بلیک ہول میں گرتی چیزوں کی رفتار
ترجمہ و تلخیص، احسن اقبال
بلیک ہول اس جسم کو کہتے ہیں جس کی کششِ ثقل اس قدر زیادہ ہو کہ اس کی اسکیپ ولاسٹی (یعنی کسی پارٹیکل کی وہ کم سے کم ولاسٹی جس کی وجہ سے وہ کشش کے مدار سے باہر نکل جائے) روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہو۔ ایسے جسم سے روشنی بھی خارج نہیں ہو سکتی۔ بلیک ہول کا ایونٹ ہورائزن (event horizon) اس حد کو کہتے ہیں جس کے اندر سے کوئی انفارمیشن اصولاً بھی اس حد سے باہر نہیں آ سکتی۔ گویا اس event horizon کے اندر جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے بارے میں ہم کوئی مشاہدہ نہیں کر سکتے۔
بلیک ہول کے بارے میں اور بلیک ہول میں گرتی چیزوں کے بارے میں ہم جو کچھ جانتے ہیں وہ نظریہ اضافت (special theory of relativity) کی وجہ سے جانتے ہیں۔ بلیک ہول کی پیش گوئی نظریہ اضافت کی مساوات کی مدد سے کی جاتی ہے۔ بلیک ہول میں گرتی چیزوں کا مشاہدہ کیسا ہو گا اس کی پیش گوئی بھی نظریہ اضافت سے ہی کیا جاتا ہے۔ نظریہ اضافت کی مساوات سے بنے ماڈلز کو کمپیوٹرز کے ذریعے سِیمُولیٹ simulate کر کے بھی بلیک ہول میں گرتی چیزوں کے ماڈلز کی کار کردگی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم بلیک ہول کا خود سے مشاہدہ فی الحال نا ممکن ہے۔
نظریہ اضافت ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ اگر کوئی شے آپ کے نکتہ نظر سے حرکت کر رہی ہے تو اس شے کے کیا مشاہدات ممکن ہیں۔ گویا نظریہ اضافیت صرف مشاہدات سے متعلق ہے اس شے کی حقیقت سے نظریہ اضافیت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثال کے طور پر نظریہ اضافیت یہ نہیں کہتا کہ تیزی سے حرکت کرتی اشیا کی لمبائی کم ہو جاتی ہے بل کہ یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی شے آپ کے نکتہ نظر سے تیزی سے حرکت کر رہی ہے تو آپ کو اس کی لمبائی کم محسوس ہو گی۔
اگر کوئی شے بلیک ہول کے اتنی پاس ہے کہ بلیک ہول کی کشش اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہے تو اس شے کی بلیک ہول کی طرف حرکت کی رفتار بڑھتی چلی جائے گی۔ اگر یہ شے بہت دور سے بلیک ہول کی طرف کھنچتی چلی آ رہی ہے تو اصولاً یہ ممکن ہے کہ مسلسل اسراع کی وجہ سے جب یہ شے بلیک ہول کے event horizon تک پہنچے گی تب تک اس کی رفتار روشنی کی رفتار کے پاس پہنچ چکی ہو (اگر چِہ یہ شے روشنی کی رفتار کبھی حاصل نہیں کر پائے گی)۔ چُناں چِہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ event horizon سے گذرنے کے بعد بھی اس شے کی رفتار بڑھتی رہے گی اور آخرِ کار اس شے کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔ تو کیا واقعی بلیک ہول کے پاس اشیا کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی تجاوز کر جاتی ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ بلیک ہول میں گرتی شے پر حقیقت میں کیا گزرتی ہے اور ہم دور بیٹھے کیا مشاہدہ کرتے ہیں۔
