بھوت بنگلے کی مالکن : چند آنسو روحی بانو کے لیے
از، محمد عاطف علیم
(زیر نظر کالم روزنامہ اوصاف، اسلام آباد میں اکیس سال پہلے شائع ہوا تھا۔ تب روحی بانو کا اکلوتا بیٹا ابھی زندہ تھا اور وہ خود بھی ابھی حافظوں سے محو نہیں ہوئی تھی۔ آج وہ عظیم فن کارہ ہم میں نہیں رہی مگر وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔)
سنا ہے گئے زمانوں میں جن بھوت دور افتادہ، تنہا اور بے آباد مکانوں کو آباد رکھتے تھے۔ مگر ہمارے زمانے کے بھوتوں کو بھلائے گئے فن کاروں اور قلم کاروں کی ہم نشینی زیادہ پسند ہے۔ وہ ویرانوں کا رخ کرنے کی بجائے لائم لائٹ کی چکا چوند سے بے دخل کر دیے گئے لوگوں کے گھروں کی رونق دو بالا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ گُلبرگ لاہور کا وہ گھر بھی جو کبھی قسم قسم کے لوگوں اور طرح طرح کی محفلوں کی گرمی سے دھڑکتا تھا اب بھوتوں کا نائٹ کلب بن چکا ہے۔
لاہور کے پوش سمجھے جانے والے علاقے کے اس گھر کے در و دیوار وقت کی بے رحم مار کی زَد میں ہیں۔ گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی ایک چھوٹا سا لان آتا ہے جہاں اگے جھاڑ جھنکار میں چند بے وقوف بطخیں بھاگی دوڑی پھرتی ہیں۔
ان بے چاریوں کا سکھ چین غذائی کمی کے شکار ایک کتے نے حرام کر رکھا ہے۔
اس نیم تاریک، تنہا اور افسردہ گھر کے مکین کہیں نہیں جاتے، نہ مدت سے کسی کو وہاں آتے دیکھا گیا ہے۔ کچھ ایسے ہم درد لوگ ضرور ہیں جو وہاں آنا چاہتے ہیں اور اس گھر کی رونقوں کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن اس بھوت بنگلے کی مالکن کی دہشت ایسی ہے کہ کوئی وہاں کا رخ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی گیٹ سے اندر جھانکنے کی جرات کر بیٹھے تو جانے کیا ہو جائے۔
زیادہ امکان یہ کہ وہ اسے پہچاننے سے انکاری ہو جائے اور اگر دماغ پر بہت زور ڈالنے پر اسے پہچان بھی لے تو نہ جانے کیا رد عمل ظاہر کرے۔ ممکن ہے کہ وہ یک سر مصنوعی تپاک کے ساتھ اسے اندر آنے کا کہہ دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اسے دیکھتے ہی چیخ چیخ کر سارا محلہ اکٹھا کر لے۔
ایسی ایسی ذات کی گالیاں بَکے کہ خدا کی پناہ اور یہ تو خیر بہت ہی ممکن ہے کہ وہ مداخلت بے جا کے جرم میں اپنے زبر دستی کے ملاقاتی کو کوئی ہاتھ آئی چیز کھینچ مارے۔
وہ وحشی عورت کہ جو کبھی لائم لائٹ میں جگمگایا کرتی تھی اپنے انیس سالہ نشئی بیٹے، اَزلی تنہائی اور ابدی وحشتوں کی دوسراتھ میں رہا کرتی ہے۔
عجیب من موجی عورت ہے وہ، زیادہ وقت اپنے پریشان خیالوں میں الجھی ناخن چباتی یا خلاؤں میں گھورتی رہتی ہے۔ لیکن کچھ کرنے کو دل چاہے تو کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے۔
مزید دیکھیے: دھرتی واس، یا مقامی باشندے کا نوحہ
اپنے آوارہ اور مست بیٹے کے بال نوچنے سے لے کر اپنے پالتو آسیب زدہ کتے کے ساتھ بد سلوکی تک وہ سب کچھ کر سکتی ہے۔ کچھ کر گذرنے کے جنون میں اگر گھر کی صفائی کرنے کو دل چاہے تو وہ گھر کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیتی ہے اور جی چاہے تو پھٹی شلوار اور اجاڑ حال بیٹے کے ساتھ ہاتھ میں برش اور پینٹ کا ڈبہ اٹھائے باہر نکل آئے اور گیٹ کو رنگنا شروع کر دے اور رنگ بھی وحشیانہ منتخب کرے، ایسے جو اس کے دماغ کی وحشتوں کا چیخ چیخ کر اعلان کرتے ہوں۔
اس کی طبیعت شاعری پر بھی اکثر مچل جاتی ہے۔ تب وہ خیال کی وحشت میں اٹھتی ہے اور پورے جوش سے دیواروں پر بڑے بڑے الفاظ میں شعر لکھنا شروع کر دیتی ہے۔ گھر کی شاید ہی کوئی دیوار بچی ہو جو اردو کی الم ناک اور بے وزن شاعری کی زَد سے محفوظ رہی ہو۔
اپنے ناخنوں کو چباتی ہوئی گہری، مگر بے ربط سوچوں میں کھوئی ہوئی، وہ عورت زندہ ہے۔ کیوں کہ وہ سانس لے رہی ہے مگر اسے مرے ہوئے بہت مدت بیت چکی ہے۔ اس کی زندہ مَیّت پر جَلی حروف میں اس کانام لکھا ہے:
