بول کہ لب آزاد ہیں تیرے: کیا واقعی؟
از، خضر حیات
فیض احمد فیض کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے فیض فاؤنڈیشن ہر سال نومبر میں فیض فیسٹیول کا انعقاد لاہور میں کرتی ہے۔ چوتھا فیض فیسٹیول 16 نومبر کو الحمرا ہال مال روڈ پہ شروع ہوا اور 18 نومبر کو اختتام پذیر ہوا جس میں پچاس کے قریب نشستیں منعقد ہوئیں۔ ڈرامہ، تھئیٹر، فلم، موسیقی، ادب، صحافت، حالاتِ حاضرہ، تصنیفات پر سیشنز کے علاوہ فیض صاحب کے حوالے سے ایک نمائش کا بندوبست بھی فیسٹیول کے اہتمام میں شامل تھا۔ الحمرا کے لان میں کتابوں کے اسٹال بھی لگائے گئے تھے جہاں بالخصوص فیض کے حوالے سے کتابیں دستیاب تھیں۔
فیسٹیول میں مختلف شعبہ جات میں نمایاں حیثیت رکھنے والی ملکی و بین الاقوامی شخصیات نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ حاضرین کی ایک بڑی تعداد نے بھی فیسٹیول میں شامل ہوکر اسے کامیاب بنایا۔
چونکہ ایک ہی وقت میں تین سے چار نشستیں چل رہی تھیں تو ایک آدمی کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ تمام کے تمام سیشنز میں شامل ہو سکے۔ کچھ نشستیں جہاں ہم موجود تھے ان کا مختصر احوال درج ذیل ہے؛
ایک سیشن ‘صحافت میں سیاست’ پر منعقد ہوا جس میں معروف صحافیوں وسعت اللہ خان اور ماروی سرمد نے شرکت کی۔ اس نشست میں میڈیا پر عائد مگر نہ نظر آنے والی پابندیوں کا بڑے کھلے انداز میں ذکر ہوا۔ وسعت اللہ خان کا کہنا تھا کہ جس طرح کے حالات ہیں اب ہمیں ضیاء الحق کا زمانہ اچھا لگنے لگا ہے۔ تب کم از کم اتنا واضح تھا کہ کس لائن سے آگے نہیں جا سکتے اور یہ بھی کہ سزائیں بھی کھلم کھلا ہی دی جاتی تھیں۔ اب ایک خوف چھایا ہوا ہے لکھنے والوں پر اور ان کا مشورہ تھا کہ موجودہ دور میں صحافی کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ زندہ رہے۔
مزید دیکھیے: اردو ادب پاکستانی ثقافتیں اور عالمگیریت
‘محبت کی زبان’ کے عنوان سے ایک سیشن اس لیے قابلِ ذکر ہے کہ اس میں بھارت سے آئے ہوئے شاعر جاوید اختر اور پاکستانی شاعر امجد اسلام امجد کو ایک ساتھ بٹھایا گیا اور عنبرین صلاح الدین کی میزبانی میں اپنی نوعیت کا بہترین سیشن رہا۔
یہاں نہ صرف دونوں شعراء نے اپنی اپنی شاعری سنائی بَل کہ ادب پر بڑی پُر مغز اور فکرانگیز بحث بھی سننے کو ملی۔ جاوید اختر کا کہنا تھا کہ برصغیر میں مڈل کلاس جو کلچر کی نگہبان ہوتی تھی اب گلوبلائزیشن، لبرل ازم اور کمرشلزم کے دور میں نئی جگہ پہ پہنچ گئی ہے مگر جب وہ پہنچ چکے تو انہیں یاد آیا کہ ہمارا کچھ سامان تو پلیٹ فارم پہ ہی رہ گیا ہے۔ اس سامان میں زبان، کلچر، تہذیب، تاریخ کا فہم اور اس طرح کی دوسری چیزیں شامل تھیں۔ امجد اسلام امجد نے شاعری کی طاقت کو اجاگر کیا۔ ان کی یہ بات بڑی خوبصورت تھی کہ کارل مارکس کے آنے سے کم و بیش ایک صدی پہلے میر تقی میر نے ایک شعر کہا تھا جو مارکس کی کتاب ‘داس کیپیٹل’ کا خلاصہ ہے۔
