بے نظیر بھٹو شہید : خوں جو رائیگاں گیا
مطیع اللہ جان
فیصلہ تو آگیا ہے مگر بے نظیر بھٹو کے لواحقین اور اس قوم کو انصاف نہیں ملا۔ اس قوم کو آج بھی نہیں معلوم کہ بے نظیر بھٹو کے قاتل کون ہیں؟ شاید جانتے سب ہیں مگر ”بنا ثبوت“ کوئی بھی نام نہیں لیتا۔ پاکستانی قوم وہ خاندان بن چکی ہے جس میں ”غیرت“ کے نام پہ قتل کرنے والے کا نام لینا قوم اور خاندان سے غداری قرار پاتا ہے۔
مقتول کے لواحقین اور تمام “ریاستی ادارے” اور آئینی ادارے اور معاشرے کی آنکھ اور کان دانشور حضرات گونگوں بہروں کی طرح اشاروں کنایوں میں بات کرتے ہیں اور بس بے نظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ بھی ایک گونگے کی صدا سے کم نہیں جو اشاروں کی زبان میں اداروں اور قوم کو کچھ بتانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دستاویزی شواہد اور گواہان کی ایک فہرست ہے جو جج نے بھی بظاہر عوام کی عدالت میں رکھ دی۔
پانچ صفحات میں اقوام متحدہ کے تحقیقاتی مشن کی رپورٹ کا خلاصہ ہے جس میں پاکستان کے خفیہ اداروں کے اس قتل کی تحقیقات کے حوالے سے پراسرار کردار کی تفصیلات کو فیصلے کا باقاعدہ حصہ بنایا گیا ہے اس مقدمے میں سرکاری استغاثہ کی طرف سے لگائے گئے۔ سنگین الزامات اور عدالتی فیصلے کے بیچ خود سرکاری استغاثہ کا کردار بھی ایک خوفزدہ تفتیش کار یا گواہ کا سا لگتا ہے۔ سرکار کے اہم گواہان اور دستاویزی ثبوتوں کو عدالت کے سامنے پیش ہی نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر طالبان رہنما بیت اللہ محسود اور ایک مولوی کے درمیان پہلی ٹیلی فونک گفتگو جنرل مشرف حکومت قتل کے اگلے ہی دن منظرِ عام پر لے آئی تھی۔
مقدمے کے گواہ بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) جاوید اقبال چیمہ نے اٹھائیس نومبر کو پریس کانفرنس میں یہ آڈیو ٹیپ پیش کی (اس وقت وہ نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل کے انچارج تھے) اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے پیچھے بیت اللہ محسود اور اسکے بندوں کا ہاتھ ہے۔ بریگیڈئیر (ر) چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کو یہ آڈیو ٹیپ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں اس اجلاس میں دی گئی جس میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے سربراہان موجود تھے اور یہ کہ اس میٹنگ میں بتایا گیا کہ جنرل مشرف کی زیرِ صدارت ایک اجلاس میں ان تمام معلومات کو عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ ہوا ہے جو خفیہ اداروں کے پاس دستیاب تھی اور یہ کام پریس کانفرنس کے ذریعے بریگیڈئیر (ر) چیمہ کے بطور ترجمان وزارت داخلہ نے کرنا تھا۔ بریگیڈئیر (ر) چیمہ کے مطابق اس وقت کے ڈی جی (کاؤنٹر) میجر جنرل نصرت نعیم نے جو موادان کے حوالے کیا اس میں وہ آڈیو ٹیپ بھی شامل تھی۔
