مکیش بھٹ کی نئی فلم بیگم جان ، ہندوستان کی تقسیم ، منٹو کی سلطانہ اور سوگندھی

مکیش بھٹ کی نئی فلم بیگم جان

مکیش بھٹ کی نئی فلم بیگم جان ، ہندوستان کی تقسیم ، منٹو کی سلطانہ اور سوگندھی

(نعیم بیگ)

ان کالی صدیوں کے سر سے
جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دکھ کے بادل پگھلیں گے
جب سکھ کا ساگر چھلکے گا
جب امبر گھوم کے ناچے گا
جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح ہمی سے آئے گی
وہ صبح ہمی سے آئے گی

منٹو کے افسانے ’ کالی شوار‘ میں سلطانہ چاندی کے معمولی سے بُندے سے ہاتھ دھو کر محرم کے لئے کالی شلوار توپا لیتی ہے ۔ لیکن’ ہتک‘ میں سوگندھی مادھو جیسے مرد کی جال سے نکل کر کسی خارش زدہ کتے کو اپنے ساتھ سلانے پرتیار ہو جاتی ہے ۔ طوائف کیا ہے؟ کون ہے؟
اس کا جواب تو یہ سماج دے سکا ہے نہ ہی اس پدر سری معاشرے میں کوئی دینے کی ہمت رکھتا ہے ۔
یہ مرد ، عورت کے اس روپ سے صرف جسم کی پیاس ہی بجھا سکتے ہیں اور بس۔۔۔ لیکن طوائف انسان تو ہوتی ہے نا ، وہ اپنی جبلت سے کیسے رو گردانی کر سکتی ہے ۔۔۔ یہ سوالات منٹو نے اپنے افسانوں میں اٹھائے تھے اور آج تک اردو ادب کے ناقابل حل سوال ہیں؟
مکیش بھٹ کی فلم’’ بیگم جان ‘‘ میں اس کے ڈائریکٹر سریجیت مکھرجی نے اِس فلم میں دو بڑے اہم سوال اٹھائے ہیں ۔ سریجیت اس فلم کے ڈائریکٹر ہونے کے ساتھ اس فلم کے رائٹر اور مکالمہ نگار بھی ہیں۔
پہلا سوال کہ کیا عورت سماج سے ہٹ کر اپنی زندگی گذار سکتی ہے؟ اور دوسرا کیا وہ کسی مرد پر اعتبار کر سکتی ہے؟
ان دونوں کے سوالات سریجیت مکھرجی نے ’ بیگم جان ‘ میں دینے کی کوشش تو کی ہے لیکن کس حد تک کامیاب رہے ہیں یا یہ کہ کیا فلم بین ان کے جوابات سے مطمئن ہوتے ہیں یہ فلم دیکھ ہی کہا جا سکتا ہے۔
ایک شریف زادی کس طرح زندگی کے بوجھل اور کھٹن لمحات میں جبراور ظلم سے اپنی معمول کی شریفانہ زندگی سے نکال دی جاتی ہے، تب وہ باہمت عورت اپنی نئی اپنائی ہوئی زندگی کو سماجی بندھنوں سے آزاد کرکے اپنے جینے کے نئے ڈھنگ کو اسی سماج کی پہچان بنا کر اپنی الگ دنیا بسا تی ہے ،تو یہ کڑوے کسیلے مردوں سے اٹّا سماج اسے یہاں بھی دغا دے جاتا ہے۔