رئیس زادوں سے دلی کے مت ملا کر میرؔ
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انہی کی دولت سے
جاوید اختر نے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ شاعری صرف محبت کی ہی زبان نہیں ہونی چاہیے بَل کہ یہ ضمیر کی بھی زبان ہونی چاہیے۔ محبت میں دینے کی بات بہت اچھی ہے مگر ہم سب کچھ ہی نہیں دے سکتے، ہمارے کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں جن کا اظہار شاعری میں لازم ہے۔
ایک سیشن ‘ماضی سے (بے) حال تک’ میں واسع چوہدری نے سہیل احمد سے ملاقات کروائی جنہوں نے ثقافت کی موجودہ حالت کا نوحہ پڑھا۔ سہیل احمد نے اسٹیج کو بطور ایک میڈیم کے دوبارہ سے زندہ کرنے کی ضرورت پر ایک دفعہ پھر زور دیا۔ اس سیشن کی قابل ذکر بات یہ رہی کہ پنجاب کے وزیرِ ثقافت فیاض الحسن چوہان اس میں مہمانِ خصوصی کے طور پر شامل ہوئے اور بغیر دعوت دیے اسٹیج پر آ کر بھاشن دینے لگے۔ فیض فیسٹیول میں شامل ہونے کے لیے حکومت کو فیاض الحسن چوہان کی بجائے کسی معقول آدمی کو بھیجنا چاہیے تھا۔ فیاض الحسن کی باتیں تو حاضرین نے کیا سننی تھیں، الٹا اس کی ہوٹنگ شروع ہو گئی۔
ایک نشست متوازی سیاست اور متبادل بیانیے پر بھی منعقد ہوئی جس میں جبران ناصر اور جواد احمد نے شرکت کی۔ دو شرکاء ڈاکٹر تیمور رحمان اور عمار علی جان کو اس سیشن میں آنے کی اجازت ہی نہیں ملی تھی جس کی وجہ سے یہ سیشن ادھورا ہی رہا۔ علامت کے طور پر ایک کرسی خالی چھوڑی گئی جس پر ڈاکٹر تیمور رحمان کو بیٹھنا تھا۔ ڈاکٹر اسامہ صدیق نے شرکاء سے بہت معیاری سوال کئے اور بحث ایک بھرپور مذاکرے میں داخل ہو گئی۔
بائیں بازو کی سیاست کے نمائندہ جواد احمد کو شرکاء کے ری ایکشن پر غصہ آگیا اور وہ لال سلام کے نعروں پہ طیش میں آ گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سیشن بدمژگی کا شکار ہوگیا۔
جبران ناصر نے لبرل ازم کی ضرورت و اہمیت اجاگر کرنے کے ساتھ جواد احمد کے اعتراضات کا بھی تحمل کے ساتھ تسلی بخش جواب دیا۔ جواد احمد کے غصے کی وجہ سے جبران ناصر کے حصے کا کافی سارا وقت ضائع ہوگیا۔ ایک احساس جو شدت کے ساتھ ہوتا رہا وہ یہ تھا کہ متوازی سیاست کے نمائندوں کو ابھی اور میچور ہونے کی بے حد ضرورت ہے۔
فیسٹیول کے حوالے سے کچھ باتیں کڑوی کسیلی بھی ہیں، بہتر ہوگا کہ ان کا بیان بھی ساتھ ہی ہو جائے۔
پہلی بات تو یہ فیض احمد فیض جس نظریے سے وابستہ تھے اسے اب فیشن سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا اور ساری عمر جس طبقے کی بات وہ کرتے رہے اس طبقے کی کہیں بھی کوئی ترجمانی کوئی نمائندگی اس فیسٹیول میں نظر نہیں آتی۔ فیض جو ایک نظریے کا نام تھا اب ایک برانڈ کا نام ہے جسے اس کے خونی وارث بہترین اسٹریٹجی کے تحت مارکیٹ کر رہے ہیں۔
