خیر آتی وزیر اعظم
از، وارث رضا
ہماری عوام بھی عجیب و غریب خواہش کی دلدادہ ہے،جانے والی حکومت کے بعد فوری طور سے آنے والی حکومت کو “خیر آتی”سمجھ بیٹھتی ہے۔ اب اس میں وزیر اعظم عمران خان کا کیا قصور کہ انہیں بھاگتے چور کی لنگوٹی مانند “خیر آتی” حکومت کا اعلیٰ منصب دے دیا گیا۔
ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ “سلیکٹیڈ وزیر اعظم” کا تمغہ سجانے والے عمران خان کے ساتھ یہ زیادتی ہو گی کہ ان کو خیرات و زکوٰة جمع کرنے والے ماہر کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ بلا شبہ عمران خان نے اپنے ماضی کے ماہرانہ فن سے یہ تو ثابت کر ہی دیا ہے کہ چندہ اکھٹا کرنے کا ماہر کم از کم عمران خان سے بہتر پاکستان میں نہیں۔
جاننے والوں کا کہنا ہے کہ آلو سے لے کپڑے تک نوازے جانے والے فرد سے بھلا یہ امید کیوں کر لی جاتی ہے کہ وہ ملک کی اقتصادی صورت حال کو چار چاند لگا دے گا۔ یا ملک میں ایک اچھے منتظم کی صفات فوری طور سے عمران خان میں پیدا ہو جائیں گی اور وہ ملک کو معاشی بھنور سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
یہ ہمارے عوام کی احمقانہ سوچ ہے کہ عمران خان ملک کی معاشی ضرورتوں کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اب آپ خود سوچیے کہ جس نے اپنی جیب سے ایک سگریٹ یا آلو پیاز نہ خریدا ہو، بَل کہ اس کے چاہنے والوں نے اس کا کچن اور گھر چلایا ہو اور اب تک چلا رہے ہوں، وہ بھلا کیوں کر عوام کے مسائل کا ادراک کرے گا۔
ہماری تو خاتونِ اوّل تک کہہ چکی ہیں کہ عمران خان کو کوئی کپڑے لا کر دے دیتا ہے تو پہن لیتے ہیں وگرنہ عمران نے آج تک خریداری نہیں کی۔ ہمارے “سلیکٹیڈ” پکارے جانے والے وزیر اعظم آج کل ایجنسیز کو اپنا دین و ایمان بنائے ہوئے ہیں۔ اب یہ ایجنسیز کی حمایت بھی ان کی قسمت میں خیرات مانند ڈال دی گئی ہے۔
اس معاملے میں ہمارے وزیر اعظم قسمت کے دھنی ہیں کہ انہیں ہر سَمت سے بغیر محنت امداد مل جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ایسے اکڑے اکڑے پھر رہے ہیں کہ ملکی صورت حال کا جھک کر مطالعہ کرنے کی فرصت ہی نہیں۔ شاید تاریخ میں یہی ہوتا آیا ہو ۔ ویسے آٹے دال کا بھاؤ والے محاورے کی قوم کچھ جھلکیاں تو دیکھ ہی چکی ہے باقی بجٹ آنے کے بعد چیخوں کے بَہ جائے “دھاڑیں” نکلنے کا امکان کچھ قریب ترین نظر آنے لگا ہے۔
سیاسی مخالف بھی عمران خان کو تواتر کے ساتھ “خیراتی وزیر اعظم” کی سند دینے پر مُصر ہیں۔ جس کا اظہار ہمارے وزیر اعظم عمران خان ابھی ایک ویڈیو پیغام میں کر چکے ہیں۔
خیراتی اداروں کو چندے سے چلانے کے مہان ماہر عمران خان نے قوم کے نام پیغام میں کہا کہ یہ قوم سب سے زیادہ خیرات و زکوٰة دیتی ہے مگر ٹیکس نہیں دیتی۔ عمران خان نے ایک بڑا انکشاف کیا ہےکہ ہماری حکومت کے پاس وہ معلومات ہیں جو پہلے حکومتوں کے پاس نہیں تھیں۔ بَل کہ ان کا معاشی صورتِ حال پر اپنی خفیہ ایجنسیز پر کمال کا اعتماد نظر آیا اور انہوں نے بر ملا کہا کہ ہماری ایجنسیز کے پاس بے نامی پیسے کی تمام معلومات ہیں۔ لہٰذا ایمنسٹی اسکیم کی تاریخ گزرنے کے بعد ایسے افراد سے قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔
ایک سروے کے مطابق مہنگائی کی شرح گیارہ ماہ کے اقتدار میں 9اعشاریہ سے زائد ہے جس میں بجٹ کے بعد بڑھنے کے امکانات واضح ہیں۔ اسی طرح عوام اپنے “خیرات کی تاریخ کے اہم وزیر اعظم” سے یہ سوال تو کر ہی سکتی ہے کہ عمران خان کے خیراتی ادارے شوکت خانم اسپتال اور دیگر منصوبے دن دو گُنی ترقی کر رہے ہیں اور منافع بخش بھی ہیں تو کیوں نا اس بجٹ سے خیرات دینے والے ان تمام افراد پر ٹیکس لاگو کر دیا جائے جنہوں نے کسی نہ کسی مد میں”خیرات” کے نام پر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے اور خیرات کے نام پر ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنا پیسہ دیا ہے۔
