ہماری صلح ساز سیاستدان ، بے نظیر بھٹو
(نصیر احمد)
ریحانہ:نائلہ ،کیا بات ہے، پچھلے دو تین دن سے تم چپ چاپ اور کھوئی کھوئی سی رہتی ہو، پڑھائی پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی، کیا بات ہے؟
نائلہ: کوئی خاص بات نہیں مس جی، ویسے ہی۔
ریحانہ: ویسے ہی یا بتانا نہیں چاہتی؟ صحت تو ٹھیک ہے؟ گھر میں تو سب اچھا ہے ناں؟
نائلہ: جی مس جی، صحت بھی ٹھیک ہے اور گھر میں بھی کوئی پرابلم نہیں ہے۔
ریحانہ:پھر کیا بات ہے؟ دیکھو تمھاری پریشانی تمھاری پڑھائی پر منفی طور پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اور پڑھنے کے لیے ایک تندرست جسم کے ساتھ ساتھ ایک صحتمند دماغ انتہائی ضروری ہوتا ہے، ورنہ تعلیم کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اور یہ سکول کی ذمہ داری ہے کہ تمھارا اور سب بچوں کا ہر ممکن طریقے سے خیال رکھے۔ اس لیے بتانے کی کوشش کرو، شاید میں تمھاری کچھ مدد کر سکوں۔
نائلہ: مس جی، یہ سب باتیں اچھی ہیں لیکن شاید میری مدد کرنے کے لیے آپ کو پورا معاشرہ ہی تبدیل کرنا پڑے۔
ریحانہ: ایسی بھی کیا بات ہو گئی؟ لیکن بیٹا ایک بات یاد رکھو کہ معاشرہ ایک فرد تبدیل نہیں کر سکتا، زیادہ سے زیادہ تبدیلی کی کوئی راہ ہی دکھا سکتا ہے۔ تبدیلی معاشرے کی ایک اجتماعی کوشش ہوتی ہے اور ہر فرد نے اس تبدیلی کے لیے اپنا کردار نبھانا ہوتا ہے۔
نائلہ: اور مس جی، اگر معاشرہ فرد کے کردار کا تعین ہی نہیں کر سکے؟
ریحانہ: تو یہ معاشرے اور افراد کی مشترکہ ناکامی ہو گی، جس کو دور کرنے کے لیے انھیں کچھ سوچنا پڑے گا، لیکن تمھارے ذاتی مسئلے کے بارے میں کچھ جانے بغیر ہی، ہم معاشرہ درست تو نہیں کر سکتے۔ اگر تم اپنی سوچ سے مجھے کچھ آگاہ کرو تو شاید کچھ بات ہو سکے۔
نائلہ: اور اگر میں اپنی سوچ سے آگاہ کروں تو شاید ڈانٹ پڑ جائے، آپ سب ہنس دیں، ہو سکتا ہے مار ہی پڑ جائے،یا جرمانہ ادا کرنا پڑ جائے، یہ سب بھی ہو سکتا ہے، ہوتا بھی رہتا ہے۔
ریحانہ:بچے، میں تو کوشش ہی کر سکتی ہوں، میری طرف سے تسلی رکھو ایسا کچھ نہیں ہو گا،ویسے بھی میں تمھیں تاریخ پڑھاتی ہوں ڈراما نہیں۔تم اپنی بات کرو،ہماری خرابیاں گنواتی رہو گی، بات نہیں ہو سکے گی۔
نائلہ: اچھا مس جی، میرا مسئلہ خبریں ہیں اور وہ سارے حالات جن کے بارے میں یہ خبریں دکھائی جاتی ہیں۔ کہیں لڑائی جھگڑا، کہیں گھیراو جلاو، کہیں دہشت گردی، کہیں قتل و غارت، کہیں، فساد، اور نہ جانے کیا کیا، بس جرائم ہی جرائم، کچھ بھی تو اچھا نہیں ہوتا اور خبریں دکھائی بھی ایسے جاتی ہیں، کہ جتنا برا ہے، اس سے بھی برا لگتا ہے لیکن کوئی کچھ کرتا ہی نہیں بلکہ لگا تار برائی سنتے سنتے برائی میں کچھ لطف آنے لگتا ہے، لیکن مجھے اس مسلسل برائی میں لطف نہیں آرہا، اس سب کی وجہ سے میں اداس رہتی ہوں۔