جج صاحب کے مطابق بریگیڈئیر (ر) چیمہ نے بیان میں یہ نہیں بتایا کہ یہ گفتگو کس اہلکار نے کس طریقہ سے ریکارڈ کی، یقیناً بیان میں یہ معلومات دینا اہم قانونی تقاضا اور ذمے داری تھی۔جج کے فیصلے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بیت اللہ محسود کی ٹیلی فونک گفتگو جس میں وہ بظاہر بے نظیر (نام لیے بغیر) کے قتل پر مبارکباد دے رہا تھا، اسکو ریکارڈ کرنے والے اہلکار کو بطور گواہ پیش ہی نہیں کیا گیا۔
جج نے یہ بھی لکھا کہ اس خفیہ اہلکار کا بطور آئی ایس آئی کے ایک آپریٹر نام اسماعیل نمبر شمار سو پر گواہوں کی فہرست میں بھی موجود تھا۔ جج نے فیصلے میں لکھا کہ سرکاری استغاثہ کی جانب سے آئی ایس آئی کے اس ٹیلیفون آپریٹر کو پیش نہ کرنے کا فیصلہ “حیران کن تھا”۔
ظاہر ہے اگر وہ خفیہ اہلکار کٹہرے میں کھڑا ہوتا تو اس پر جرح ہوتی، سوال ہوتے، جن کا جواب اگر تسلی بخش نہ ہوتا تو تمام نظریں اس آڈیو ٹیپ کو فراہم کرنے والی ا±س وقت کی فوجی قیادت کی جانب اٹھ جاتیں، اس خطرے سے بچنے کا آسان حل یہ نکالا گیا کہ گواہ کو ہی پیش نہ کیا جائے۔ حیرت کی بات اور سوال یہ بھی ہے کہ سرکار کے استغاثہ کے وکیل نے خود ہی اپنا اہم ترین گواہ کس خوف یا دباو¿ میں پیش نہیں کیا؟
جج نے فیصلے میں لکھا کہ اس گواہ کے پیش نہ ہونے سے عدالت یہ تصور کرتی ہے کہ سرکاری استغاثہ کا اپنے ہی گواہ سے دست بردار ہونا ان کے اپنے خلاف جاتا ہے۔ فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ خفیہ اہلکار کو بطور گواہ پیش نہ کر کے سرکاری استغاثہ بیت اللہ محسود کی ٹیلی فونک گفتگو کی حد تک بینظیر بھٹوکے قتل کی مجرمانہ سازش ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس فیصلے میں طالبان کے مبینہ چار ساتھیوں کی گرفتاری سے جڑے حقائق کو بھی ایسے سامنے لایا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ملزمان کو باقاعدہ گرفتاری سے پہلے یا تو غیر قانونی تحویل میں رکھا گیا یا پھر گرفتاری کے فوراً بعد عدالت میں پیش نہیں کیا گیا جو اہم قانونی تقاضا ہے۔
ریکارڈ میں درج گرفتاری کی تاریخوں سے بھی کافی بعد ان ملزمان کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا۔ یہی وہ بنیادی قانونی نقطہ ہے جس کے باعث بہت سے دہشت گردی کے ملزمان اس لیے چھوٹ جاتے ہیں کہ انہیں خفیہ ادارے باقاعدہ پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے غیر قانونی تحویل میں رکھتے ہیں اور پھر وہ پولیس تحویل میں آنے کے بعد بھی ان کا بیان فوری ریکارڈ نہیں کیا جاتا۔
اس مقدمے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور ملزمان کو شک کا فائدہ یا تو مل گیا یا جان بوجھ کر دلوایا گیا۔ فیصلے میں ان ملزمان کے ساتھ چند دوسرے گرفتار ہونے والے ملزمان کو عدالت میں پیش نہ کرنے کے عمل پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔ طالبان کے ان مبینہ ساتھیوں کے خلاف ایک اور اہم ثبوت خود کش حملہ آوروں کے وہ جاگر جوتے، چادر اور کیپ (ٹوپی) تھی جو جائے وقوعہ سے برآمد ہوئے اور جو مبینہ طور پر گرفتار ملزم حسنین گل نے انہیں فراہم کیے تھے۔
