(جنید الدین)
جب میں لاہور میں ہر جگہ پھیلے گرد و غبار گاڑیوں کے بے ہنگم ٹریفک اور سیاسی جماعتوں کے جلوسوں سے تنگ آگیا تو شمالی علاقوں کی طرف جانے کے خیال سے مختلف منصوبے بنانے لگا۔ میں نے پیسے اکٹھے کیے، سفرنامے پڑھے اور نیشنل جیوگرافک چینل کو پہلے نمبر پر کر دیا۔ میں نے نیوز چینلز پیچھے والے نمبروں پہ ڈالے اور یونیورسٹی جانا بند کر دیا۔
مجھ پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح فطرت کے پاس پہنچ جاؤں جیسا ہنری تھوریو نے والڈن اور کرسٹوفر میکینڈلس نے اپنی ڈائری میں لکھا۔
میں نے جتنا سوچا، میرے اندر اتنا ہی پختہ ہوتا گیا کہ میں ان سب سے دور چلا جاؤں گا جو کہتے ہیں کہ لاہور کی خوبصورتی ان کے دم سے ہے جبکہ ہمارے جگر، گردے اور پھیپھڑے اس حد تک بدصورت بن چکے ہیں کہ شاید شہر کو نظر بد سے بچانے کا کام دینے لگے ہیں۔ وہ جنہوں نے اس شہر کو اپنی ملکیت بنا رکھا ہے اور ایسے دعوے کرتے ہیں کہ ان کے بغیر بندوبست ناممکن ہے، میں بتاؤں گا کہ مجھے تمہاری ان میں سے کسی چیز کے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔
بالآخر وہ دن آگیا جب مجھے ان سب سے دور چلے جانا تھا خواہ ایسا کچھ ہی عرصہ کیلئے ہوتا۔
میں نے بیگ پہنا اور اسٹیشن کی طرف چل پڑا۔ میں اسٹیشن سے تھوڑا فاصلے پر تھا کہ موبائل نکالا جس میں کسی سیاسی رہنما کے قتل کی خبر گونج رہی تھی. پیلی صحافتی ویب سائٹس مجھے اس رش سے زیادہ چبھنے لگیں جسے میں پیچھے چھوڑ کر جا رہا تھا۔
اچانک مجھے محسوس ہوا کہ اسٹیشن سے میرا فاصلہ بجائے کم ہونے کے، بڑھنے لگا ہے اور آگے جاتی گاڑیاں پیچھے مڑنے لگیں ہیں. میرا بیگ بھاری ہوتا جا رہا تھا اور مجھے لگنے لگا کہ قاتل نے کسی انسان کو نہیں، کسی کے ارمان کو مار دیا ہے. میری جیب میں موجود رقم نوٹوں کی بجائے کاغذوں میں بدلتی گئی اور بیگ میں موجود کتابیں ایسی ردی بن گئیں جس کے اوپر ماورائی زبان میں حروف کندہ ہوں۔ میں لوگوں سے چھپنے لگا کہ کہیں مجھے شہر سے نکلتا دیکھ کر وہ کوئی سازشی تصور کرتے مجھ پہ حملہ نہ کر دے۔
میں ساتھ واقع کھوکھے پہ بیگ رکھ کر اس کے اوپر بیٹھا اس اجنبی کا انتظار کرنے لگا جو اکثر خواب میں مجھے بچانے آتا تھا اور جسے پہچاننے کی میرے پاس واحد نشانی اس کی نیلی جیکٹ تھی۔ لوگ میرے آس پاس سے گزرے جا رہے تھے، جنہیں نظر انداز کرنے کی خاطر میں سگریٹ جلا کر بیٹھ گیا۔
اچانک تھوڑا آگے ایک رکشہ رکا اور اس میں سے نیلی جیکٹ پہنے ایک شخص باہر نکل کر کرایہ دینے لگا.
میں نے اسے آواز دی کہ میں جانتا تھا تم ضرور آؤ گے۔
اس سے پہلے وہ میری طرف مڑتا میں پسینہ میں شرابور جاگ گیا۔