادب کا تصور پہلے پہل اسی گوئٹے نے پیش کیا تھا، جس کے نام پر یہ یونیورسٹی ہے۔ اس عظیم شاعر نے جب مشرقی ادبیات کا مطالعہ کیا تو کہا کہ اب قومی ادبیات کا نہیں، عالمی ادبیات کا زمانہ ہے۔ خود اس نے مغربی مشرقی دیوان(۱۸۱۹ء) لکھ کر اپنی رائے کی عملی توثیق کی۔ایک اور اتفاق یہ ہے کہ اس دیوان کا ایک تعلق اسی شہر فرینکفرٹ سے بھی ہے۔ جب گوئٹے نے دیوان لکھنا شروع کیا تو وہ اپنی عمر کے پینسٹھویں برس میں تھا،اوروہ اپنی تیسری بیوی مریانے کے ساتھ،جس کی کچھ نظمیں اس دیوان میں شامل ہیں، فرینکفرٹ بھی آیاتھا۔میں سوچ رہا تھا کہ اس وقت ہمیں حقیقی تہذیبی کش مکش،اور اس کے بعض بیانیوں میں جھونک دیاگیا ہے۔تہذیبی کش مکش سے زیادہ ظالم کوئی شے نہیں۔آپ کو کچھ دوردراز کے لوگوں ،ان کے طرزِ حیات،ان کی اقدار کے خلاف اپنے دل میں نفرت اور جنگ کے جذبات پیدا کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔انھیں آپ جانتے تک نہیں ہوتے، انھیں آپ نے کبھی قریب سے دیکھا بھی نہیں ہوتا،اس لیے آپ کو یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ معمولی سے فرق کے ساتھ ،وہ آپ ہی کی طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔بس ان کی سٹیریو ٹائپ شبیہیں آپ کے ذہنوں سے چپکا دی جاتی ہیں ،اور آپ ان کے خلاف ہر وقت آمادہ پیکار رہتے ہیں۔تہذیبی کش مکش کے عفریت سے آزاد ہونے کا ایک طریقہ گوئٹے کے عالمی ادبیات کے تصوراور اس کے مغربی مشرقی دیوان کی صورت میں موجود ہے۔مشرق سے گوئٹے کی محبت کا آغازنوجوانی میں ہوا تھا ،جب اس نے اپنی ایک ڈرامائی نظم میں حضرت محمد ﷺکو مرکزی کردار بنایا تھا،اور قرآن کو سمجھنے کے عزم کا اظہار کیاتھا۔قبل از اسلام کے عظیم کلاسیک معلقات میں سے ایک معلقہ کا ترجمہ کیا تھا۔بعدمیں اس نے سنسکرت کے شکنتلا کا طلسم محسوس کیا۔پھر وہ فارسی کے سعدی، حافظ اور جامی کی شاعری سے مسحور ہوئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گوئٹے نے ایک تو مشرق کا تصور وسیع کیا،دوسرا ادبیات کو تہذیبوں کے ایک دوسرے کے قریب آنے کا ذریعہ تصور کیا ۔گوئٹے نے مشرق سے مرا دنہ تو عرب اسلامی سمجھا نہ عجمی، نہ ہندوستانی،بلکہ ان سب کے ادبیات کو مشرق کے تصور میں سمویا۔ نیزیہ باور کرایا کہ ادبیات، مختلف خطوں اورمختلف ثقافتوں کو نہ صرف جوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،بلکہ انسانی روح کی اس جستجو کی تسکین بھی کرسکتے ہیں ،جسے دانش، محبت ، موسیقی، اور ایک قسم کی الوہی بے نیازی کہہ سکتے ہیں۔ اسی زمانے یعنی انیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ بھی مشرق کا علم حاصل کررہا تھا، مگر اس کے وسائل کے ساتھ ساتھ ،ا س کی ثقافتی روح پر قابض ہونے ،اسے مسخ کرنے ،اور اس میں اپنے کینن کو اندھا دھند ٹھونسے کی خاطر!!
