بھگت سنگھ کی یاد میں
از، خضرحیات
آج 23 مارچ کا دن ہے اور اسے ہم 1940ء میں مسلم لیگ کی جانب سے پاکستان کے مطالبے پر مبنی قرارداد کی منظوری کے باعث یاد کرتے ہیں اور حکومتِ پاکستان عام تعطیل کا اعلان بھی اسی وجہ سے کرتی ہے کہ ہم تحریکِ آزادی کے اس اہم موڑ سے واقف رہ سکیں۔
ٹھیک ہے ہمیں سمجھ آ گئی۔ مگر 1940ء سے 9 سال قبل اس دن ایک اور تاریخی واقعہ بھی پیش آیا تھا جب لائلپور کے گبھرو جوان بھگت سنگھ کو آج ہی کے دن شادمان چوک میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ پھر ہم ہمیشہ آدھی ادھوری تاریخ کو ہی کیوں یاد رکھتے ہیں؟ تاریخ سے ہم ‘کڑوا کڑوا تھوہ تھوہ’ کیوں کھیلتے رہتے ہیں؟ کیا آدھا سچ چھپانے اور آدھا بتانے سے پورا سچ اپنا وجود کھو سکتا ہے؟
کبھی بھی نہیں۔ تاریخ کا سچ ہمیشہ ہمارے اردگرد منڈلاتا رہتا ہے۔ اس سے چشم پوشی تو کی جا سکتی ہے مگر اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ واقعات اور شخصیات ایسی بھی گزری ہیں جنہوں نے تاریخ کے گھوڑے کو اپنے زورِ بازو سے موڑ دیا اور ایسے لوگ اور واقعات ہمیشہ کے لیے یادگار بن کے ہمارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور یہی وہ شخصیات ہیں جن کی عظمت کے قصے ہم اپنے بعد آنے والے لوگوں کو سنانے کا قرض اپنے سروں پر اٹھا کے پھرتے ہیں۔ یہ واقعات تاریخی امانت ہیں جنہیں یہاں بسنے والے ہر شخص تک پہنچانا زندہ لوگوں کا فرض ہوتا ہے۔
بھگت سنگھ وہ آدمی تھا جس نے انگریز کے خلاف پہلی بھرپور اور منظم تحریک چلائی اور آزادی کے اصل معنی پہلے خود سمجھے اور پھر ان کا پرچار کیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب برصغیر پاک و ہند میں اس کی مقبولیت قائداعظم اور گاندھی سے بھی بڑھ چکی تھی۔ پنجاب میں ہر طرف بھگت سنگھ کی تصویریں فروخت ہو رہی تھیں اور نوجوان اسے رول ماڈل بنا کر ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں دوڑ دوڑ کر شامل ہو رہے تھے۔ اس دھرتی کے کسانوں کو پہلی بار آواز ملی تھی اور وہ اس آواز کے دیوانے ہو چکے تھے۔ شاید اس کی یہی مقبولیت مسلم لیگ اور کانگریس کے رہنماؤں کے لیے دردِ سر بنی اور بعد میں وہ ہوا جسے ہم کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔
بھگت سنگھ کو ہم اس سرزمین کا ایسا جانباز سپُوت کہتے ہیں جس نے ذاتی ترغیبات کو دفن کرکے ملک کے لیے اپنی جان قربان کردی۔ جس نے مبہم سیاستوں اور سازشوں کے دور میں انگریز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اور اسے للکار کے کہا کہ برصغیر چھوڑ دو اور واپس چلے جاؤ۔ یہ جگہ ہماری ہے اور یہ یہیں کے باسیوں کے ہاتھ میں اچھی لگتی ہے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کے شعلوں کو سب سے پہلے, مسلم لیگ اور کانگرس سے بھی پہلے برطانوی پارلیمنٹ تک پہنچانے والا نوجوان کوئی اور نہیں ہمارا بھگت سنگھ ہی تھا۔ ذرا سوچیں تو سہی کہ محض بائیس تیئیس سال کے جسم میں ایسی روح اور ایسا جذبہ پیدا ہو جانا کوئی معمولی واقعہ ہے جس نے انگریز کو بھی خائف کر دیا؟
ہمیں آج 23 مارچ 1940ء کا دن یوم پاکستان کے طور پر مناتے ہوئے بھگت سنگھ کو ہرگز نہیں بھولنا چاہئیے جس نے اپنی جدوجہد سے تحریکِ آزادی کو ایک واضح شکل دی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں جیسے برصغیر نے آزادی حاصل کی وہ بھگت سنگھ کا ویژن ہرگز نہیں تھا۔ اس کی آزادی کسی اور ہی چڑیا کا نام تھا جو بعد کے طوفانوں میں کہیں سہم کے بیٹھ گئی۔ وہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ انگریزوں کے بعد اس دھرتی کے کسانوں کی قسمت یہاں کے سرمایہ داروں اور زمینداروں کے ہاتھ میں آ جائے۔ وہ صرف حاکموں کے تبدیل ہو جانے کو آزادی نہیں سمجھتا تھا۔ اس کی آزادی برابری سے شروع ہوتی تھی کہ سماج کو پہلے اس طرح ترتیب دیا جائے کہ یہاں ہر قسم کا استحصال ختم ہو جائے اور پھر عام لوگوں میں سے چند افراد کو چُن کر عوامی نمائندے بنائیں جائیں۔
لیکن ایسا بعد میں نہیں ہو سکا مگر اتنا ضرور ہے کہ یہاں بسنے والے عوام کے دلوں میں آزادی کی جو شوخ و چنچل اُمنگ بھگت سنگھ نے ڈالی تھی وہ بعد کے سبھی نمونوں (مسلم لیگ اور کانگرس کے پیش کردہ آزادی کے نمونوں) سے زیادہ قابلِ قدر, زیادہ قابلِ عمل اور زیادہ زمینی تھی۔ بھگت سنگھ کے پیش کردہ آزادی کے نظریے کی جڑیں کہیں زیادہ مضبوط تھیں۔
اوپر کی گئی بحث کا ماحصل یہ ہے کہ آج ہم یومِ پاکستان بھی منائیں گے اور شہید بھگت سنگھ کی عظیم الشان خدمات کو بھی خراجِ تحسین پیش کریں گے۔
پاکستان زندہ باد!
بھگت سنگھ پائندہ باد!