سرکاری استغاثہ نے ان چیزوں کی برآمدگی کا ذکر تو کیا مگر ان کو بھی کبھی عدالت میں پیش نہیں کیا۔ کہا گیا کہ یہ چیزیں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری میں بھیجی گئی ہیں۔ جج نے فیصلے میں لکھا “حیرانگی کی بات ہے کہ آج تک ایسی کوئی ڈی این اے رپورٹ عدالت میں پیش نہیں کی گئی”۔ ڈی این اے رپورٹ سے معلوم ہوسکتاتھا کہ خود کش حملہ آور کو یہ سامان گرفتار ملزم حسنین گل نے فراہم کیا۔ یعنی ان چیزوں پر حسنین گل اور خود کش حملہ آوروں کے ڈی این اے کے ذرات موجود پائے جاتے تو ملزم اور خود کش حملہ آوروں میں تعلق اور رابطہ ثابت ہو جاتا اور یوں مذکورہ ملزمان کا بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش کا حصہ ہونا بھی ثابت ہو سکتا تھا۔مگر وہ رپورٹ بھی عدالت میں پیش نہیں کی گئی۔
فیصلے میں دو پولیس افسران کو حفاظتی حصار ختم کرنے پر تو سزا سنا دی گئی اور جائے وقوعہ دھلوانے پر بھی، مگر لگتاہے کہ ان سے یہ بات معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی کہ انہوں نے کس کے کہنے پر جائے وقوعہ دھلوائی تھی۔ اس حوالے سے ا±س وقت کے کابینہ ڈویژن کے سیکرٹری عبد الرو¿ف چوہدری کی ایک دن میں مکمل کی گئی انکوائری رپورٹ کو ہمارے تفتیش کاروں نے بھی قبول کر لیا، جس میں خفیہ ادارے کی قیادت کو ایسے ہر الزام سے بری الذمہ قرا دے دیا گیا تھا۔
ایسی نیم دلانہ اور ہنگامی تفتیش اور اس کے ایسے نتائج کے بعد دو ملزم پولیس افسران یہ جان چکے تھے کہ اس ملک میں سچ بولنا کتنا مشکل اور خطرناک ہو گا۔ عافیت اسی میں تھی کہ جائے وقوعہ دھلوانے کا الزام اپنے ہی سر لیا جائے۔ جہاں تک سزا کا تعلق ہے تو وٹس ایپ نظام عدل میں ایسی سزائیں کم یا ختم بھی ہو جاتی ہیں اور مراعات اور پنشن تو آئین سے سنگین غداری کے ملزم جنرل مشرف کی بھی کوئی بند نہیں کروا سکا۔ ریاستی اداروں اور مقدمے میں سرکاری استغاثہ کے وکیلوں کا کردار قابل غور اور از خود قابل تفتیش ہے۔
مگر پھر مقتولہ مسمات بینظیر بھٹو کے اپنے لواحقین کا کردار بھی کچھ اچھی نظیر قائم نہیں کرسکا۔ اگر پیپلز پارٹی اور بینظیر بھٹو کے زندہ بچ جانے والے جانثار سیاستدان اقتدار میں آنے کے بعد آج تک اس مقدمے میں آیان علی کے مقدمے جتنی بھی توجہ دیتے تو فیصلے میں درج استغاثہ کی ناکامیوں اور غلطیوں کا بروقت ازالہ کیا جا سکتا تھا۔
مگر اقتدار بڑی گھٹیا چیز ہے، جو خون سفید کر دیتی ہے۔ 1988 ہو 1996 ہو یا 2008 یہ سفید خون ہی ہوتا ہے جو آپ کواقتدار میں واپس آنے کی خاطر اپنے خون کا سودا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ “گندا ہے پر دھندا ہے” اور اسی لیے بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کے فیصلے سے بہت سے سیاسی نعرے جھوٹے ثابت ہو گئے ہیں، جیسا کہ “بھٹو تیرے خون سے انقلاب آئے گا” اور پھر”بی بی تیرا خون رائیگاں نہیں جائے گا”۔ افسوس صد افسوس، انقلاب نہیں آیااور خون بھی رائیگاں گیا!
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت