بھکاریوں کا سراب 

Waqas Alam Angaria

بھکاریوں کا سراب

افسانہ از، وقاص عالم انگاریہ

یہ شاید اس کا پہلا موقع تھا جب رفاقت کسی مغربی طرز کی محفل میں بیٹھا ہو۔ اس کی زندگی نہایت سادی تھی اور اسے پہلی دفعہ کسی پارٹی میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ یہ ڈیفینس کے پوش حصے میں واقع ایک فلیٹ تھا جہاں پر رفاقت اور اس کے دوست پارٹی میں اپنے حواس کا ماتم کر رہے تھے۔ وہ خود تو نہیں البتہ اس کی سنگت شغلِ بادہ خواری میں اس قدر مشغول تھی کہ ایک دوسرے کو پہچاننے سے عاری لگ رہے تھے۔

لکڑی سے بنا ہوا فرش، دیواروں پر لٹک رہے ایرانی قالین، کمرے میں موجود سینٹرل سپیکرز اور ان میں بج رہے شوخ گانے جن کی رفاقت کو ذرہ برابر سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ حیرانی کے عالَم میں وہ پورے گھر کو دیکھ رہا تھا جہاں بیس، بائیس لڑکے، لڑکیاں ناچتے ناچتے بے دم ہو چکے تھے۔

رفاقت کا تعلق ایک متوسط  طبقے کے گھرانے سے تھا اور وہیں پلا بڑھا تھا۔ اس کے ارد گرد کا ماحول قدرے حساس اور کنزرویٹو تھا۔ یہ ان لڑکوں میں سے تھا جن کے روز مرہ کے اوقاتِ کار میں کچھ غیر معمولی تبدیلی نہیں ہوتی، یعنی صبح اپنی یونی ورسٹی اور شام کو اپنے ورک شاپ اور رات میں محلے کے دوستوں کے ہمراہ ٹھٹھے مارنا، یہی معمول تھا البتہ رفاقت پڑھنے کا دل دادہ تھا۔ ترقی پسند نظریات سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار وہ تنقیدی تحریریں اپنے قلمی نام سے شائع بھی کرتا رہا تھا۔

یہ کوئی دو ہفتے پہلے کا ماجرا تھا کہ رفاقت کی ملاقات زین علی سے ہوئی، ملاقات کا ذریعہ اس کا ایک اور دوست بنا جو اس کے محلے کا ہی تھا۔ خیالات کی ہم آہنگی نے زین علی اور رفاقت میں رغبتیں بھی بڑھا دیں البتہ زین معاشی طور پر مستحکم اور معاشرتی لحاظ سے اپر کلاس سوسائٹی میں بڑا ہوا تھا۔

میں یہاں کیوں آ گیا؟ رفاقت خود کو کوسے جارہا تھا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ دو لڑکے اور ایک لڑکی اس کے پاس کھڑے اس پر ہنسنے لگے جیسے وہ اس کے کپڑوں پر طنز کر رہے ہوں۔ رفاقت نے انہیں سلام کرتے ہوئے ایک مسکراہٹ دی مگر ان لوگوں نے گویا کسی کوڑھ کے مریض کو دیکھ لیا ہو جس کے کپڑے کسی برانڈ کے نہیں، جس کی زبان پر انگریزی صوت نہیں اور نہ اس کے کسی بھی انداز میں کوئی بھی اپر کلاس رنگ ڈھنگ تھا۔ انہی میں سے ایک لڑکے نے جس کے بال ذرا گھنگھریالے، سفید ٹی شرٹ اور کالے شارٹس میں کھڑا امریکی طرز میں انگریزی بولتے ہوا کہنے لگا:

Who invited this brat? Zain did you? For serious?

ان جملوں کے لیے رفاقت تیار نہ تھا۔ وہ سکتے کے عالَم میں پہلے یہ سوچتا رہا کہ آخر ہوا کیا؟ آخر کیوں؟ آخر کوئی اس طرح محض کسی کی عزت نفس کی نیلامی کیوں کرے گا؟ وہ بھی صرف کپڑوں اور رنگ ڈھنگ پر؟ گو کہ زین نے سننے کے بعد اپنے ان دوستوں کو جھڑک دیا لیکن اینگزائٹی کی ایک زور دار لہر رفاقت کے حواس میں تیرنے لگی۔ پل بھر میں احساس کم تری میں تر ہو چکا۔

رفاقت اپنی زندگی کو فلیش بیک میں دیکھنے لگا کہ کس طرح مشکل سے وہ یونی ورسٹی میں داخل ہوا ہے اور کن کٹھن مشکلات میں اس کے والدین نے اسے پال پوس کر بڑا کیا تھا، کس تنگ مکان میں رہتے ہیں وہ سب جیسے یک سر اس کی آنکھوں کے سامنے ریل کی طرح ایک کے بعد ایک منظر دکھا رہا ہو۔

رفاقت کو زین علی سے ملے چھ دن ہی ہوئے تھے کہ زین نے اسے ایک پارٹی میں مدعو کیا جو اس کے کسی دوست نے پلان کی تھی۔ رفاقت تو بالکل تیار نہیں تھا کیون کہ وہ اس ماحول سے قطعی نا آشنا تھا، دوسرا اس کی روز مرہ کے معمولات اسے اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ ایسے پروگراموں میں رات گئے تک شرکت کرے۔

وہ دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا جس کے سبب گھر کے تمام کاموں میں اس کی محنت شامل تھی۔ والد ایک کمپنی میں ملازم تھے اور والدہ ایک لیب میں ڈاکٹر تھیں۔ ان دنوں ملک کے حالات شدید اتھل پتھل کا شکار تھے، معاشی طور پر ملک خسارے میں ڈوبتا جا رہا تھا جب کہ رفاقت کے خیال میں معاشی استقامت کے لیے ان لوگوں کو ڈھونڈنا ضروری تھا جن کے کاروبار کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ اس کا خیال تھا ملک میں کئی ادارے بَہ زور طاقت یا تو معیشت پر حاوی ہیں یا پھر کچھ بڑے افراد ہیں جو کہ چھپ کر لاکھوں روپے بنا رہے ہیں۔ وہ خود اکنامکس کے شعبہ سے تعلق رکھتا تھا۔ انہی باتوں سے ہی زین اور رفاقت میں دوستی بڑھی تھی اور اب وہ چند دنوں میں ذاتی دعوتوں تک پہنچ چکی تھی۔

وہ نہایت شرمندگی سے اٹھا اور جانے لگا کہ اس کو میزبان نے بٹھا کر معذرت کی اور ایک گفتگو کرتے کرتے اسے شراب کی آفر کی۔

شراب! اس نے سوچا کہ ذرا پی کر دیکھوں کیا ہوتا ہے؟ بڑے بڑے افراد کے بارے میں اس نے سنا تھا کہ وہ شراب اپنی فنی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے پیتے ہیں تو ذرا وہ بھی چکھ لے۔ اور آدھے گھنٹے میں وہ ایک پیگ پی گیا اور پھر دو۔ یونہی پیتے ہوئے وہ نظر دوڑانے لگا اور اسے محض زمین پر پڑے لڑکے اور لڑکیاں نظر آئے جو شراب اور چرس کی ابکائیاں لے رہے تھے۔ وہ لڑکا جو میزبان تھا وہ ایک ایک کا تعارف کروانے لگا۔

وہ لڑکا فلاں بیوروکریٹ کا بیٹا ہے اور وہ۔ وہ لڑکی فلاں میجر کی بیٹی ہے۔ اس لڑکا کا والد ایم پی اے ہے۔ سامنے پڑا ہوا لمبے بالوں والا لڑکا جو شراب کی قے لے رہا ہے فلاں سردار کی اولاد ہے۔ وہ لڑکا بولتا رہا۔ رفاقت ٹٹکی باندھے صرف میزبان کو ہی دیکھتا رہا کہ جیسے اس نے اس لڑکے کو دیکھا ہے، کہیں بہت قریب سے دیکھا ہے۔

قریبا 1:00 بج چکے اور یہ نیم تاریک رات تھی۔ موسیقی کے سروں اور سازوں میں پورا فلیٹ ڈوبا ہوا تھا اور خود رفاقت بھی ہلکا صحیح نشہ محسوس کررہا تھا۔ اس ماحول نے اس کو تھوڑے وقفے کے لیے بہکا دیا تھا اور اب وہ اس بہکنے سے بہت زیادہ محضوض بھی ہو رہا تھا۔ اس نے وقت دیکھا تو ایک بج چکا تھا۔ اس کو گھر بھی لوٹنا تھا لیکن حقیقت میں وہ اب جانا نہیں چاہتا تھا۔

