برٹرینڈ رَسل خود کو پرسہ دیتے ہیں 

برٹرینڈ رسل کی وفات
Betrand Russel via BBC Radio 4

برٹرینڈ رَسل خود کو پرسہ دیتے ہیں: تعزیت نامہ

(برٹرینڈ رسل نے اپنا تعزیت نامہ آپ لکھا تھا۔)

اَرل سوئم، لارڈ رَسل (شاید برٹرینڈ رسل کہنا زیادہ مناسب ہے کہ یہی نام انھیں عزیز تر تھا) 90 برس کی عمر پا کر فوت ہو گئے؛ ان کی وفات سے ماضی سے جڑا سلسلۂِ پیوند ٹوٹ گیا۔ ان کے دادا، جان رَسل، ملکۂِ وکٹوریہ عہد میں وزیر اعظم  رہ چکے ہیں اور اَیلبا کے مقام پر قید نپولین کے ملاقاتیوں میں سے تھے۔ ان کی نانی شاہی خاندان کے فرد کی بیوہ کی سہیلی تھیں۔

نو جوانی میں ہی ریاضی اور منطق میں اہم کام کیا۔ ان کی قُوّتِ فیصلہ البتہ خبطی پَن کا نمونہ تھی؛ پہلی عالمی جنگ کے دوران ان کے مؤقف سے اس بات کا اندازہ بَہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔

غالباً ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کی وجہ سے وہ خود کو اس طرح سماج سے جوڑ نہیں پائے جیسے سرکاری سکولوں میں تعلیم پانے والے کرتے ہیں۔

تقریباً 18 سال تک وہ سرکاری تعلیمی اداروں سے دور رہے۔ بالآخر 1895 میں ٹرِنٹی کالج میں فیلو شپ حاصل کی، اور اگلے پندرہ سالوں میں مبادیاتِ ہندسہ، فلسفۂِ لیب-نَیز اور پرنسپیا مَیتھ-مَیٹِکا جیسی کتابوں کے بَل بُوتے پر خود کو علمی دنیا میں منوایا۔

آخر الذّکر کتاب رسل اور پروفیسر وائٹ ہیڈ کی مشترکہ کاوش تھی۔ اس کتاب کو آج جو بھی مقام حاصل ہے اس میں پروفیسر وائٹ ہیڈ کا ہاتھ زیادہ ہے کیوں کہ جو بصیرت اور روحانی گہرائی کتاب کا خاصہ ہے وہ پروفیسر وائٹ ہیڈ کی دیگر تحریروں میں بھی جھلکتی ہے۔ رسل کے ہاں یہ چیز نہیں پائی جاتی کیوں کہ منطق پر ضرورت سے زیادہ اصرار کی وجہ سے اکثر وہ ایسے حقائق سے محروم رہ جاتے ہیں جو منطق کی دست رس میں نہیں آ سکتے۔

جب ہم پہلی عالمی جنگ کے بارے رَسل کے خیالات پر نظر دوڑاتے ہیں تو ان کی جذبات سے تہی دامنی کا یہ عُنصر مزید کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ اگر چِہ بلجئیم کا خطرے میں گِھرے ہونا انھیں بھی تسلیم تھا، لیکن وہ سمجھتے تھے سیاسی مدبر کا فریضہ جنگ کو ٹالنا ہونا چاہیے اور اس مقصد کے لیے جرمنی کی فتح اور برطانیہ کی غیر جانب داری بھی انھیں قبول تھی۔

سماجی معاملات کو ریاضیاتی مساواتوں کی طرز پر پرکھنے کی عادت اکثر انھیں عظیم اقدار کی پہچان سے محروم کر دیتی۔ اس تناظر میں ٹرنٹی کالج کا انھیں لیکچررشپ سے معزول کرنا قابلِ اعتراض معلوم نہیں ہوتا۔

1920 میں روس کا تفصیلی دورہ کیا اگر چِہ وہاں کی حکومت انھیں نا پسندیدہ افراد کی فہرست میں ہی رکھتی تھی۔ بعد ازاں چین کے دورے کے دوران قدیم چینی تہذیب کا بَہ نظرِ غائر مطالعہ کیا۔