ریحانہ: ٹھیک کہہ رہی ہو،کچھ تو حالات بھی خراب ہیں اور کچھ خبریں بنانے والے بھی تم جیسے نوجوانوں کی دماغی صحت اور انسانی حقوق کو خبریں بناتے وقت دھیان میں نہیں رکھتے۔اور خبروں کا نگران ادارہ بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہے۔ایک طرح کی اجتماعی غفلت جو انسانی حقوق اور تعلیم کے مقاصد کا انکار کرتی ہے۔ بنیادی طور پر قومی سطح پر ایک جھگڑا جس کی صلح آنے والے نسلوں کے شاندار مستقبل لیے بہت ضروری ہے۔
نائلہ: لیکن یہ صلح کیسے ہو گی اور کون کرائے گا؟
ریحانہ: اس سوال کا جواب میں ،تم اور ہم سب ڈھونڈیں گے لیکن میں تمھیں ایک صلح ساز کی کہانی سناتی ہوں۔ آج سے تقریبا ڈھائی ہزار سال پہلے یونان قدیم کے شہر ایتھنز میں ہماری طرح کے جھگڑے پیدا ہو گئے تھے۔ ہر وقت لڑائی جھگڑا،
قتل و غارت، لوٹ مار کے واقعات ہوتے رہتے تھے۔وجہ یہ تھی کچھ امیر لوگوں نے اس شہر کا سارا نظام اپنے حق میں کر لیا تھا۔ اس وجہ سے کسی کی داد رسی نہیں ہوتی تھی اور نہ کسی کو انصاف ملتا تھا۔قرضوں کے بدلے غریبوں کی زمینیں ہتھیا لی جاتی تھیں اور زمینیں ہتھیانے کے بعد ان غریب شہریوں کو امیر لوگ ذاتی غلام بنا لیتے تھے۔ایتھنز میں شہریوں کی عزت کا ایک رواج پہلے سے ہی موجود تھا لیکن اس پر اس زمانے میں کچھ عمل نہیں کیا جاتا تھا۔ اس شہری نظام میں بہت خرابیاں تھیں اور سب سے بڑی خرابی، خواتین، پردیسیوں اور غلاموں کو شہری حقوق نہ دینا تھی۔ شہریت صرف بالغ مردوں تک محدود تھی لیکن ان کی ایک کثیر تعداد کے شہری حقوق امیروں کی ایک جماعت نے ضبط کر لیے تھے۔ لیکن ان سب اقدامات کے باعث ایتھنز میں ایک افراتفری کا عالم ہو گیا تھا اور معاشرہ بگڑتا ہی جارہا تھا۔ شہر ٹوٹنے کے خوف سے شہریوں نے سوچا کہ کسی دانا آدمی کو شہر کا کچھ عرصے کے لیے حاکم بنا دیا جائے۔اس کے لیے انھوں نے سولون کو چنا ، جس کے شہر کے ہر طبقے سے تعلقات تھے، خود وہ درمیانے طبقے سے تعلق رکھتا تھا، خاندان اس کا امیروں کا تھا اور غریبوں سے کاروبار کے سلسلے میں اس کے رابطے رہتے تھے۔ سولون نہ صرف ایک دانا آدمی تھا بلکہ ایک اچھا آدمی بھی تھا۔امیروں کو اس سے یہ توقع تھی کہ وہ چھوٹی موٹی اصلاحات کر کے غریبوں کا دل خوش کر دے گا لیکن امیروں کے حق میں بنے نظام کو نہیں چھیڑے گا۔ غریبوں کو امید تھی کہ سولون مال، جائیداد اور شہریت کے حوالےسے انھیں برابری کے حقوق دے دے گا۔اور اس کے اپنے طبقے کے لوگوں کاخیال تھا کہ وہ ان کے مفادات کی نگرانی کرے گا۔
لیکن دانا آدمی کا ایک وصف ہوتا ہے، وہ کسی خاص طبقے سے اس کا اتنا گہرا تعلق نہیں ہوتا کہ وہ ان کے مفادات کا غلام بن جائے۔ دوسرا وصف دانا آدمی میں یہ ہوتا ہے اس کے اپنے معاشرے کی حدود اور امکانات سے آگاہی ہوتی ہے اور اس کے اقدامات حدود سے آہستہ آہستہ باہر آتے امکانات کو اجاگر کرتے ہیں۔تیسرا وصف دانا آدمی کو یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے معاشرے کے سفر کی سمت درست کرنی ہوتی ہے۔ اور چوتھا وصف دانا آدمی کا یہ ہوتا ہے کہ اس نے سب معاشرتی جھگڑوں میں ایک صلح ساز کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔
سولون واقعی ایک دانا آدمی تھا اور اس نے اپنے ان سب اوصاف سے فائدہ اٹھانے کی کو شش کی۔ اس نے غریبوں کے قرضے معاف کردیے۔ امیروں کے لیے مزید جائیداد کا حصول مشکل بنا دیا۔ شہریوں کی غلامی پر پابندی لگا دی۔ جو لوگ قید میں تھے یا جلاوطن تھے ان کو شہر میں واپس آنے کی اجازت دے دی۔ اور شہر میں فیصلوں میں شامل لوگوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا۔ اور شہر میں موجود سب گروہوں کے شہری معاملات میں اختیارات بھی بڑھا دیے۔
اس کے علاوہ سولون نے نئے سکے جاری کیے اور ماپ تول کا نظام بھی بہتر کیا۔ اور شہر ے عہدوں پر تقرر کے لیے امرا میں پیدا ہونے کی ترجیح ختم کردی اورعہدے کے لیے شہر کی خدمت اور دولت کو ضروری قرار دیا۔ یونان میں جیسے ہمارے قائد اعظم کہا کرتے تھے، بطور شہری اپنے فرائض کے لیے ذاتی کامیابی کا ہونا بہت ضروری تھا اور دولت ذاتی کامیابی کا ایک اظہار سمجھی جاتی تھی۔سولون نے شہری اسمبلی اور شہری عدالت کو فعال کرنے کے لیے اس میں تمام شہریوں کی موجودی لازمی قرار دے دی۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں شہریوں کو نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کا حق بھی مل گیا ہے۔
سولون کے ان اقدامات کے نتیجے میں شہریوں نے اسے ایتھنز کا آمر مقرر کرنے کی پیش کش کی،یعنی سولون کسی عمل کے لیے جواب دہ نہ ہو لیکن سولون جو کہ ایک اچھا شہری بھی تھا ، اس نے یہ پیشکش مسترد کردی۔ سولون کی اصلاحات کے نتائج سامنے آنے پر شہریوں کے سب طبقات اس سے ناراض ہو گئے لیکن سولون کہا کرتا تھا کہ میری اصلاحات ان بھیڑیوں کی مانند ہیں جو کتوں کو آپس میں جھگڑنے سے باز رکھیں گی۔ہوا بھی یہی، شہری سولون سے ناراض ہو گئے، لیکن شہر میں جھگڑے کم ہو گئے اور سولون ایتھنز چھوڑ کر مصر چلا گیا۔ وہ واپس آیا تو شہر میں ایک آمریت قائم ہو چکی تھی، جس کے خلاف بوڑھا سولون اپنی موت تک آواز بلند کرتا رہا۔