پہلے ہم اس شے کو بلیک ہول سے دور موجود کسی مشاہدہ کرنے والے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ ہم خود بلیک ہول سے بہت دور ہیں اور ایک راکٹ کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو بلیک ہول کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جب یہ راکٹ بلیک ہول کے event horizon سے دور ہو گا (یعنی جب ہمارے نکتہ نظر سے اس راکٹ کی رفتار روشنی کی رفتار سے بہت کم ہو گی) تو ہم اس راکٹ کو بلیک ہول کی طرف اسراع کے ساتھ جاتا دیکھیں گے یعنی اس راکٹ کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہو گا۔ لیکن جیسے جیسے یہ راکٹ بلیک ہول کے event horizon کے نزدیک جاتا جائے گا، بلیک ہول کی شدید کشش ثقل کی وجہ سے ہمارے نکتہِ نظر سے اس راکٹ کا وقت سست رفتار ہونے لگے گا (اس مظہر کو gravitational time dilation کہا جاتا ہے) جس وجہ سے ہمیں اس راکٹ کی رفتار کم ہوتی نظر آنے لگے گی۔ جب یہ راکٹ event horizon کے انتہائی قریب پہنچ جائے گا تو ہمارے نکتہِ نظر سے اس راکٹ کا وقت انتہائی سست رفتار ہو جائے گا اور وہ راکٹ جس کی رفتار حقیقت میں روشنی کی رفتار کے بہت قریب ہے ہمیں انتہائی سست رفتار نظر آئے گا۔
عین event horizon پر ہمارے نکتہ نظر سے راکٹ پر وقت کا بہاؤ رک جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس راکٹ کو ہمیشہ event horizon سے ذرا پہلے ساکن دیکھنے لگیں گے لیکن اسے کبھی event horizon کو پار (cross) کرتے نہیں دیکھ پائیں گے۔ اگر چِہ ہمارے نکتہ نظر سے راکٹ میں مسلسل اسراع پیدا ہونا چاہیے (کیوں کہ یہ راکٹ بلیک ہول کے ثقلی فیلڈ میں ہے) اس لیے اصولاً جب یہ راکٹ event horizon کو پار کرے گا تو اس کی رفتار کو روشنی کی رفتار سے زیادہ ہو جانا چاہیے (کیوں کہ وہ مسلسل بلیک ہول کے ‘مرکز’ کی طرف بڑھ رہا ہے اور اسکی سپیڈ میں مسلسل تیزی آ رہی ہے) لیکن ہم راکٹ کو اس حالت میں نہیں دیکھ پائیں گے کیوں کہ event horizon کے پار سے کوئی انفارمیشن ہم تک نہیں پہنچ سکتی۔ گویا event horizon سے گزرنے کے بعد اس راکٹ پر کیا گذرے گی یہ ہم کبھی نہیں جان پائیں گے۔
اب ہم اس بلیک ہول میں گرتے ہوئے راکٹ کو راکٹ کے نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ فرض کرتے ہیں کہ راکٹ میں ہم سوار ہیں اور یہ راکٹ بلیک ہول کی طرف جا رہا ہے۔ جیسے جیسے یہ راکٹ بلیک ہول کی طرف جا رہا ہے اس کی رفتار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن جب یہ راکٹ event horizon کے قریب پہنچے لگتا ہے تو اس کے ارد گرد کی سپیس کے مقابلے میں اس کا اسراع کم ہونے لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بلیک ہول کی کششِ ثقل سپیس ٹائم میں بھی بگاڑ پیدا کر رہی ہوتی ہے۔ یوں اس راکٹ کی رفتار راکٹ کی مقامی سپیس کے لحاظ سے کبھی روشنی کی رفتار سے زیادہ نہیں ہو پاتی۔ اس راکٹ میں بیٹھے ہوئے ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہم نے event horizon کو کب پار کیا۔ event horizon کوئی ایسی حد نہیں ہے جو نظر آتی ہو۔ event horizon کو پار کرنے کے بعد بھی راکٹ کی رفتار مقامی طور پر روشنی کی رفتار سے کم ہی رہتی ہے۔ گویا نظریہ اضافیت کی یہ پیش گوئی کبھی غلط نہیں ہوتی کہ مادی اشیاء کبھی سپیس میں روشنی کی رفتار تک نہیں پہنچ سکتیں اور نہ ہی کبھی روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار سے سفر کر سکتی ہیں۔ چنانچہ راکٹ میں بیٹھا شخص کبھی بھی اپنے آپ کو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار سے سفر کرتا نہیں پاتا۔
نظریہ اضافت کی رو سے یہ تمام مظاہر بیک وقت اس طرح سے طے پا رہے ہیں کہ کوئی مشاہدہ کرنے والا کسی بھی حالت میں اس راکٹ کو روشنی کی رفتار سے تیز حرکت کرتا نہیں پائے گا۔
اوریجنل آرٹیکل کا لنک:
https://www.quora.com/An-object-falling-i…/…/Viktor-T-Toth-1