گوئٹے کا عالمی ادب کا تصور، عالمی زبانوں (کے ادبیات) سے پیدا ہوا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں،اس آہنی شبیہ میں عالمی دنیا کا تصور دراصل لسانی تصور ہے۔ زبان پورے کلچر کی نمائندہ ہوتی ہے__ زبان بہ یک وقت گفتگو اور تحریر ہے، چناں چہ یہاں دونوں باتوں کی نمائندگی کی گئی ہے۔ حروف بھی موجود ہیں اور ان کو ادا کرنے کا ایک طور (لیکچر کا انداز) بھی۔ گویا تمام زبانوں میں مکالمے ہی سے عالمی دنیا ممکن ہے، نہ کہ کسی ایک زبان کی استعماریت سے۔ اس میں کسی ایک زبان کو دوسری پر فوقیت نہیں دی گئی، سب ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہیں۔ یہ دنیا کی چند بڑی زبانوں کی ایک انوکھی زنجیری صورت ہے۔ یہ ایک فولادی شبیہ ہے، مگر اندر سے خالی ہے۔ اس میں ہر وقت ہوا گزرتی رہتی ہے، اس کے اندر آپ بیٹھ سکتے ہیں(میں بھی کچھ دیر بیٹھا رہااور کچھ تصویر یں بھی بنوائیں)۔ گویا عالمی دنیا میں زیادہ سے زیادہ گنجائشیں ہوتی ہیں۔ اس میں ہر نئی بات اور تبدیلی کو قبول کرنے کی گنجائش ہوتی ہے، اس میں دیواریں نہیں ہوتیں، مگر ایک دوسرے کو باہم مربوط رکھنے کے انتہائی مضبوط رشتوں کا اہتمام ہوتا ہے۔
مجھے آٹھ بجے کی ٹرین سے ہائیڈل برگ واپس آنا تھا اور سوا سات بج چکے تھے، مگر عثمان نے کہا کہ آپ کو فرینکفرٹ کی کچھ اور چیزیں ضرور دیکھنی چاہییں۔ پہلے وہ اوپرا ہاؤس لایا۔ فرینکفرٹ کو دریاے مائن دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک طرف پرانا شہر ہے اور دوسری طرف نیا۔ نیافرینکفرٹ دراصل دوسری عالمی جنگ کی لائی گئی تباہی کے ملبے پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اوپر ہاؤس ان چند عمارات میں سے ہے، جو بم باری کا نشانہ بننے سے بچ گئی تھیں۔ میں اس عمارت کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ بھورے مائل سفید رنگ کی ایک عظیم الشان عمارت ہے، جسے ثقافتی سرگرمیوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ مرکزی دروازہ خاصا بڑا ہے اور اس کے اوپر متعددانسانی مجسمے نصب ہیں، مختلف پوز کے۔ یہ عمارت اپنی عظمت، کہنگی کا بہ یک وقت تاثر دیتی ہے اور فنونِ لطیفہ سے اپنے تعلق کی بین شہادتیں پیش کرتی ہے۔ اس کے سامنے فوارہ ہے اور اس کے بائیں پرانی طرز کے بنے ہوئے ریستوران اور کافی ہاؤس ہیں۔ جب کہ دائیں جانب جدید طرز کی بلند و بالا، آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمارتیں ہیں۔ درمیان میں ایک سڑک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سڑک اس شہر کو دو دنیاؤں میں تقسیم کرتی ہے۔ ایک طرف گلوبلائزیشن سے عبارت دنیا ہے اور دوسری طرف روایت اور کلچر کی دنیا ہے۔ فرینکفرٹ میں اب شیشے سے بنیکئی بلند عمارتیں ہیں، جن کا افقی پھیلاؤ معمولی مگر عمودی بلندی کافی زیادہ ہے۔ اس کے باوجود یہ عمارتیں انسان کی روحانی بلندی کی علامت نہیں بنتیں۔مجھے ان بلند عمارتوں میں فقط ایک عمارت نے متوجہ کیا، جو پنسل کی شکل کی ہے۔ بہت خوبصورت عمارت ہے۔ لگتا ہے ایک تازہ تازہ تراشی گئی بڑی پنسل کو شہر کے بیچوں بیچ نصب کر دیا گیا ہے۔ اب سوچتا ہوں تو اس کے اچھے لگنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ پنسل بہرحال لکھنے کی چیز ہے۔ اس طور ایک علامت بنتی ہے، مگر دوسری سیدھی اوپر کی جانب چھلانگ لگاتی محسوس ہوتی شیشے کی عمارتیں، بس ایک چیز کا تاثر دیتی ہیں۔ یکسانیت کا،تنوع سے خالی ہونے کا، اکتا دینے کی حد تک نفاست کا۔ مجھے نئی چیزیں اتنی ہی کشش انگیز نظر آتی ہیں، جتنی بعض پرانی عظیم چیزیں، مگر محض نیاپن کسی شے کو اہم نہیں بنایا۔ مجھے ان جدیداورما بعد جدیدطرز کی عمارت کے پاس سے گزر تے ہوئے وحشت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ وحشت ہی لیے شاید میں فرینکفرٹ سے لوٹتا، مگر اوپرا ہاؤس کے پاس کچھ دیر رہنے سے لگا کہ انسان نے کارپوریٹ کلچر کی ترقی کے علاوہ اصل کلچر کو بھی باقی رکھا ہے۔ اپنے اندر کی، گہری تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کی دنیاکو برقرار رکھا ہے، ہر شے کو روپے میں بدلتی دنیا کے مقابلے میں، اور جب تک یہ دنیا باقی ہے، کارپوریٹ / گلوبلائزیشن کے کلچر کی وحشت کے سدباب کے امکان کی راہ برابر کھلی ہے!