سولون مر تو گیا، لیکن اس کے اقدامات آج بھی زندہ ہیں،اس کی موت کے کچھ عرصے بعد ایتھنز میں جمہوریت قائم ہو گئی اور ایتھنز جمہوریت کی ایک ابتدائی منزل کے طور پر آج بھی جمہوریتوں کا رہ نما ہے۔ زمانہ حال کی ترقی یافتہ جمہوریتوں نے غلامی پر پابندی لگا دی، خواتین کو برابری کے حقوق دیے اور پردیسیوں کے انسانی حقوق کا احترام کرنے لگیں۔
لیکن آجکل جھگڑے پھر بڑھ گئے ہیں جس کے نتیجے میں غلامی میں اضافہ ہورہا ہے، پردیسیوں کے ساتھ بدسلوکی ہونے لگی ہے، اقلیتوں کے برابری کے حقوق ختم کیے جارہے ہیں اور امیر غریب میں فرق بہت زیادہ بڑھ گیا۔ ہماری آج کی دنیا کو سولون کی طرح کا کوئی دانا، اچھا، شہری، درکار ہے۔جو صلح سازی کا کردار ادا کرے۔
تمھیں یہ کہانی اس لیے سنائی کہ جہاں بھی جھگڑا دیکھو، جھگڑے کی صلح کے لیے حل سوچو۔ جھگڑے کی اداسی میں گم اپنی صحت خراب کرتی رہو گی، لیکن مسائل کے حل کی طرف توجہ نہیں جائیگی۔ جھگڑوں کے حل سوچو گی تو کم از کم جو جھگڑے تم ختم کر سکتی ہو، وہ تو ختم ہو جائیں گے اور شاید جھگڑے ختم کرتے کرتے ایک دن تم سولون کی طرح ہم سب کے لیے مشعل راہ بن جاو۔ اور ہاں آیندہ جب بھی دل اداس کرنے والی خبر دیکھو تو اچھی خبروں کو تلاش کرو اور بری خبر کو سنجیدگی سے کیسے پیش کیا جا سکتا ہے، اس پر بھی سوچو۔
نائلہ: تھینک یو مس جی، آپ کا بہت شکریہ، میں آپ کے مشوروں پر عمل کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔ لیکن کیا میں پوچھ سکتی ہوں، کیا ہمارے ملک میں کوئی صلح ساز حکمران گذرا ہے؟
ریحانہ: ہماری صلح ساز سیاستدان بے نظیر بھٹو تھیں، لیکن جب انھیں صلح سازی کا ہنر آیا، وہ شہید کر دی گئیں۔لیکن ان کی صلح سازی موجود ہے لیکن ہمارے جھگڑے بہت زیادہ ہیں اس کی وجہ سے صلح سازی کے نتائج جس قدر توقع کی جاتی تھی،اتنے شاندار نہیں ہیں اور صلح سازی کی شکل بگڑ کر بدعنوانی کے اجازت نامہ بن چکی ہے لیکن پھر بھی بہت سی اچھی باتیں رونما ہوتی رہتی ہیں ، کچھ جھگڑے بھی کم ہو جاتے ہیں، اور امید کی شمع بھی روشن رہتی ہے، اب تم لوگوں کا زمانہ ہے، تم لوگوں نے نئی صلح سازی کی کوشش کرنی ہے، اس لیے پلیز اداسی سے ہٹ کر حل کی جستجو پر توجہ دو۔ تعلیم کے حصول کے لیے محنت کرو۔ایک فکر کرنے والا کامیاب تعلیم یافتہ ذمہ دار شہری ہی ایک اچھی زندگی اور ملکی ترقی کی ضمانت ہوتا ہے۔ ورنہ ہماری طرح کہانیاں ہی کہتی رہ جاو گی۔
نائلہ: نہیں مس جی کیسی بات کرتی ہیں، آپ تو ہماری سب سے اچھی استاد ہیں۔ اور آپ ہمیں تاریخ پڑھاتی ہیں ڈراما نہیں۔
ریحانہ: ھاھا مسکے کا شکریہ، اور طنز بھی کافی لطیف ہے۔ لیکن اپنی اداسی کم کرو اور مسائل کے حل پر توجہ دو۔
نائلہ۔ وعدہ مس جی۔
ریحانہ: گڈ گرل۔