پچھلے برس میں بولی وڈ کا سفر
از، حسین جاوید افروز
سال 2017 دھیرے دھیرے اپنے اختتام کی جانب بڑھ گیا ہے۔ اگر بولی وڈ کے حوالے سے اس سال کا جائزہ لیا جائے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے یہ سال ممبئی فلم نگری کے لیے کچھ اتنی اچھی یادیں اور معیاری فلمیں فراہم کرنے سے یکسر قاصر رہا ہے۔ آئیے آج اس سال رہلیز ہونے والی چند اہم فلموں کا جائزہ لیں ۔سب سے پہلے سال کی چند بڑی ناکام فلموں کا ذکر ہوجائے جن کے بارے میں فلمی پنڈت اور فلم بینوں نے خاصی توقعات وابستہ کی تھیں لیکن وہ اپنا جادو جگانے میں بری طرح ناکام رہیں ۔سلمان خان کی بھارت چین جنگ کے پس منظر میں بنی فلم ’’ٹیوب لائٹ ‘‘سلمان کے تمام تر سٹار ڈم کے باوجود بمشکل اپنی لاگت ہی نکال پائی اور اپنے کمزور اسکرپٹ کی بدولت فلم بینوں کو متاثر نہیں کرسکی ۔فلم میں سلمان کی بھولپن سے بھرپور ایکٹنگ اپنا رنگ جمانے میں ناکام رہی۔
اس کے بعد کنگ خان کی اگست میں رہلیز ہونے والی فلم ’’جب ہیری میٹ سجل‘‘ بھی اپنے عمدہ میوزک اور امتیاز علی جیسے بڑے ہدایت کار کے ہونے کے باوجود باکس آفس پر دھڑام سے گر پڑی ۔مذکورہ فلم شاہ رخ اور انوشکا شرما جیسے بڑے ناموں کے باوجود کمزور کہانی کی وجہ سے ایک اچھی شروعات دینے میں بھی بری طرح ناکام رہی ۔شاہ رخ کے لیے اس فلم کی ناکامی یقیناٰ کسی صدمے سے کم نہیں تھی۔
اسی طرح رنبیر کپور اور کترینہ کیف جیسے بڑے نام فلم ’’جگا جاسوس‘‘ کو بھی بدترین ناکامی سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔فلم اپنی کامک تھیم اور ناقص سکرپٹ کی بدولت فلم بینوں کو متاثر نہیں کر سکی ۔جبکہ داؤد ابراہیم کی بہن حسینہ کی زندگی پر مبنی فلم ’’حسینہ پارکر ‘‘بھی شردھا کپور کی سنجیدہ اداکاری کے باوجود رنگ جمانے سے قاصر رہی ۔جبکہ فلم میں داؤد کا رول نبھانے والے اصل زندگی میں بھی ان کے بھائی سد ھارتھ کپور بھی اپنی کمزور اداکاری سے فلم کی ناکامی کا سبب بنے۔
فرحان اختر کی فلم’’ لکھنو سینٹرل‘‘ بھی باکس آفس پر کچھ خاص نہیں کر سکی ۔ جبکہ فلم کا سکرین پلے بھی خاصی سست روی کا شکار رہا ۔جیل کی زندگی کی عکاسی کے لیے جس حقیقت نگاری کی ضرورت تھی وہ ہمیں لکھنو سینٹرل میں دکھائی نہیں دی ۔ کافی طویل انتظار کے بعد رام گوپال ورما کی سرکار فرنچائز کی تیسری فلم ’’سرکار تھری ‘‘بھی اس طرح سے اپنا اثر دکھانے میں ناکام رہی جو کہ اس سے قبل سرکار اور سرکار راج کا خاصہ رہا تھا۔