اس عرصے میں وہ پوری قوت سے سوشل ازم، تعلیمی اصلاحات اور ڈھیلے ڈھالے نظامِ اخلاقیات، خصوصاً شادی سے جڑے تصورات کو بدلنے کی حمایت میں لکھتے رہے۔

البتہ کبھی کبھی وہ سطحی موضوعات پر بھی لکھنا شروع کر دیتے۔ تاریخ پر لکھی گئی ان کی تحریریں اس لحاظ سے قابلِ تعریف ہیں کہ اُسلُوب اور طرزِ بیان کے ذریعے قاری سے موضوع کی سطحیت چھپانے میں کام یاب رہیں۔

دوسری عالمی جنگ میں وہ سیاسی معاملات سے کنارہ کَش رہے اور غیر جانب دار ملک میں قیام پذیر ہو گئے۔ کبھی کبھی نجی گفتگو میں جنگ کے متعلق خیالات کا اظہار کرتے تو فرماتے جب خُون خوار انسان ایک دوسرے کو مٹانے پر تُل جائیں تو عقل مند آدمی کو گھر ہی بیٹھ جانا چاہیے۔

یہ نقطۂِ نظر بَینٹ-ھَم کی طرز پر ہیرو ازم کو افادیت سے ما وَراء سمجھنے کا شاخسانہ ہے۔ خوش قسمتی سے ایسے خیالات رکھنے والے آج قدرے کم ہی ہیں۔

اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ جنگوں نے عظیم تہذیبوں کو کھنڈرات میں بدل دیا۔

لیکن کیا کسی عقل مند شخص کو یہ زیب دیتا ہے کہ عظیم مقاصد کے لیے جان کی قربانی پیش کرنے والوں کے جذبات کی توہین کرتے ہوئے ان کے فعل کو عبث قرار دے۔

ان کی زندگی لگے بندھے رستوں سے انحِرافی طریقوں کے با وُجود بغاوت کا تسلسل تھی۔ ایک طرح سے وہ اوائلِ انیسویں صدی کی جنونی اشرافیہ سے بچے آتے ہیں۔

ان کی نجی زندگی میں ایسی تلخی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی جو ان کی تحریروں کا خاصہ تھی۔ دل چسپ گفتگو ان کا طُرّۂِ امتیاز تھا۔

بے شمار دوست پائے، اگر چِہ، چند ہی ان کے ساتھ نباہ کر پائے۔

بَہ ہر حال، آخری سانس تک زندگی سے لطف کشید کرتے رہے جس کی اہم وجہ شاید ان کی صحت تھی۔ سیاسی حوالے سے زندگی کا آخری حصہ ملٹن کی طرح گوشۂِ نشینی میں گزرا۔ گویا وہ اپنے قافلے سے بچھڑے ہوئے شخص تھے۔

مترجم، علی حسین مجوکہ


 نوٹ از مدیر: علی حسین مجوکہ کا شکریہ بِسیار کے انھوں نے اس متن کو منتخب کیا اور ترجمہ کرنے کی محنت کی۔ اس ترجمے پر کافی تدوینی کام ہوا ہے۔ یہ ہماری بہترین دست یاب صلاحیتوں، توانائی اور ارتکازِ ذہنی کا اظہاریہ ہے۔ مگر سنجیدہ قاری اس پیش کش کو اس بنیادی مقدمے، premise، کو ذہن نشین رکھ کر پڑھیں کہ ترجمہ گو کہ اصل متن سے دیانت دارانہ طور پر جُڑا ہونا چاہیے، مگر ایک طرح کی گنجائش پھر بھی رہتی ہے؛ اس لیے کسی بھی ترجمے کی حیثیت، بَہ ہر حال اور بَہ جائے خود ایک نئے متن کی ہوتی ہے۔ امید ہے اس نثر پارے میں مزاح اور طنز کی وہ لطافت جو ہمارے یہاں کافی حد عنقا ہے، اور جس کی تخلیق میں کھردرے پن کا آ جانا معمول ہے، وہاں ایک لطیف تأثر پیدا کرنے اور حَظ سامانی میں معاون ثابت ہو گا۔