اپنی بےعزتی کے با وجود وہ اس بات کا قائل ہوچکا تھا کہ یہ ان کے ماحول میں عام بات ہے اور وہ اپنی طرز زندگی کو ضرور بدلے گا۔ وہ ناچتا رہا یہاں تک کہ تھک کر اونگھنے لگا اور اونگھتے اونگھتے سو گیا۔ اس کے والدین پریشان حال پوری رات اس کے دوستوں کو فون کرتے رہے لیکن کسی کو کوئی خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں چلا گیا! یہاں تک کہ زین علی کو اس کے والد نے کال کی:

ہیلو! زین علی بات کر رہے ہیں؟

جی؟

میں رفاقت کا والد بات کررہا ہوں۔ کیا رفاقت آپ کے ساتھ ہے؟

جی انکل وہ گھر ہے۔ سو گیا ہے۔

وہ پاگل ہے؟ اس کو کہیں کہ مجھ سے بات کرے اٹھ کر۔

زین نے جب ذرا گرج دار آواز میں رفاقت کے والد کو پایا تو وہ بھانپ گیا کہ وہ طیش میں ہیں۔

والد سے بات کرنے کے لیے فون کان پر لگایا تو بہت ڈانٹ سننے کو ملی اور آخر کار وہ قریباً رات 3 بجے گھر کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اس کے پیچھے اس پر ان لوگوں نے دوبارہ قہقہے لگانے شروع کیے اور طنزاً جملے کَسے:

Go to your mama’s couch, your mommy is calling.

اور قہقہے لگاتے رہے۔

وہ رات اس پر قہر کی طرح نازل ہوئی۔ وہ اپنی تحقیر کو سوچ سوچ کر گھٹے جا رہا تھا۔ اسے بھی اب وہی لائف سٹائل چاہیے تھا وہی رنگ، ڈھنگ، الفاظ یہاں تک کہ آسائشیں۔ وہ اب اپنی مالی حالت پر پہلی بار شرمندہ تھا جس کا اثر اس کے اور اس کے والدین کے درمیان تعلق پر پڑا۔ وہ اپنی حقیقت سے آنکھیں نہیں ملانا چاہتا تھا۔ وہ انگریزی کو اسی تلفظ میں بولتے ہوئے، انہیں گانوں، انہی روشنیوں میں ناچنا چاہتا تھا اور یہ سب کرنے میں اس کے مالی حالات بیچ میں حائل تھے۔

ایک رات کا عذاب اس پر یوں پڑا کہ وہ جب سے اس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں۔ اس کو کئی ہفتوں کے با وُجود اس میزبان کی شکل مانوس سی لگ رہی تھی جیسے اس کو قریب سے دیکھا تھا۔ لیکن کہاں؟ اسے یاد نہیں آرہا تھا۔ زین علی ایک دو مرتبہ اس سے مزید ملنے آیا اور آخری ملاقات میں دونوں نے دوبارہ معاشیات کا تذکرہ چھیڑ دیا۔

یہ اتنا پیسہ آتا کہاں سے ہے؟ رفاقت نے جھنجھوڑ کر کہا۔

محنت سے! زین نے سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے جواب دیا۔

یار اس طرح تو ہمارا پورا گھر محنت کرتا ہے لیکن وہ تو امیر نہیں ہوئے؟

دیکھو! محنت کا مطلب ہے دماغ کی مشق نا کہ ہاتھوں کی۔ اب مجھے دیکھو میں آن لائن شاپنگ سائٹ چلاتا ہوں اور بہت کما لیتا ہوں۔

اچھا اس دن جو میزبان تھا وہ کیا کام کرتا ہے؟ زین نے تجسس میں پوچھا۔

وہ؟ وہ چونا لگاتا ہے۔

مطلب؟

خیر! یہ باتیں چھوڑو مجھے نکلنا ہے۔ کچھ دنوں کے لیے میں نہیں آؤں گا پھر ملاقات کرتے ہیں۔

وقت گزرتا رہا اور اس تاریک رات کا منظر، اس کمرے کی مہک اور ان لوگوں کی باتیں رفاقت بھلا نہیں سکا۔ وہ اپنے یونی ورسٹی کے تھیسس پر بھی کام کررہا تھا جس کا موضوع تھا “کاروبار کے وہ ذرائع جن کا کوئی ریکارڈ نہیں اور اس کا ملکی معیشت پر اثر”۔