میں نے پچھلے سال بھی عرض کیا تھا کہ فیض فیسٹیول جیسے میلوں کو کمرشل ازم اور کارپوریٹ سیکٹر سے باہر نکالیں اور انہیں چھوٹے شہروں اور دیہاتوں تک پھیلائیں۔ فیض کا پیغام مزدوروں، کسانوں، محنت کشوں کے لیے ہے تو حق دار کو اس کے حق سے کیوں محروم کیا جا رہا ہے۔ آرام دہ گھروں میں رہنے اور بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کے آنے والے مہمانان اور شرکاء فیض کے اہدافی سامعین نہ کبھی رہے ہیں اور نہ کبھی ہوں گے۔
پھر بھارت سے جو مہمان آئے وہ دونوں اپنی اپنی دنیا کے بڑے نام ہیں اور دونوں ہی عظیم والدین کی اولادیں ہیں۔ جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کو صوبائی وزیر ثقافت فیاض الحسن چوہان سے گلدستہ دلوایا گیا۔ حکومتِ وقت کے پاس بس فیاض چوہان ہی رہ گیا ہے جو دوسرے ملک سے آنے والے شاعروں ادیبوں کا استقبال کرے گا؟ یہ ایک سوچنے کی بات ہے۔
اور پھر فیاض الحسن چوہان شہید سلمان تاثیر کے قاتل کے لیے علی الاعلان اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ فیض صاحب اور سلمان تاثیر ہم زلف تھے اور کیسا زمانہ آ گیا ہے کہ فیض کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے حکومتی طور پہ جو بندہ بھیجا گیا وہ یہی فیاض الحسن چوہان ہی ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
فیض کو کوئی اب بتا دے کہ لب ایک بار پھر آزاد نہیں رہ گئے۔ چار لوگوں کو فیض فیسٹیول میں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ علی وزیر، رشید رحمان، ڈاکٹر تیمور رحمان اور عمار علی جان۔ ان چاروں کی غیر موجودگی کو محسوس کرنے اور کرانے کے لیے مختلف سیشنز میں اسٹیج پر ان کی کرسیاں خالی چھوڑی گئیں۔ خالی کرسیوں نے آمریت کے دنوں کے وہ یاد تازہ کر دی جب اخباروں میں سچ نہیں لکھا جا سکتا تھا اور احتجاج کے طور پر اداریے کی جگہ خالی چھوڑ دی جاتی تھی۔
صحافیوں، دانشوروں، ادیبوں، ڈرامہ لکھنے والوں اور عام لوگوں کا فیسٹیول میں ایک بات پہ اتفاق نظر آیا کہ آزادیء اظہارِ رائے اور آزادیء اظہار کے حوالے سے موجودہ دور پچھلے ادوار سے بہت مختلف ہے۔ پہلے جب سینسرشپ لگتی تھی تو واضح احکامات موجود ہوتے تھے۔ ایک صاف لائن نظر آتی تھی کہ کیا لکھنا ہے اور کیا نہیں لکھنا، کے درمیان۔ مگر اب ایک دھندلی سی لائن موجود ہے جس میں کچھ واضح نہیں ہے کہ کیا لکھا جا سکتا ہے اور کس طرح کا لکھنے پر پابندی ہے۔ آمریت میں چیزیں سیاہ اور سفید کے درمیان میں بٹی نظر آتی ہیں مگر موجودہ جمہوریت کے دور میں سیاہ اور سفید آپس میں مدغم ہوگئے ہیں۔ ایک خوف کی فضا ہے جو لکھنے والوں کے سروں پر منڈلا رہی ہے۔