انتہا درجہ کی من مانی ، بد اعمالی اور استبدادیت : آخر کب تک ہم بحرانوں کا شکار رہیں گے؟

ایک روزن لکھاری
نعیم بیگ، صاحبِ مضمون

انتہا درجہ کی من مانی ، بد اعمالی اور استبدادیت : آخر کب تک ہم بحرانوں کا شکار رہیں گے؟

نعیم بیگ

ہیگل (۱۷۷۰.ء ۱۸۳۱.ء) مشرق کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے:

’’ ہندوستان میں انتہا درجہ کی من مانی، بداعمالی اور ذلت آمیز استبدادیت کا راج ہے۔ چین، ایران، ترکی درحقیقت پورا ایشیا استبدادیت اور بری قسم کی جابریت کامنظر پیش کرتا ہے۔‘

                                                                                                        (صفحہ ۱۶۱ فلاسفی آف ہیگل نیویارک ۱۹۵۶.ء)

الفاظ نہایت سخت سہی لیکن ہیگل کا یہ محاکمہ بے بنیاد تو نہ تھا۔ بلکہ تقریباً پونے دو سو برس کے بعد بھی یہ کاغذ کی یہ ٹوپی مشرقی حکمرانوں کے سر پر ٹھیک بیٹھتی ہے۔ ہیگل اپنے لیکچرز میں ایشیا کے تاریخی ارتقائی مدارج کا تعین کرتے ہوئے مشرقی ریاستوں کو سب سے نچلی سطح پر رکھتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ان ریاستوں میں چند لوگ آزاد ہیں اور وہ مطلق العنان حکمران ہیں۔

آج ہم اپنے آس پاس کے ممالک اور خود اپنے ملک کی عمرانی و سیاسی تاریخ کا اجمالی جائزہ لیں  تو یہ بات روز روشن کی طرح کی واضح ہو جاتی ہے‘ کہ ہمارے حکمران بشمول مددگار اشرافیہ بد اعمالیوں، من مانیوں اور قانون سے بالاتر رہنے کے کسی بھی موقع کو ہاتھ  سے جانے نہیں دیتے۔ ہمارے ہاں اقتدار کی ہوس اور حکمرانی کے تسلسل کو کسی صورت اس دائرے سے باہر نہیں جانا دیا جاتا جہاں عوامی سطح کی نمائندگی کو حصہ دار بنانا پڑ جائے۔

اس ضمن میں تقسیم ہند کے بعد پاک و ہند کی سیاسی قیادت نے ورثہ میں پایا نیم جمہوری شاہی مزاج اپنایا، اور اپنے اپنے ممالک میں جمہور کی آڑھ میں امپیریل ازم کے پرانے ساتھی مذہبی قوت کو اپنے ساتھ رکھا۔

پاکستان میں گذشتہ دو دھائیوں میں جس تیزی سے لبرل طبقے کے ایک مخصوص حصہ نے بظاہر مذہبی قوتوں کی مزاحمت کو جمہوری مفاد پرست فلسفہ کے تحت کچلنے کی کوشش کی ہے، وہ بظاہر اپنی جگہ مسلّم، لیکن در حقیقت درون پردہ پیشگی غیر مشروط حمایت نے ملکی مذہبی قوت کے سٹیٹس کو کو ئی زد نہیں پہنچائی۔

یہی وجہ رہی کہ حالات نرم ہوتے ہی دہشت گردی آج بھی اسے طاقت سے ابھرتی ہے، لاہور کا ۲۴ جولائی کا واقعہ اس بات کا ثبوت ہے۔ بین ہی ہندوستان میں دیکھا دیکھی، آج آر۔ ایس۔ ایس کی شکل میں درونِ خانہ طاقت کے مرکز کو مذہبی طور پر مزید مضبوط اور سینٹرلائزڈ کر لیا گیا ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کی سیاسی قیادت مذہبی قوتوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے ‘اور خود کو دنیا کی عظیم ترین جمہوری طاقت کہنے کا جواز ختم کر چکی ہے۔

ہمارے ہاں عسکری قوت کے اندر صاحبِ اقتدار طبقے نے بڑے عرصے سے ملک کے لیے ایک دوراہا بلکہ سہ راہا منتخب کر رکھا ہے۔ وہ اپنی عقل و فہم کے مطابق ( جس پر سیر حاصل بحث کی جا سکتی ہے) بیک وقت ملکی ثقافت، سیاسی حکمرانی اورعالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ چاہتے ہیں۔ ایسے میں انہوں نے ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا ذمہ بھی عوام سے لےکر اپنے ایوانِ اقتدار میں رکھ چھوڑا ہے۔ اب نظریاتی سرحدوں کی شرح کون طے کرے گا؟ یہ ستر برس تک فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔

قیام پاکستان کے پہلے گیارہ برس (۴۷ء۔۵۸.ء) بعد از وفات قائد، نالائق سیاسی قوت سے کچھ فیصلہ نہ ہوسکا۔ اگلے گیارہ (۵۸۔۶۹.ء) برس ایوب خان نے اپنی فہم سے ملک چلایا۔ اگلے دو برسوں میں ملک ٹوٹ گیا اوربھٹو کی حکومت نے کسی حد تک گذشتہ داغ دھونے کی کوشش کی، لیکن سات برسوں (۷۱ء۔۷۷.ء) بعد ملک کو نہ صرف واپس اپنی ڈگر پر لایا گیا، بلکہ تیزی سے عالمی مذہبی قوتوں کی سرپرستی میں جہاد کا راستہ انفرادی سطح پر کھول کر ملک کے اندر بڑی واضح فرقہ وارانہ تقسیم کردی اور نتیجہ اپنے اقتدار کو اگلے گیارہ برسوں (۷۷ء ۔۸۸.ء)کے لئے محفوظ کر لیا گیا۔