رفاقت اب محلے کے دوستوں سے بھی متنفر تھا کیوں کہ یا تو وہ محض بےہودہ مذاق کرتے تھے جو اسے پسند نہیں تھا یا ان کا رہن سہن بہت زیادہ مڈل کلاس تھا جو اب اس کو اکتا رہا تھا۔ والدین کے ساتھ بھی معاملہ اب بہت عجیب سا تھا وہ اب صرف زین کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا اور دھیرے دھیرے زین علی کی باتیں علمی سمت سے تبدیل ہو کر پیسہ اور گاڑی تک آگئیں تھیں۔ کیا کمانا ہے، کتنا کمانا ہے، فلاں جگہ پیسہ لگایا ہے وغیرہ۔

گو کہ رفاقت کو پیسہ کمانا تھا لیکن روز روز ایک ہی گفتگو نے اس کو تنگ کر دیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کوئی علمی گفتگو ہو مگر چُوں کہ علم زین علی کے لیے صرف پیسہ کمانے کا نام تھا، سو اب دونوں میں سرد مہری بڑھتی گئی، دراڑیں آتی گئی اور یوں رفاقت کے اوسان پر اپر کلاس رہن سہن کا نشہ اور قوی ہوتا گیا۔ وہ چاہتا تھا لوگ اس کو سنیں اور مانیں اور اس کی تعریفیں کریں۔ اب زین علی کے علاوہ اور بھی دوست بنتے گئے جو اپر کلاس کے تھے جن کی دیکھا دیکھی رفاقت ان کی طرح خود کو تبدیل کرتا رہا۔ ان میں سے کچھ بڑی اینطجی اوز کے مالکان کے بچے تھے جو تھوڑی بہت سیاست کی طرف مائل تھے۔ رفاقت کی ورک شاپ اور اس کی پڑھائی دونوں ایک طرف کونے میں سرکتے گئے اور اسے معلوم بھی نہیں چلا کب وہ اپنی معصومیت کو کوسوں دور کسی سنسنان جنگل میں چھوڑ آیا اور شہر کی رونقوں کا اسیر ہو گیا۔

اس کی سادگی کے چھٹتے ہی اس کی ذہنی کیفیت میں بھی تغیر آتا رہا۔ وہ اب زیادہ اینگزائٹی کا شکار رہتا تھا، وہ پہلی بار ڈپریشن کے فیز سے گزرنے لگا کیوں کہ وہ جہاں اٹھتا بیٹھتا تھا وہ اس کے مادی حقیقت سے کوسوں دور کوہ قاف کا کوئی پریستان تھا جس سے خود کو تقابل کرنے کے چکر میں وہ اپنی اور اپنی مڈل کلاس حقیقت سے بھاگتا رہنا چاہتا تھا۔

رفاقت نے محسوس کیا کہ زین اب بہت تنگ نظر ہوتا جا رہا تھا کہ جیسے رفاقت کو دنیا زین نے دکھائی ہو اور ہر دوسری بات پر طنز، طعنہ اور آخری جملہ، “تم میرے دوست ہو اس لیے نیک نیتی سے کہہ رہا ہوں،” زہر آلود تیر کی طرح رفاقت کو چبھتا تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ زین اپنی زندگی کا فلسفہ ہر شخص پر تھونپنا چاہتا ہے جو تکلیف دہ بات تھی۔

پہلی پارٹی میں ہو چکی بے عزتی کے بعد اب کا رفاقت بالکل الگ تھا۔ وہ انگریزی میں گفتگو کرتا تھا گو کہ وہ اس طرح نہیں تھی جیسے ایلیٹ بچے کرتے تھے، مگر ایک اور تبدیلی واقع ہوئی کہ رفاقت کی پہچان اب اپنی نہیں رہی۔ وہ اب فلاں کا دوست سے متعارف ہوتا تھا اس کی اپنی پہچان؟ دھواں… بے نام تھی۔

آج ایک اور پارٹی تھی اور وہ تیار ہو رہا تھا کہ والدہ نے اسے ٹوکا کہ تم آج نہ جاؤ، ایک ہی چھٹی کا دن ہے اس میں بھی تم نکل رہے ہو اور تم ورک شاپ پر کام نہیں کر رہے ہو اور نہ پڑھائی کرتے ہو۔ یہ باتیں رفاقت کے حواس پر سوار ہوتی رہیں جیسے پانی آہستہ آہستہ اوپر آتا جائے اور ایک دم رفاقت پھٹ پڑا۔ اپنی والدہ اور والد کو اس کی غربت ہر کوستے کوستے ان کو بہت باتیں سنائیں جس سے پہلی بار اس کی والدہ کی آنکھیں بھر آئیں اور اسی دوران اس نے دروازہ زور سے پٹکا اور باہر نکل گیا۔

