بھارت کا سچا سودا
نصیر احمد
بھارت کا سچا سودا؟ بلاتکار لیکن دولاکھ بلاتکار کے حامی؟ پورے علاقے میں ہر قسم کے سچے سودے کی نوعیت بھی یہی ہے اور حمایت بھی اسی طرح کی ہے، اسی وجہ سے انسانوں سے عقیدتوں سے ہم منع کرتے رہتے ہیں، مرے ہوئے لوگوں کو پوچنا ہے تو پوجیں، کم از کم زندہ لوگوں کو تو اپنے جیسا ہی انسان جانیں۔
نہ کسی کو پوجیں ، نہ کسی سے پوجوائیں، ریپ اور قتل کے واقعات میں کمی آ جائے گی۔ ورنہ یہ درندگی دیو وواہ (بیاہ) ہی سمجھی جاتی رہے گی۔
اور جو واقعی سچا سودا ہے، اس کی حمایت ہم دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن مظلوموں کی ایک بے پناہ اکثریت بھی تو جب فیصلے کا وقت آتا ہے تو کسی سادھو، سنت، کسی گرو، یا کسی سور ویر کے ساتھ ہی کھڑی ہوتی ہے۔
یہ جو دو لاکھ میلوں فاصلے طے کر کے ریپ کی حمایت کرنے آ دھمکے ہیں اور جانیں دے رہے ہیں، بھارت انھیں کیسے شہری بنائے گا؟ بھارت میں بھی چلتی تو مکھیا کی ہی ہے، چٹاخ پٹاخ فلمی ڈائیلاگ جو سب سے مہان بھارت دکھاتے رہتے ہیں، جن میں امیت جی ودھوا کے بیاہ کرواتے رہتے ہیں، وہ تو بات ہی ہے، حکم تو فاشسٹ کا ہی چلتا ہے۔
سمرتیاں پڑھیں، ساری بات پلے پڑجاتی ہے کہ انسان کے بارے میں ایک شدید حقارت پائی جاتی ہے جسے عبادت سمجھا جاتا ہے، وہ حقارت تو ستم افزا ہی ہوتی ہے، چاہے بھیرویں الاپیں یا درباری گائیں۔ یہ ستم افزا حقارت چھپائے نہیں چھپتی۔
اور اس ستم افزا حقارت کا علاج جمہوری اخلاقیات اور قوانین سے وابستگی ہے جس میں بھارت بری طرح ناکام ہے۔ ایک سال میں بھارت میں بیس ہزار سے زیادہ ریپ کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ان واقعات کی رپورٹ بھی ستم افزا حقارت کا باعث بن جاتی ہے۔
اس لیے زیادہ ان کہی رہتی ہے اور کبیرا باجار میں کھڑا سب کی کھیر مانگتا رہتا ہے اس نہ کسی سے دوستی ہے نہ بیر، اور جب کبھی احتجاج کرنے نکلتا ہے، تو گلے کاٹنے لگتا ہے۔ پھر وہی سوال بھارت کبیرے کو کب اور کیسے شہری بنا پائے گا؟
326 اے کے تحت چہرے پر تیزاب گرانا جرم ہے۔ یہ قوانین میں نئی ترامیم کا نتیجہ ہے۔ پہلے تو ریکارڈ ہی نہیں رکھا جاتا تھا لیکن جب سے رکھا جاتا ہے تو واقعات کی تعداد ایک برس میں 802 تک بتائی جاتی ہے۔
یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا میں اڑتالیس فیصد شادیوں میں مرضی کا عمل دخل نہیں ہے۔ جہیز کے جھگڑوں کے نتیجے میں 2012 میں آٹھ ہزار سے زیادہ خواتین مار دی گئیں۔ لیکن جنوبی ایشیا کے اعداد و شمار میں یہ بات ذہن میں رکھنی کہ زیادہ تر جرائم پریواری گھمنڈ کی وجہ سے یا ڈر کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔
لیکن انڈین پینل کوڈ میں قتل برائے جہیز جیسے جرائم کی سزا بھی موجود ہے۔ اغوا کے ستم زدوں کی تعداد چالیس ہزار کے قریب 2012 میں ریکارڈ کی گئی۔ اور اغوا کے بارے میں بھی انڈین پینل کوڈ میں سزائیں درج ہیں۔ زیادہ تر قانون سازی انگریزوں کے زمانے کی ہے، جو ان سب جرائم کو جرائم سمجھتے تھے، بھارتیوں نے بڑا احسان کیا ہے کہ ان قوانین کو قائم رکھا ہے لیکن ان میں ترامیم کی بہت ضرورت ہے کہ یہ ان میں سے اکثر قوانین پرانے ہو چکے ہیں اور ان جرائم کے بارے میں دنیا میں بہتر تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔
لیکن بھارت میں خواتین کے لیے ثقافت میں ستم افزا حقارت قائم دائم ہے۔ اور ثقافت مذہب کے نام پر ریپ کو دیو وواہ کہتی ہے، یعنی کسی بھی مشٹندے گرو کو ثقافت میں ریپ کا ادھیکار حاصل ہے اور اس ادھیکار کے خلاف انسانی حقوق پر مبنی قوانین کچھ کر نہیں سکتے کہ سوامی، ست سنگ، یا سچا سودا سنگ کھلے عام بھرشٹا چار کرنے لگیں گے۔ اور لڑکی کو اغوا کرنے کو ثقافت راکھشس وواہ کہتی ہے اور دولت لے کر کنہیا کو باہنے کو آسور وواہ کہتے ہیں۔ اور دیو، راکھشس اور آسور انسانوں کی دسترس سے دور ہیں۔
انسانوں کے بنائے ہوئے اچھے قوانین ان کریہہ رواجوں کے سامنے لاچار ہیں، لیکن اس قسم کی گھناونی ثقافت کے ساتھ انسان صرف نئی چیزوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں، لیکن اس ثقافت کے ساتھ کبیرا شہری نہیں بن سکتا۔
مودی جیسے فاشسٹ اسی ثقافت کے پروردہ ہیں، اس لیے وہ کبیرے کو کبھی شہری نہیں بننے دیں گے، لیکن جب تک بھارتی شہری نہیں بنیں گے، بھارت تو کبھی بھی مہان نہیں ہو گا۔ اور پرش پراکرتی کو اجاڑتا رہے گا لیکن یہ قسمت نہیں، یہ فیصلہ ہے۔