اور اسی کے ساتھ ان تمام خیراتی اداروں کو حکومتی تحویل میں لے لیا جائے جو ادارے یا اسپتال “خیرات” کے پیسے سے بنے ہیں۔ امکان ہے کہ ہمارے “خیراتی وزیر اعظم” کے اس تاریخی قدم سے ھم مجموعی طور سے”خیرات”جیسی لعنت سے چھٹکارا بھی پا لیں گے اور عمران خان تاریخ میں ایک اعلیٰ اصلاحی شخصیت بھی بن جائیں گے۔
ہمارے خیراتی اداروں کو کامیابی سے چلانے والے وزیر اعظم کا شکوہ ہے کہ سالانہ 4 ہزار ارب ہم ٹیکس کی مد میں جمع کر پاتے ہیں جو کہ ملک کو چلانے کے لیے نا کافی ہیں۔
انہوں نے پاکستان کو سب سے کم ٹیکس دینے اور سب سے زیادہ خیرات دینے والا ملک بھی قرار دیا۔ اب ہمارے سلیکٹیڈ وزیراعظم شاید اپنے سلیکٹروں کی مانند اس ملک کو “خیراتی ملک” سمجھ بیٹھے ہیں، جس کی وجہ سے وہ عوام سے ٹیکس کے نام پر ملک کی معاشی ابتری “خیراتی ٹیکس” سے بہتر کرنا چاہتے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ آپ کی نیت درست نہیں اور نہ ہی سوال یہ ہے کہ آپ ماہر اقتصادیات ہیں۔ مگر یہ سوال ضرور ہے کہ جب سلیکٹرز نے آپ کو حکومت دینے کی یقین دہانی کروا ہی دی تھی تو حکومت چلانے کا مناسب بند و بست تو کر لیا ہوتا۔
ہمارے “خیراتی وزیر اعظم” کو یہ بات سمجھ کیسے آئے کہ یہ ملک اب تک تنخواہ دار اور متوسط افراد کے ٹیکس سے ہی چل رہا ہے جس میں دفاع سے لے کر صنعتی ادارے شامل ہیں۔ دوم کہ حکومت جب عوام سے ٹیکس لیتی ہے تو اسے عوام کو تعلیم، صحت، روز گار، ٹرانسپورٹ اور گھر کی بنیادی سہولیات “مفت” فراہم کرنا اس کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔
عوام شاید کہ آپ کے تصور سے زائد ٹیکس دیں اگر انہیں یہ یقین ہو جائے کہ اس کا ٹیکس دفاع کے غیر ضروری اخراجات کی نظر نہ ہو جائے گا، یا عوام کا دیا ہوا ٹیکس اشرافیہ اور حکومت کی عیاشیوں کی نظر نہ ہو جائے گا؛ یا وہ افراد ادارے اور کار و باری حضرات جو حکومتی مسند پر کسی نہ کسی طور بیٹھے ہیں وہ عوام کا دیا ہوا ٹیکس نہ کھا جائیں گے۔
پاکستان میں عوام یہ سوچنے میں بالکل حق بہ جانب ہیں کہ جب ملک میں 65 سے زائد طاقت ور منافع بخش کمپنیاں ٹیکس کی مد میں قومی خزانے میں ایک روپیہ نہ جمع کرائیں تو عوام کو آپ کا پیغام دینا چاہتے ہیں: یہی نا کہ عوام بھی ان 65 کمپنیوں اور دیگر کار و باری اداروں کی طرح یا تو ٹیکس چور بن جائے یا پھر ٹیکس بچانے کی مد میں شَبّر زیدی ایسے کی خدمات لیتی رہے۔
پاکستان کے عوام کا وزیر اعظم عمران خان کے انصاف کے عادلانہ دعوے پر یہ سوال تو بنتا ہے کہ “حضور عوام تو ماچس خریدنے سے لے کر بجلی، گیس اور ٹی وی لاِئسنس ٹیکس اور سیلز ٹیکس دے رہی ہے جو آج بھی جاری ہے، تو یہ بتائیے کہ عوام کا دیا جانے والا ٹیکس، عوام کی تعلیم، صحت، گھر کی دستیابی اور دیگر سہولیات کے حصول کے لیے اب تک کیوں نہ کار آمد بنایا گیا۔
حکومت اور معاشی ماہرین عوام کے جمع شدہ ٹیکس کا وہ میکنزم کیوں نہیں بنا پائے جس سے محروم عوام اور غیر ترقی یافتہ علاقے ترقی کی جانب بڑھیں۔ ہمارے وزیر اعظم کے آڈیو پیغام کے رد عمل میں اپوزیشن کے احسن اقبال کا یہ تبصرہ بہت دل چسپ ہے کہ”حکومتیں منت سماجت سے نہیں چلا کرتیں۔”
ماہرین کی رائے ہے کہ سات سو ارب کے ٹیکسز لاگو کر کے عوام سے اس کے جینے کا حق لیا جا رہا ہے جو کہ کسی طور موجودہ حکومت کو عوام کے سامنے “خیر آتی” حکومت ثابت کرنے میں نا کام ہی رہے گا۔