وہ پارٹی میں پہنچا جہاں سب ناچ رہے ہیں، گا رہے ہیں، شرابیں پی رہے ہیں اور ہلّا کر رہے ہیں یہ منظر دیکھتے ہی اس نے گھر میں جو کیا وہ اس کے ذہن سے فنا ہو گیا اور وہ دو بارہ کوہ قاف کے پرستان میں آ گیا جہاں انگریزی، اقدار، ملبوسات، موضوع گفتگو، موسیقی سب کچھ اس کی حقیقت سے ما وراء ہیں۔

پوری رات شرابیں پی کر جب پَو پھٹنے پر اس کی آنکھ کھلی تو اسے یاد آیا کہ وہ والدین سے کس قدر بد تمیزی سے اور نہایت بے رخی سے بات کر رہا تھا۔ یہ سوچتے سوچتے وہ اٹھا بائیک سٹارٹ کی اور گھر چل دیا۔ دو پہر تک وہ سوتا رہا اور جب آنکھ کھلی تو گھر میں اس سے کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔ ڈپریشن کا ایک اور شدید اٹیک ہوا اور وہ سوچتا رہا کہ کیا اس کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ آزادی سے زندگی گزارے اور آزاد رہے جیسے سب رہتے ہیں والدین کو یہ بات کوئی کیسے سمجھائے؟ وہ انگریزی میں بڑبڑاتا ہوا خود سے کہنے لگا:

My parents are very toxic, they have no value for their son’s liberty.

مہینوں گزر گئے اور اس کا ڈپریشن بڑھتا رہا۔ زین، اس کے والدین، اس کے دوست، اس کی تعلیم سب کچھ اسے ڈپریس کر رہی تھی۔ منگل صبح اس نے بائیک سٹارٹ کی اور وہ صدر کے قریب ایک ہوٹل پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ کیا کرے؟ کس طرح ڈپریشن پر قابو پائے؟ وہ پاگل ہو گیا تھا۔

وہ اس چکر میں لگا رہتا تھا کہ کس طرح وہ اپنا مقابلہ ایلیٹ سے کرے، ان کے رنگ ڈھنگ میں کیسے ڈھلے؟ کس طرح خود کی معاشی حقیقت کو چھپائے؟ یہ سب سوچتا رہا اور سگریٹ کا دھواں سلگاتا رہا کہ اچانک سامنے ایک رش کو پایا۔ پولیس نے ایک جعل ساز کو جو ایک بھکاری تھا اس کو پکڑ کر وین میں ڈالا تھا۔ شروعات میں تو اس نے کوئی دل چسپی نہیں دکھائی لیکن میڈیا کو وہاں دیکھ کر رفاقت اٹھا اور اٹھ کر قریب گیا اور وین میں جھانکنے لگا، نظر پڑتے ہی وہ ساکن کھڑا ہوگیا۔ بالکل بےدم لاش کی طرح سُن۔ اس کو دو بارہ اپنی پہلی پارٹی، وہ بے عزتی، شرابیں، ناچتے لڑکے لڑکیاں خود کے سامنے جھومتے ہوئے نظر آئے۔ یہ شخص جو وین میں بیٹھا تھا یہ اس پارٹی کا میزبان تھا۔

لیکن! یہ اس دن لاکھوں کی شرابیں پی رہا تھا اور پیسے اڑا رہا تھا؟ یہ بھکاری کیسے؟ اب رفاقت کو یاد آیا کہ اس نے اس شخص کو کہاں دیکھا تھا۔ یہ ہر دو پہر صدر کے سگنل پر کھڑا رہتا تھا اور بھیک مانگتا تھا۔ ٹی وی رپورٹ کے مطابق یہ بھکاری لاکھوں روپے کی ملکیت کا مالک تھا جس کے کئی فلیٹس، کئی کمرشل مارکٹیں اور دو گاڑیاں تھیں۔ یہ اتنا بڑا سکینڈل تھا کہ وہ شاک ہوگیا۔ وہ سَکتے کے عالَم میں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ ٹی وی اور اخباروں پر یہ خبر فرنٹ پر تھی اور وہ بھکاریوں کا ایک نیٹ ورک چلاتا تھا یہ بات زین علی کو بھی معلوم تھی۔

