(عبدالروف)
ہم میں سے کچھ لوگ ملالہ س نفرت کرتے ہیں، کچھ ڈاکٹر عبدالسلام سے، کچھ ایدھی سے تو کچھ لوگ آپ سے اور مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو احمدی سے نفرت کرت ہیں، کچھ شیعہ سے، سنی سے تو کچھ یہودی سے نفرت کرتے ہیں۔ اور اگر میں اسی طرح کچھ لوگوں کی نفرت بارے بتاتا چلا جاؤں تو اوراق کم پڑجائیں گے لیکن منافرت ختم نہیں ہوگی۔ کیوں؟ کیونکہ ہم نفرت ختم کرنے کے لیئے مزید نفرت پھیلاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم امن لانے کے لیئے مزید جنگیں کرتے ہیں۔ لیکن تاریخ میں ایک غیرجانبدارنظر آپکو بتادے گی کہ نفرت مزید نفرت کا سبب بنتی ہے۔ ہمیں معاشرہ نفرت کرنے کی کئی وجوہات بتا دیگا۔ میں مسلمانوں سے نفرت کیوں کروں؟ کیونکہ وہ دہشتگردی پھیلاتے ہیں۔ میں یہودیوں سے نفرت کیوں کروں؟ کیونکہ وہ فلسطین پر قابض ہیں اور یہ کہ وہ ہمارے ازلی دشمن ہیں۔ میں قندیل سے نفرت کیوں کروں؟ کیونکہ وہ تو تھی ہی گندی عورت۔ میں الیاس قادری سے نفرت کیوں کروں؟ کیونکہ وہ بدعتی ہے۔ اسی طرح آپ پوچھتے جائیے اور وجوہات کا نا ختم ہونیوالا پلندہ حاضر ہوتا رہیگا۔
سچ تو یہ ہے کہ آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ کرنیکی وجہ بہرصورت بن جاتی ہے۔ لیکن ہماراسوال یہ ہے کہ کیا ہم امن و آشتی اور عدم تشدد کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیسے؟ اس سوال کا کھوج لگانے کے لیئے ہم تین اہم پہلوؤں سے روشناس ہوتے ہیں۔
1۔ احساس برتری:
اگر آپ کسی بھی بات کو جواز بنا کر کسی کو بھی اپنے سے کم درجہ سمجھتے ہیں تو سماجی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ جو لامحالہ دہشتگردی اور سماجی برائیوں کا سبب بنتا ہے۔ ہاں، اسکے مختلف درجے ضرور بنتے ہیں۔ ہٹلر اپنے ساتھیوں سے تو ہمدردانہ رویہ رکھتا تھا مگر یہودیوں کو اپنے سے کم تر انسان سمجھتا تھا اور نتیجہ آپکو معلوم ہے کہ لاکھوں انسان اسکے ظلم کی نظر ہوئے۔ شیعہ کافر، احمدی غلط، قندیل بے غیرت، یہودی دشمن، عورت کم عقل تو قریب قریب سب مان لیتے ہیں مگر اس بات سے متفق شاید نہ ہوں کہ ان سب کو قتل کردینا چاہیئے۔ لیکن وہ ‘کچھ لوگ’ جنکا میں نے شروع میں ذکر کیا، قتل کرنے، ونی چڑھانے، دھماکہ کرنے اور نہ جانے کیاکیا کرنے کو تیار ہیں۔ انکو بس ہم جیسے تھوڑا بہت متفق ہونیوالوں کی تعداد چاہیے تاکہ انکے خلاف ٹھوس اقدامات کا مطالبہ نہ ہو اور خون کا کھیل جاری رہے۔
2۔ طریقہ تبلیغ و ترویج:
ہم انسان اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ قدرتی عمل ہے۔ لیکن اس معاملے میں کچھ لوگ اس حد تک گزر جاتے ہیں کہ اگر انکے خیالات کی پیروی نہ کی جائے تو مختلف سزائیں تجویز کرتے ہیں وگرنہ گالی پر اکتفا کرتے ہیں۔ بس، یہیں سے مسائل جنم لینا شروع ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں چند کمیونسٹس، مذہبی انتہاپسندوں وغیرہ نے کیا کیا؟ انکے خیالات کی نفی کرنیوالا پس زندان ڈال دیا گیا یا پھر اسے موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ کچھ عرصہ پہلے سرزمین پاکستان میں ایک لڑکے نے مسجد میں واعظ کی کسی بات پر غلطی سے انگلی اٹھا دی تھی تو واعظ نے اسے گستاخ قراردے دیا۔ جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نادان لڑکے نے اپنی انگلی کاٹ دی۔ کسی اور کی طرف سے لعن طعن کیوجہ سے اپنی جان پر ظلم کیا جسکتا ہے تو دوسروں پر ظلم کتنا آسان اور نارمل ہوگا۔
3۔ احساس ذمہ داری:
روزانہ کئی انسان مذہب کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ کئی خواتین کو نسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کئی بچوں کا بچپن چھین لیا جاتا ہے۔ ‘لیکن ہمیں کیا؟ ہم تو ذمہ دار نہیں ہیں نا!’ تو پھر یہ خون کی ہولی کون کھیل جاتا ہے؟ کبھی یہودیوں، امریکیوں، ہندوؤں تو کبھی کپڑوں اور سوچوں وغیرہ پر الزام دھر دھر کے ہم نے اپنے مسائل کو کچھ دیر کے لیئے چھپایا ہے، حل نہیں کیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے قصور مانیں اورامتیازات کو پس پشت ڈالتے ہوئے انفرادی سطح پر حلف اٹھائیں کہ،
ا۔ میں کسی بھی وجہ یا فرق کو بنیاد بنا کر کبھی کسی سے امتیازی یا متشدد سلوک روا نہیں رکھوں گا۔
ب۔ میں نہ صرف نفرت آمیز گفتگو سےخود اجتناب کروں گہ بلکہ دوسروں کو بھی یہی پیغام دوں گا۔
ج۔ اپنے گروہ کو درست ثابت کرنے یا اسکی تبلیغ کے چکر میں کسی دوسرے گروہ کی تذلیل نہیں کروں گا۔
درخواست: اس پیغام کو اپنے دوستوں تک پہنچائیں اور محبت پھیلانے کا باقاعدہ آغاز کریں۔ محبت سے محبت بانٹنے والوں کی خیر ہو۔