شومئی قسمت سے بیگم جان کی حویلی پاک و ہند تقسیم میں ریڈ کلف کی پنجاب میں لگائی ہوئی ایک لکیر کی زد میں آ جاتی ہے اور یوں پاکستان اور ہندوستان کے دو سول افیسر اس بارڈر لائن کو ناپتے ہوئے اس حویلی کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
اس فلم کی ابتدا دلی کے معروف’ بس ریپ‘ جیسی کہانی سے شروع ہوتی ہے جہاں چند اوباش لڑکے ایک لڑکی کی عزت لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ لڑکی کسی طرح بس سے اتر کر بھاگ نکلتی ہے۔ کسی قدرے ویران سے علاقے میں ایک بوڑھی عورت اسے بچاتی ہے ۔ جب لڑکے اس لڑکی کو پانے کے لئے بوڑھی عورت کو ہٹ جانے کو کہتے ہیں تب وہ عورت اس لڑکی کی جان بچانے کو سب کے سامنے آکر اپنے پورے کپڑے اتار دیتی ہے اور خود کو ریپ کے لئے پیش کر دیتی ہے ۔ جس پر وہ لڑکے خوفزدہ ہو کر بھاگ نکلتے ہیں۔
دراصل یہ بوڑھی عورت بیگم جان کی حویلی سے تقسیم ہند کے وقت بھاگ کر بچ جانی والی واحد بچی ہوتی ہے ۔ جو اپنے ذہن کے فلیش بیک میں بیگم جان کی پوری کہانی ناظرین کے سامنے پیش کرتی ہے بالکل اسی طرح جیسے ’ٹائٹینک‘ فلم میں ہیروئین’ روز‘ اپنی کہانی پیش کرتی ہے۔ ہندوستانی موویز میں’ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ، بھان متی نے کنبہ جوڑا ‘ جیسی بدحواسیاں بھی ملتی ہیں ۔ تاہم اس فلم میں چند سوالات بہت اہم ہیں ۔ تقسیم ہند کو لمحہ بھر کے لئے اگر جسٹیفائی بھی کر لیا جائے تو بھی ریڈ کلف باؤنڈری کمیشن کی بدمعاشی کو کسی حد تک اس فلم میں آشکار کیا گیا ہے۔ یہ وہ سبجیکٹ ہے جس پر راقم خود ایک سنجیدہ کتاب لکھ رہا ہے جو شاید اگلے برس تک مکمل ہو جائے۔
لیکن اس فلم میں ڈائریکٹر سریجیت مکھرجی نے ایک نئے سوال کو جنم بھی دیا ہے اور میرے نزدیک وہی ایک اہم سوال ہے جس نے راقم کو اس مختصر تبصرے پر مجبور کیا۔ سریجیت مکرجی کا کہنا ہے کہ پنجاب باؤنڈری لائن پر تقسیم کی لکیر تو ریڈ کلف نے لگا دی تھی، جسے ہر قیمت پردونوں طرف کے حکومتی اہلکاروں نے ممکن بنانا تھا ۔ لیکن جس بے رحمی اور ظالمانہ جبر سے سے ہندوستان کے نمائندہ سول ہندو افسر مسٹر شری واستر اور دوسرے مسلمان افسر مسٹر الیاس اس تقسیم کو ہینڈل کرتے ہیں اور اسے پایہ تکمیل لے جاتے ہیں ، اس میں ہندوانہ ذہنیت بڑی واضح کر دی گئی ہے۔ اور یوں یہ سوال آج کا بڑا سب سے بڑا سوال بن کر ابھرتا ہے۔ حکومتی نمائندے مسٹر الیاس ایک جگہ کہتے ہیں کہ میں نے حساب لگایا ہے صرف ان چند اضلاع میں کوئی اسی ہزار رہائشی مکانات، حویلیاں اور گھر ہیں جو عین بیچ میں سے آدھے کٹیں گے۔ گھر کا ایک حصہ پاکستان بنے گا اور دوسرا ہندوستان۔
اِس طرح ایک سین میں بیگم جان کی حویلی کا گارڈ بیگم جان کے سامنے جب ان دونوں افسروں کو پیش کرتا ہے ۔تو وہ مکالمہ سن لیجیئے ۔
ہندوستان کا نمائندہ لوکل پولیس آفیسر ان دونوں سرکاری باونڈری لائن افسروں کا تعارف کروانے کے بعد کہتا ہے ۔
’’ہم ایِویکشن نوٹس لے کر آئے ہیں۔ بیگم جان!
ہیں کونسا نوٹس؟
ایویکشن ۔۔ نوٹس۔۔۔
تمیں یہ کوٹھا خالی کرنا ہو گا بیگم جان۔اس کوٹھے کے بیچوں بیچ ہندوستان اور پاکستان کا باڈر بنے گا۔ یہاں چیک پوسٹ بنے گی۔‘‘

اس جابرانہ باونڈری تقسیم پر ضمیر کی خلش سے مجبور ہو کر مسلمان افسر الیاس خودکشی کر لیتا ہے لیکن ہندو سول افسر  اس تقسیم سے پیدا ہونے والی نفرت کو جائز سمجھتا ہے۔ جو ناقابل لگتی  ہے ۔

اس فلم کی ڈائریکشن سریجیت مکھرجی نےآؤٹ کلاس کی ہے ۔ کہانی کا فلو اچھا ہے ۔ ایڈیٹنگ اور سینیماٹوگرافی بہت اچھی ہے۔ فیچر فلموں کی لگاتار ریس میں سنجیدہ موضوعات پر فلمیں اب بالی وڈ میں کم بن رہی ہیں تاہم بن ضرور رہی ہیں ۔ مکیش بھٹ اس فلم سے یقیناً نام کمائیں گے۔ اوپر دی گئی نظم فلم کے اختتامیہ سین جلتی ہوئی حویلی کے پس منظر میں فلمایا گیا ہے جو انسانی جمالیات کو بہرطور ادبی حظ سے مستفیض کرتا ہے۔

اداکاروں میں ودیا بالن کی اداکاری کی داد نہ دینا بہت زیادتی ہوگی ۔ اس کمال کی ایکٹرس نے اپنے کردار سے پوری فلم میں جان ڈال دی ہے ۔ نصیر الدین شاہ گو مختصر دورانیہ میں رہے لیکن خوب رہے۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