اگرچہ فلم میں سرکار کے روایتی کردار میں بچن صاحب مکمل فارم میں دکھائی دیے ۔مگر سرکار کے پوتے کے کردار میں امت شاد نے قدرے کمزور اداکاری کا مظاہرہ کیا ۔جیسا کہ کہا جارہا تھا کہ اس رول کے لیے پہلے فواد خان ہی اولین چوائس تھے ۔اگر وہ اس فلم کا حصہ ہوتے تو شائد یہ بات فلم کے حق میں بہتر جاتی ۔ولن کے کردار میں جیکی شیروف کا رول خاصا محدود رہا ۔جبکہ ایک گھاگ سیاستدان کے روپ میں منوج واجپائی کے کردار کو اتنی جلدی منظر عام سے نہ ہٹایا جاتا تو زیادہ بہتر رہتا۔
اب ذکر ہوجائے سال کی بہترین فلموں کا جنہوں نے بزنس کے حوالے سے کئی ریکارڈز قائم کیے۔’’باہوبلی ٹو‘‘ اس سلسلے میں اول نمبر پر رہی جس نے بھارتی فلمی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی ۔اپنی عمدہ سکرین پلے ،جاندار سکرپٹ اور تھری ڈی افیکٹس کے ساتھ یہ فلم 2000 کروڑ کا ریکارڈ منافع کمانے میں کامیاب رہی ۔اس فلم نے گویا ایک عالم کو مہبوت کردیا ۔اس سال شاہ رخ خان کے لیے سب سے اچھی خبر فلم ’’رئیس‘‘ ثابت ہوئی ۔ گجرات کے انڈر ورلڈ کے تناظر میں بنائی گئی یہ فلم شاہ رخ اور ماہرہ خان کے لیے 300 کروڑ کا کاروبار کر کے کامیاب ثابت ہوئی ۔ شاہ رخ نے رابن ہڈ نما گینگسٹر کے کردار میں متاثر کن کردار نگاری کا مظاہرہ کیا ۔جبکہ پولیس افسر کے رول میں نواز صدیقی نے بھی کنگ خان کے سامنے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ۔یوں رواں برس یہ سو کروڑ کلب میں شامل ہونے والی سال کی پہلی فلم کہلائی۔
ہرتیک روشن کی ’’قابل‘‘ نے بھی اگرچہ رئیس کو کڑی ٹکر دی لیکن مقابلے کی دوڑ میں یہ رئیس کو پچھاڑ نہیں سکی اور 176 کروڑ ہی کما سکی۔ اندھے میاں بیوی کے کردار میں ہرتیک روشن اور یامی گوتم نے شاندار اداکاری کی جو کہ معاشرے کے جبر کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر اسی معاشرے سے انتقام لینے کے لیے کمر بستہ نظر آتے ہیں ۔کھلاڑی کمار اکشے کمار کی کورٹ روم ڈرامہ فلم ’’جولی ایل ایل بی ٹو‘‘ بھی 197 کروڑ کما کر میلہ لوٹنے میں کامیاب رہی ۔فلم میں اکشے کی ایک چالاک وکیل کے کردار میں پرفارمنس بے مثال رہی جو کہ دھوکہ دہی سے سچائی کے راستے پر گامزن ہوتا ہے ۔ جبکہ ان کے مدمقابل انوکپور نے بھی ایک گھاگ بیرسٹر کے رول میں اپنی صلاحتیوں سے بھرپور انصاف کیا۔
فلم میں البتہ ہما قریشی اپنی چھاپ چھوڑنے میں ناکام رہی ۔اب یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ فلم کے تیسرے حصے میں اکشے اور ارشد وارثی دونوں ہی اپنا رنگ جماتے نظر آئیں گے ۔کامیڈی فلموں کی بات کی جائے تو ورون دھون ’’جڑواں ٹو اور بدری ناتھ کی دلہنیا ‘‘میں بطور ہیرو اپنی شناخت چھوڑنے میں کامیاب رہے ۔بلاشبہ ان کو آج کا گوندا قرار دیا جاسکتا ہے ۔اسی طرح روہت شیٹی کی ’’گول مال اگین‘‘ بھی ایک کامیڈی ہارر فلم کے طور پر شائقین کو جی بھر کے ہنسانے میں کامیاب رہی ۔فلم میں تبو ،پرینتی چوپڑ ،اجے دیوگن ، ارشد وارثی اور تشار کپور اس رنگ برنگی قہقوں سے سجی فلم کے ذریعے اپنی دھاک بٹھانے میں کامیاب ٹھہرے اورفلم 309 کروڑ کے منافع کے ساتھ نمایاں رہی۔