رفاقت اور زین پولیس سٹیشن گئے اور انہیں دیکھ کر وہ شخص مسکراتا رہا اس نے رفاقت کو دیکھ کر دوبارہ کہا: میں اس رات کے لیے معذرت خواہ ہوں کہ انہوں نے آپ سے بد تمیزی کی، آپ شریف انسان ہیں کہ ایک جعل ساز کے پاس آئے جو لوگوں کو چونا لگاتا ہے لیکن مجھ پر کوئی دل سوز تاثرات مت دیں۔ ہاں! بھیک میرا پیشہ ہے اور میں بھکاری ہوں۔ لیکن میں اکیلا نہیں! اس دن پارٹی میں آیا ہر شخص بھکاری تھا، صرف فرق اتنا ہے کہ میں پکڑا گیا۔ وہ جس کا بات بیوروکریٹ تھا اس سے والد کا پوچھیں کیا کرتا ہے؟ بھیک مانگتا ہے۔ زر و زمین کی بھیک۔ وہ ایم پی اے؟ طاقت کی بھیک۔ وہ میجر؟ کپڑوں سے لےکر ہر چیز بھیک! اور وہ سردار؟ اس کے علاقے میں ہر شخص سے سالانہ بھیک لے کر مونچھیں سنوارتا ہے۔ رفاقت میاں! ہم سب بھکاری تھے، لیکن! وہ رئیس زادے تب تک ہیں جب تک پکڑے نہیں جاتے اور پکڑ لیے جائیں تو بھکاری بن جاتے ہیں۔

یہ کہتے کہتے ایک زور دار تھپڑ حوالدار نے اس بھکاری کو رسید کیا۔ تیری اوقات کہ تو میجر صاحب اور ایم پی اے صاحب کے خلاف بولے؟ بھکاری نے بڑبڑاتے ہوئے کہا: سب اچھے ہیں جب تک وہ کسی کے ہاتھ نہ آئیں۔

رفاقت کے لیے دنیا پلٹ گئی۔ زمین جیسے آسمان پر ہو اور وہ ایک خلاء میں تیر رہا ہو۔ یہ پرستان کے خواب جن کو پانے کی کوشش کر رہا تھا وہ تو محض سراب تھے۔ وہ تو ایک لا متناہی پیاس تھی جو شاید کبھی نہیں بجھتی۔ سکوت کے ایک وقفہ کے بعد رفاقت کو ایک جھرجھری ہوئی،  اچانک کلک ہوا کہ بھکاریوں کی ان اقسام کا جائزہ لینا زیادہ ضروری ہے جو سوٹ بوٹ پہن کر انگریزی میں بھیک مانگتے ہیں اور جن کے لیے کلاس کا تعین انگریزی زبان اور برانڈ ہے جس کی آڑ میں معاشرتی قدریں ان پر لاگو نہیں ہوتیں اور اسی لیے قانونی آنکھوں سے بھی وہ سرک جاتے ہیں۔ اسی اثناء میں لوئر مڈل کلاس میں بڑھتے ہوئے ڈپریشن کا ریکارڈ نہیں جو غیر قانونی ذرائع معیشت کی ایک بڑی وجہ ہے لیکن! چوں کہ یہ قسم اپنے رنگ ڈھنگ کی وجہ سے قانونی نظروں میں جلد آ جاتی ہے اسی لیے ہمارے پاس بھکاریوں کی صرف اس قسم کا ریکارڈ ہے۔

پارٹی میں چبھتے ہوئے وہ الفاظ جو اس کو اپنی بے عزتی لگ رہے تھے اب سمجھ آئے کہ وہ کیا تھے؟ وہ آئینہ تھے جس میں وہ اپنا عکس دیکھ رہا تھا۔ اس کو دو بارہ اپنا پرانا رفاقت چاہیے تھا۔ وہ اٹھا، گھر گیا اور ماں سے گلے لگ کر رونے لگا اور معافیاں مانگتا رہا۔ زین سے کئی ماہ کی دوستی کو خدا حافظ کہہ کر دو بارہ اپنے تھیسس پر کام کیا اس نے اپنا تھیسس بھکاریوں کے سکینڈل پر بنایا جہاں بھکاریوں کی مختلف اقسام کا عمیق جائزہ تھا اور ان کے کاروباری ذرائع اور معاشرتی طرز پر ایک مفصل کلام تھا۔