روحی بانو ایک فن کارہ جو اپنے فن کی آگ میں بھسم ہو گئی۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کب مری اور کیسے مری، ایک بار مری یا بار بار زندہ ہوتی رہی اور مرتی رہی۔ کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کب کب اور کس کس کے ہاتھوں مرتی رہی۔ اس بات کا تعین بھی مشکل ہے کہ اپنی ہلاکت میں خود اس کا اپنا کتنا حصہ ہے۔
لیکن یہ طے ہے کہ مرنے والی اب کبھی زندہ نہ ہو گی اور وہ جو اس کے فن کے شیدائی تھے، اب اسے دو بارہ کبھی لائم لائٹ میں جگمگاتا نہیں دیکھ پائیں گے۔ مانا کہ وہ جسمانی طور پر زندہ ہے لیکن یہ بھی تسلیم کہ اس کا فن ہمیں ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے چکا ہے۔
وحی بانو کی ذہنی موت کی کم از کم دو وجوہات تو بڑی نمایاں اور فن کاروں کے حوالے سے عمومی نوعیت کی ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ وہ کم زور قوت حیات کے ساتھ زندہ تھی۔ ایسے لوگوں کو زندگی کی کشا کش کا حصہ بننے کی بجائے چھپ جانا اور مر جانا زیادہ آسان لگتا ہے۔
جن لوگوں میں سیلف ڈیسٹرکشن کا جذبہ زیادہ توانا ہوتا ہے ان کی ساری عمر زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہنے میں ہی خرچ ہو جاتی ہے۔ وہ خود کو اور دوسروں کو اپنے زندہ ہونے کا یقین دلانے کے لیے اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ اپنے وجود کا اظہار اور اپنے ہونے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ وہ اکثر دوسروں پر اپنی بر تری ثابت کرنے میں کام یاب بھی رہتے ہیں لیکن اندر سے ڈرے ڈرے اور مرے مرے سے رہتے ہیں۔
وان گاف، سلویا پلاتھ اور روحی بانو جیسے بہ ظاہر ہائپر ایکٹو دکھائی دینے والے لوگ پتا کھڑکنے کی آواز پر بھی ڈر جاتے ہیں لیکن تمام تر تخلیقی قوتوں اور تمام تر توانائیوں کے با وجود ان کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا مرتیو ناگ انہیں ڈستا رہتا ہے اور ان کے لا شعور پر قابض قوت فنا ان کے لیے زلزلے تخلیق کرتی رہتی ہے۔
انہیں زندگی اپنی اوکھلی میں یوں پیستی ہے کہ وہ اپنے دماغ میں گونجتے دھماکوں کے ڈر سے ذرہ ذرہ بکھرتے رہتے ہیں اور مرتے رہتے ہیں یا روحی بانو کی طرح اپنی آخری موت کے انتظار میں کسی بھوت بنگلے میں قید ہو کر رہ جاتے ہیں۔
روحی بانو کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ وہ سپر آرٹسٹ تھی مگر ایسے معاشرے میں زندہ تھی جہاں فن، علم، ادب اور تخلیقی اندازِ فکر کی سرے سے ضرورت ہے نہ گنجائش۔ تماش بینوں پر مشتمل یہ ولگر معاشرہ طوائفوں اور کنجروں پر تو جی جان سے صدقے واری ہوتا ہے مگر خالص فن کے لیے اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ فن کار اگر فن کے ذریعے زندگی کے راز کھوجنا چھوڑ کر ’کنجریت‘ کو اپنا لے تو قبول ورنہ بھوت بنگلے کی قید تو کہیں نہیں گئی۔
ہمارا معاشرہ تاریخی طور پر ’طوائف زدہ‘ ہے جو طوائفوں کو مجروں اور ایوارڈوں کے ذریعے سونے کے پانی میں نہلا سکتا ہے مگر روحی بانو کو روتی دیکھ سکتا ہے نہ اس کے بیٹے کو منشیات کی تاریکیوں میں ڈوبنے سے بچا سکتا ہے۔
رہی ہماری وزارت ثقافت سو اس سے کوئی شکوہ بے سود ہے کیوں کہ اس کی ثقافت کسی ریما کے کُنجِ لب سے طلوع ہو کر کسی نِرما یا میرا کی آنکھوں میں ڈوب جاتی ہے۔ وزارت ثقافت کی سرخ پوشش والی کرسیوں پر بیٹھے کنجر زادوں کو فن سے کوئی سر و کار ہے نہ فن کار سے۔
ہم روحی بانو کی آنکھوں میں روشنی نہیں بھر سکتے نہ ان آنکھوں کو اپنے گرد پھیلتے سیاہ حلقوں کی قید سے آزاد کر سکتے ہیں۔ ہم ایسا بہت کچھ نہیں کر سکتے جو در اصل ہم کرنا ہی نہیں چاہتے لیکن ایک عظیم فن کارہ کے غم میں ہائے وائے کرتے ہم متبرک احمق اگر اسے پیٹ اور دماغ کے دوزخ میں جلنے سے نہیں بچا سکتے تو کم از کم ہم اس سے اپنی عقیدت کا منافقانہ اظہار تو کر سکتے ہیں۔
سو اے ہماری پیاری روحی بانو! ہم جو تمہارے عقیدت گذار ہیں تمہیں روٹی نہیں دے سکتے، عزت نہیں دے سکتے اور تمہیں بھوت بنگلے کی قید سے رہائی نہیں دلا سکتے۔ ہماری آنکھوں میں تمہارے لیے چند آنسو ہیں جو ہم تمہاری نذر کرنا چاہتے ہیں۔
کیا فرق پڑتا ہے تمہارے لیے روٹی نہ سہی، چند آنسو ہی سہی۔