بیٹی زینب کے نام
از، آصف علی لاشاری
میری بچی زینب!
لوک داستانوں سے روایت ہے کہ تم نے جس جنگل میں آنکھ کھولی ہے یہ انسانوں کا جنگل ہے۔ یہاں بے شمار ایسے ہی واقعات ہوتے ہیں اور مثالیں ملتی ہیں۔ جس حیوانیت کا تم شکار ہوئی یہ انسانوں کی ہی کردہ ہے۔ اس جنگل میں ہر آنکھ اشک بار ہے۔ ان میں گدھ، شیر، ہاتھی، ہرن اور الوؤں کی آنکھیں بھی شامل ہیں۔ ایسی غم گسار آنکھیں تمہیں حیوانوں کے جنگل میں نہیں ملیں گی کیونکہ حیوان تو اپنی حیوانیت پر اشک بار نہیں ہوتا۔
میری بچی کیا تمہیں معلوم ہے کہ ایسی حیوانیت کے شکار بچوں کے ایک لمبی فہرست ہے جس میں عاصمہ، شازیہ، ایمان، علی، عمر، عبداللہ اور بہت سے بے نام بھی شامل ہیں۔
میری بیٹی زینب جنگل کے اس خطہ میں ہر کوئی اپنے دکھ کا اظہار کر رہا ہے۔ شیر دھاڑ کر، ہرن بھاگ کر، گدھ لاشوں کو نوچ کر اور الو ساری ساری رات جاگ کر۔ روایات ہی ایسی ہیں کہ پاسداری کرنا پڑتی ہے۔ شیر اگر دھاڑے نہ تو کیسے غم کا مداوہ کرے۔ گدھ کو لاشیں نوچنا پڑ رہی ہیں ورنہ کون اسے غمگسار کہے گا۔ الوؤں پر جاگنا لازم ہے۔
پیاری زینب اس شور شرابہ سے بچنے کے لیے ہمیں تمہاری پیدائش سے پہلے ہی کاوش کرنی چاہیے تھی۔ کچھ لوگوں نے کی بھی تھی کہ تمہیں علم کی روشنی سے آگاہی دی جائے، تمیہں بتایا جائے کہ تمہارا جسم تمہارا اپنا ہے۔ اسے کوئی بھی تمہاری اجازت کے بغیر نہیں چھو سکتا۔ انسانوں کے حیوانیت صفت جنگل سے گزرتے ہوئے اپنے جسم کو تم نے کیسے بچانا ہے۔ چند لوگوں کی بات سن لی جاتی تو شاید یہ جنگل انسانوں کی پیدائش میں اضافہ کرتا نہ کہ حیوانوں کی۔
بیٹی زینب تم خوش قسمت ہو کہ تمہاری اس دردناک موت نے پورے ملک کو جگا دیا ہے۔ ہر کوئی تمہارے لیے انصاف مانگ رہا ہے۔ اکثریت اور اقلیت سب شامل ہیں۔ سب ہم جیسے اسی جنگل کے باسی ہیں انسانیت کا پرچار کرنے والے۔ لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ہم سے الگ عقیدہ رکھتے ہیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جبکہ مطالبہ سب کا انصاف ہے۔ سب عقائد اور مذاہب انسانیت کا درس دیتے ہیں۔ بچے بھی سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ اس واقعہ پر سب لوگ یک زبان ہیں کہ انصاف دلایا جائے۔
پیاری گڑیا لیکن شاید تمہیں معلوم نہیں کہ روایات کی پاسداری ہم پر لازم ہے۔ تمہارے والدین جتنا کرب تو شاید کسی کا نہ ہو۔ اس لیے ان کا حق ہے کہ وہ روایت قائم کریں اس مسئلہ کی بنیاد پر۔
لیکن یہ کیا ہوا میری بچی تمہارے والد نے روایت تو قائم کر دی مگر صرف اور صرف انسانیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقیدہ کی بنیاد پر۔ ایسی روایات تو اور بھی خطرناک ہو سکتی ہیں۔ جب بچے سانجھے تو دکھ بھی سانجھا ہوتا ہے ناں۔ اللہ نہ کرے کہ کہ ایسا واقعہ دوبارہ کسی بچے کے ساتھ ہو۔ لیکن اگر کبھی ایسا کسی اور عقیدے کے بچے کے ساتھ ہوا تو ایک اور روایت قائم ہو گی مگر ہمیں روایات نہیں بلکہ سب بچوں کے لیے انصاف چاہیے عقائد سے بالاتر ہو کر۔
بیٹی زینب مجھے خوف ہے کہ تمہارا مسئلہ شیروں کی دھاڑ سے دب نہ جائے، گدھوں کے نوچنے سے اس کی شکل نہ بگڑ جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ الو پھر ساری ساری رات جاگتے رہیں اور دن کا اجالہ ہونے سے پہلے آنکھیں بند کر لیں۔
میری بچی زینب ہمیں انصاف کی روایت قائم کرنے کی ضرورت ہے نا کہ فرقہ پرستی کی۔ مجھے ڈر ہے کہ تمہارا معاملہ سیاستدانوں کی سیاست اور مولویوں کی فرقہ واریت کی نظر نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو شاید تمہیں انصاف نہ مل سکے۔ پیاری بچی زینت ہمیں معاف کر دینا ہم انسانیت کی بنیاد پر روایت ڈالنا بھول گئے ہیں۔ گو کہ ہم تمہاری معافی کے قابل نہیں ہیں۔
؎ یہ اور بات ہے چشم نہ ہو معنی آشنا
عبرت کا درس تھی، تحریر جو بھی تھی