اگلے گیارہ برس (۸۸ء۔۹۹.ء) اقتدار کو فوج نے بالواسطہ اپنے ہاتھ میں رکھا ۔ ۹۹ء۔۲۰۰۸.ء اور ۲۰۰۸.ء سے تاحال کی تاریخ کھُلی کتاب کی مانند ہمارے سامنے ہے، جس میں اولین دور میں حکومتی سرپرستی اور حصہ پانے والی مذہبی قوتوں نے معاشی سرپرستی کی عدم موجودگی میں ری باؤنڈ لیا، اور کیک کا حصہ پانے کی مسلسل خواہش نے انہیں بز ور شمشیر میدان میں لا کھڑا کیا۔

تب سے آج تک دہشت گردی کی مسموم فضا بادِ نسیم میں نہیں بدل سکی ہے۔ یہاں پوچھا جا سکتاہے کہ کیا عسکری دانش اپنے سہ رخی ممکنہ اہداف حاصل کر پائی ہے؟ کیا ملکی سیاست میں ان کے طے کردہ اہداف یا طرز حکومت کو قبول کر لیا گیا ہے؟ کیا عالمی سطح میں عسکری قیادت کے اثر و رسوخ کو شافی عزت و وقار مل سکا ہے؟

اس ضمن میں کئی ایک متضاد آراء سامنے آئیں گی۔ احقر کے خیال میں مختلف آراء کا در آنا ہی دراصل ان خدشات کی طرف اشارہ ہے، کہ ہم عسکری فکر و فہم اور عقل و دانش کو عالمی سطح کے عمرانی و سماجی قوانین سے ہم آہنگ نہیں کر پائے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم ( یہاں ہم سے مراد ملکی ارباب اختیار و اقتدار، قومی ادارے، انفرادی و اجتماعی عدل و انصاف کا نظام، ملکی معیشت و عالمی کاروبار اور سماجی تنظیم نو) ہر دس گیارہ برس کے بعد ایک نئے بحران سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ اور قومی تسلسل ایک ہالٹ کی صورت میں کئی برس تک اپنے نئے اہداف کا احیاء نہیں کر پاتا ہے۔ جس سے قومی و سماجی ترقی کا پہیہ نہ صرف رک جاتا ہے بلکہ اکثر ترقی معکوس کے تحت ہم پھر اُسی جگہ پر کھڑے پائے جاتے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔

ان معروضی حالات کے پیش نظر کیا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ حالیہ بحران جو پانامی لیکس کی صورت میں ملک و قوم کو ایک بار پھر ساکت و جامد کر چکا ہے، کے حل ہوجانے بعد قطع نظر اس بات کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے تحت موجودہ حکمران خاندان کو سیاسی منظر سے ہٹایا جا چکا ہے، ہم دوبارہ اپنے سفر کو وہیں سے شروع کر پائیں گے، جہاں ہالٹ ہوا تھا۔ یہاں عسکری قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کا حقیقی امتحان ہے۔

سوال یہ ہے سیاست دانوں کی مبینہ اور ظاہری کرپشن، موروثی ہوس اقتدار کو ملکی ادارے کیوں نہیں روک پاتے۔ کیا یہ اتنا دشوار گزار عمل ہے کہ اس پر ملکی ادارے عمل پیرا نہیں ہو سکتے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ یہ ادارے بھی اسی کرپشن کے نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔ جس کی مثال حال ہی میں ایک کارپوریٹ ادارے کے سربراہ کی گرفتاری سے ثابت ہوتی ہے۔

اصل میں سول حکومتی سٹرکچر میں یہی سب سے بڑی خامی ہے کہ احتساب کے ادارے مستعد نہیں۔ کسی بھی پبلک سروس کے ادارے جس میں بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، ہیلتھ اور تعلیمی یا بنیادی سہولتوں کے ادارے شامل ہیں، وہاں نچلے درجے سے اوپر تک احتساب عنقا ہے۔ افسران اور اہلکار سبھی اوپر کی طرف دیکھتے ہیں جہاں کرپشن اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا اپنے پورے عروج پر ہے۔

جمہوری روایات میں آئینی ترمیمات ملکی مفاد میں ہوتی ہیں۔ کیا یہاں ممکن نہیں کہ ملکی مفاد میں آئینی ترمیم کے ذریعے سیاسی موروثیت کا خاتمہ کر دیا جائے۔ کیا یہ ممکن نہیں؟ وزیراعظم یا کسی بھی سرکاری پبلک آفس ہولڈر کو بیک وقت دو انتظامی عہدوں پر براجمان ہونے سے روکنے کا قانون بنایا جائے۔ جبکہ نچلے درجے کی عام نوکریوں میں یہ قانون رائج ہے۔

ہمیں اپنے بحرانوں میں عالمی سازش کی تلاش کا کام بھی ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ ہم خود اپنی نا اہلی و نالائقی سے سماجی و سیاسی مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ شفاف قیادت صرف یہ کام کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں متوقع عارضی اور مستقل قیادت کے بحران سے بھی نبٹنے کے لیے ملکی اداروں کو آگے آنا ہوگا۔ جس میں الیکشن کمیشن اور احتساب بیورو اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سر فہرست ہیں۔

ان کی مانیٹرنگ کے لیے عدلیہ کا حالیہ کردار بھی رہنما ہے، لیکن سب سے اہم بات ، جمہوریت کی بحالی کے نام پر مقننہ، عدلیہ، عسکری ادارے اور دیگر سول اداروں کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس ضمن میں میڈیا کے ایک سیکشن کے نان پروفیشنل کردار کو بھی حدود میں رکھے جانے کے لیے متعلقہ ادارے کو عقابی طرز عمل اپنانا ہوگا۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