تعصباتی و میلانی قرات اور آزادانہ تعبیر
از، ضیغم رضا
ہم دیہاتیوں کا بھی عجیب مزاج ہے کہ اول تو ہم کسی نئی لہر کو قبول نہیں کرتے مگر جب اس کی سنسناہٹ ہمارے وجود کا حصہ بن جاتی ہے تو اس کو یوں قبولتے ہیں جیسے اول دن سے ہمارے جینے کا قرینہ ہی یہی تھا۔ یہ رویہ کس حد تک ہماری اجتماعی نفسیات کا خاصہ ہے فی الوقت اس سے تو بحث نہیں مگر اپنی کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ سو اپنا قصہ یوں ہے کہ گزشتہ دنوں درسی ضرورت کے لیے فوکو کے نظریات سے آشنائی حاصل کرنا چاہی تو روایتی طالب علمانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے گوپی چند نارنگ کی کتاب سے استعفادہ کیا۔
چونکہ نارنگ صاحب کی یہ کتاب ثانوی ماخذ کا درجہ رکھتی ہے سو فوکو سے سرسری سا ہی تعارف ہوا۔ پلے بس اتنا ہی پڑا کہ فوکو کے نزدیک کسی بھی متن کی تشکیل میں طاقت کی کارفرمائی بہت زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کو مفصل کس طرح بیان کریں اور فوکو کے نظریے کی یہ تفہیم کس حد تک درست ہے یہ تو ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر ان چند صفحات نے ایک کنکر ضرور پھینکا۔ اس ارتعاش کے سبب لاتعداد سوال ذہن کو گھمر گھیری بنائے ہوئے ہیں کہ لہریں ہیں؛ پرسکون ہونے میں نہیں آتیں۔
سب سے پہلے میرا اس سوال سے پالا پڑا کہ ایک وہ جو روح ء عصر نام کی چیز ہے وہ کسی بھی تخلیق پہ کس حد تک اثر انداز ہو کر اس کے معائب و محاسن میں اضافہ کرتی ہے؟ ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلاں شاعر کی شاعری روح ء عصر سے عاری ہے؛ فلاں ناول کا موضوع اپنے عہد کے سیاسی وسماجی حالات ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا روح عصر اچھی یا بری چیز ہے یا اس سے بھی آگے کا سوال کہ کیا روح عصر کسی فن پارے کا جزو بن کر اسے زندہ رکھنے میں کس حد تک معاون ہوتی ہے؟
ذرا ایک منٹ رکیے اور نگاہ دوڑائیے اردو دنیا میں ہونے والے نت نئے کتاب میلے، کانفرنسز، کتاب کی رونمائی و پذیرائی اور ان میں پڑھے گئے توصیفی و تحسینی مقالات کیا وہ کسی بھی تخلیق کی متوازن یا حقیقی قدروقیمت جاننے میں معاون ہوتے ہیں؟ کیا کتابوں پہ لکھے گئے فلیپ و دیپاچہ جات وہ بیساکھیاں نہیں ہیں؟ جس کے بغیر کوئی بھی تخلیق کار اپنی کتاب کو بانجھ محسوس کرتا ہے۔ اس سے بھی آگے چلیے تو معاصرانہ (ادبی، سیاسی، سماجی، مذہبی) میلانات و تعصبات کیا کسی فن پارے کی قرات کے دوران قاری اور متن کے درمیان دیوار حائل نہیں کرتے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ آگ کا دریا پہ اٹھنے والا ہنگامہ مصنفہ کو دیس بدری پہ مجبور کردیتا ہے جبکہ اداس نسلوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ غالب کو اس کے معاصرین قبولنے میں کیوں تامل برتتے ہیں اور گرگ شب کی چھپائی پہ کیوں پابندی لگ جاتی ہے؟ بصد معذرت مجھے یہاں ایک قطعی فیصلہ سنانے دیجیے کہ بہرحال درج بالا مثالوں کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن نے ایک مفروضے کی تشکیل کی ہے جسے آپ کے سامنے رکھے بغیر میرا مدعا واضح نہیں ہوپائے گا۔
سو گزارش یہ ہے کہ کسی بھی تخلیق کی حتمی قدروقیمت کا تعین اس کے عہد میں ممکن ہی نہیں۔ شاید یاروں دوستوں کے تبصروں پہ اپنی کتاب کا قد بڑھانے والے مصنفین کو میری یہ بات ناگوار گزرے مگر حقیقت یہی ہے کہ اپنے عہد سے اپنی تخلیق کی تحسین خود اس کی حقیقی قدر کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے۔ ہوتا دراصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی فن پارہ منظر عام پہ آتا ہے تو بجائے اس کے؛ ہم اس سے کچھ اخذ کریں؛ ہم اپنے میلانات و تعصبات کا موازنہ متن سے کرتے ہیں اور یوں یکطرفہ مکالمے کے نتائج؛ تردید و تائید کو صورت منظر عام پہ لے آتے ہیں۔
