یہ بھاگ بھری ناول ہے کہ آگہی کا نوحہ ہے
تبصرۂِ کتاب از، علی اکبر ناطق
سید صفدر زیدی ناول نگار ہے۔ ہمارا دُور کا دوست ہے۔ یعنی اُدھر ولایت کسی بلاد میں بستا ہے۔ گھونگھے اور کیکڑے کھاتا ہے۔ سبزیاں بھی پکا پکا کر دکھاتا ہے اور ہمیں ناول پڑھاتا ہے۔ مَیں یہ ناول پڑھ چکا ہوں۔ اور قدم قدم پر دہشت گردوں، اُن کے بنانے والوں، خون میں لت پت ہونے والوں اور زندگی کو شرمانے والوں کو اِس ناول میں ایسے دیکھ چکا ہوں کہ دل کی آنکھیں روتی ہیں۔
مرنے والوں کی مائیں اور اُن کے لُٹ جانے والے بچے اِس ناول کا وہ منظر ہیں کہ تماشا اُن کا کرنے سے دل پھٹ کے رہ جاتا ہے۔ زیدی صاحب نے ناول میں ریاستی اور ملٹری کشمکش اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ایک طویل اور گہری خلیج، جو رویوں سے لے کر ذہنوں تک میں اُتر ہو چکی ہے، ایسے فطری سلیقے سے دکھائی ہے کہ ایک آرٹسٹ اِس سے زیادہ نہیں دکھا سکتا۔
بیانیہ انتہائی دل چسپ ہے۔ رواں ہے اور صاف ہے۔ افغانستان اور برصغیر، مُلا اور ملٹری کے درمیان ایسا سینڈوچ نظر آتا ہے جس کے اندر صرف اور صرف بارود کی غذا رکھی گئی ہے اور وہ دونوں طرف کی عوام کو مجبوراً کھانا پڑتی ہے۔
مجھے صفدر زیدی صاحب سے زیادہ ملاقاتوں کا ربط نہیں۔ نہ مَیں نے کبھی اُن کے کیکٹرے اور جھینگے اور گھونگھے کھائے ہیں۔ بس یہ ناول پڑھا ہے اورپڑھ کر ایسی بے بسی کی حالت میں بیٹھا ہوں جس میں اب گھونگھے تو ایک طرف کوئی نفیس شے کھانے کو بھی جی نہیں کر رہا۔ میرا تربوز بھی دو دن سے فریج میں پڑا رہا ہے، آج صبح زاہد کاظمی کے ساتھ مل کے تھوڑا زہر مار کیا ہے۔
میاں زیدی صاحب، بھلے لاکھوں ماؤں کی گودیاں اُجڑ جائیں، سینکڑوں گھر ویران ہو جائیں، ہزاروں لہو کی نہریں بہہ جائیں، مگر آپ کے جرنیلوں کے پالے ہوئے مُلا، خالد خراسانی اور معاویہ یہی کچھ کرتے رہیں گے۔ میرے بھائی آپ نے ناول نہیں لکھا، آگہی کا نوحہ لکھا ہے۔ میری آپ کو مبارک، مگر دیکھیو پاکستان اب نہ آئیو، اگر آئیو تو دیکھ بھال کے، کہ مار بہت پڑتی ہے ایسی بے باکیاں دکھانے پر۔
یہ ناول عکس پبلی کیشن سے شائع ہوا ہے۔ قیمت اِس کی 1000 روپیہ رکھی ہے۔ صفحات اِس کے 416 ہیں، آدھے روپے بنتے ہیں 500 سو۔ اب لے ہی لو۔