ظاہرسی بات ہے ہر شخص کے میلانات وتعصبات؛ وابستگی و ترجیحات جن مفروضوں کی تشکیل کرتے ہیں اس کی تائید کے لیے وہ کسی بھی متن سے رجوع کرتا ہے۔ مطلوبہ نتائج ملنے یا نہ ملنے کی صورت میں مسرت یا مایوسی/دکھ کی صورت میں ردعمل سامنے آتا ہے یوں بغور دیکھا جائے تو پوری تنقید خوشی یا دکھ (جو غصے یا فن پارے کو مسترد کرنے کی صورت سامنے آتا ہے) ہی تو ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ عہد کا تعین کیسے ہو اور ضمنی سا سوال یہ کہ اگر اس عہد کے اختتام تک مصنف کی زندگی میں اس کو اس کا اصل مقام نہ مل سکے تو اس کا ازالہ کیسے ہو؟ اس کا تعلق اول تو ہمارے جیسے پسماندہ معاشروں میں ہے جہاں ادیب کے لیے ادب وسیلہ ء روزگار بنانے کا جتن کیا جاتا ہے دوسرا جو قدرے عمومی ہے وہ یہ کہ مصنف کے لکھے کا ردو قبول اس کی زندگی میں اس کے سامنے آنا چاہیے۔ سو معاملہ یوں ہے کہ ادب کا معاش یا کسی تحسینی سرگرمی سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ اگر طبقاتی کشمکش کو کوئی ادیب موضوع بناتا ہے یا کسی سیاسی و سماجی جبر کو ہدف ملامت گردانتا ہے تو اس کی حیثیت اس شاہد کی ہے جس نے کوئی واقعہ دیکھا اور اس کی گواہی دی۔ وہ اگر خاموش رہتا ہے تو مورخ گواہی دے دے گا؛ فرق صرف قابل اعتبار ہونے کا اور گواہی کی اثر پذیری کا ہے۔
سو یہاں گواہی کی بات آگئی تو یہ بھی واضح ہوجائے؛کوئی بھی تخلیق کار ایک رپورٹر؛ روداد نویس یا گواہ ہوتا ہے۔
جب تک وہ رو، واقعات کا سلسلہ، زندگی کا قرینہ، عوامی چلن جوں کا توں رہے گا ادیب کے لکھے کی حیثیت ایک روداد یا رپورٹنگ سے زیادہ نہیں ہوگی ہاں جب وہ عہد اختتام پذیر ہوگا تو اس کی حیثیت تاریخ کی ہوگی۔ اب درحقیقت وہ وقت آتا ہے جب کسی بھی تخلیق اور قاری کے درمیان دو طرفہ بامعنی مکالمہ ہوتا ہے۔ اب قاری کی حیثیت اس ناظر کی سی ہے جو ہجوم کو دیکھ تو رہا ہے مگر اس کا حصہ نہیں۔ اس کا جب متن سے مکالمہ ہوتا ہے تو متنی عہد کے تعصبات و میلانات سے آزاد ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب گزرے عہد کے قاری کے تعصبات و میلانات اگلے عہد کے قاری پہ کھلتے ہیں اور یوں ایک متوازن تعبیر و تشریح ہونے کا عمل بھی شروع ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر تقسیم ہند پہ لکھا گیا فکشن پاکستان اور ہندوستان کے خانوں میں بٹا ہے۔ دونوں طرف سے اولین مطالبہ یہی سامنے آیا کہ کون سی تخلیق ہے جو ان کے زخموں پہ مرہم کا کام دے سکتا ہے۔ سو دو طرفہ خود ترسی نے ایک ایسے فکشن کو جنم دیا جسے تقسیم کے مرحلے سے گزرے افراد نے لہک لہک کے پڑھا اور داد کے ڈونگرے برسائے۔
جب وہ عہد تمام ہوا اور وہ نسل جسے ہجرت یا فسادات کا عملی تجربہ نہیں تھا اس نے جذباتیت، مبالغہ اور حقیقت کو تلاشنے میں دیر نہ کی سو اب بہت سا فکشن ہے جسے بحیثیت ایک فن پارہ قبولنے میں تامل ہوتا ہے۔ یہی حال نسائی شعور کے حامل ان فن پاروں کا بھی ہے کہ جس میں عورت کی نفسیات یا عورت سے جڑے عوامل کو بیان کیا جاتا ہے۔
ایک وہ طبقہ ہے جو عورت کو ویسا دیکھنا چاہتا ہے جیسا کہ اس سماج میں عورت کی حیثیت ہے جبکہ دوسرا وہ جو عورت کے بارے میں ایک مثالی تصور رکھتا ہے۔ یوں یہ کہنا آسان ہے کہ جب تک عورت مکمل طور پر ایک ‘اجنبی’ حیثیت سے آزاد نہیں ہو سکتی؛ عورت کو موضوع بناتا کوئی بھی متن تعصبات و میلانات سے آزاد نہیں ہوسکتا۔ گویا عصریت کو ہم نہ مصنف کی زندگی تک محدود کرسکتے ہیں نہ ہی کسی خاص عہد تک یہ چند سال کا زمانہ بھی ہو سکتا ہے اور صدیوں کا احاطہ بھی کر سکتا ہے۔
انسانی رویوں، اہم واقعات، فیشن، مخصوص سیاسی و سماجی حالات غرض عصریت کو کسی ایک پیمانے سے ماپنا محال ہے۔ مختصر یہ کہ کسی بھی تخلیق کو کسی کمپنی کی طرف سے دی گئی محدود مدتی آفر کی طرح سمجھ لوٹ سیل لگانے کی بجائے اسے آزادانہ چھوڑ دینے سے متن کی آزاد قرآت ممکن ہے بصورت دیگر اگر تخلیق میں دم نہ ہوا تو مستقبل کا قاری آزادانہ قرات سے اسے ملبے کا حصہ بنانے میں دیر نہیں لگائے گا۔