بھارت کے سکول سسٹم کی خامیوں اور انگریزی زبان کے حوالے سے احساس کمتری کو فلم’’ ہندی میڈیم‘‘ میں عمدگی سے اجاگر کیا گیا ۔صباقمر نے اپنی پہلی ہی ہندی فلم میں عرفان خان جیسے منجھے اداکار کے سامنے پراعتماد اداکاری کر کے شائقین کے دل جیت لیے۔ یہ فلم 102 کروڑ کمانے میں کامیاب رہی ۔اسی طرح ہندوستان میں غسل خانوں کی کمی کے موضوع پر مبنی فلم ’’ٹائلٹ ایک پریم کتھا ‘‘بھی اکشے کمار کی سٹار پاور کو اجاگر کرتے ہوئے 150 کروڑ کا منافع سمیٹنے میں کامیاب رہی ۔فلم میں نئی اداکارہ بھومی نے بھی اکشے کی بیوی کے روپ میں اپنی چھاپ چھوڑی۔
اب بات ہوجائے اثر انگیز اداکاری ، جاندار سکرپٹ سے مالا مال فلم’’ بیگم جان ‘‘کی۔ تقسیم ہند کے موقع پر پاکستان بھارت کی سرحد پر قائم ایک کوٹھے کی ملکیت پر تنازع کے عنوان پر بنی یہ فلم بلاشبہ ودیا بالن کی یادگار اداکاری کی بدولت ہمیشہ یاد رہے گی ۔اگرچہ یہ فلم کچھ خاص منافع تو نہیں کما سکی لیکن اپنی اعلیٰ کردار نگاری کے تناظر میں بیگم جان نے اپنے نقوش چھوڑے۔
تقسیم ہند کے موضوع پر بنی فلم ’’وائسرائے ہاؤس‘‘ بھی تاریخ سے شغف رکھنے والوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں تھی۔ فلم میں تقسیم کے موقع پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی داخلی کشمکش اور ہندوستانی سیاستدانوں کی سرگرمیوں کو تقسیم کے کرب کی روشنی میں عمدگی سے بیان کیا گیا ۔بیشک ہما قریشی نے مذکورہ فلم میں شاندار اداکاری کر کے فلم بینوں کو چونکا دیا۔
اس سال دنگل کے بعد عامر خان کی ماں بیٹی کے درمیان تعلق اور ایک کم عمر گلوکار کے سپنے بھرے سفر کو فلم ’’سیکرٹ سپر اسٹار ‘‘میں مہارت سے اجاگر کیا گیا۔ فلم میں عامر خان نے ایک سنکی موسیقار کے کردار میں ہمیشہ کی طرح لاجواب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔جبکہ کم عمر گلوکار کے کردار میں زارا وسیم اور ان کی ماں کے کردار میں مہر وج نے اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں ۔اجے دیوگن اور عرفان ہاشمی کی سسپنس تھرلر بادشاہو بھی فلم بینوں کی تاجہ کا محور نہیں بن سکی۔خزانے کو پانے کی جستجو میں ہندوستانی سیاستدان اور راجستھان کی مہارانی کے درمیان آویزش فلم کا مرکزی نقطہ ہے ۔لیکن کہیں کہیں سست سکرین پلے ،خزانہ پانے کی جدوجہد کے ساتھ ناظرین کو کافی بور بھی کردیتا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے محض زوردار مکالموں کی بھرمار تو کی گئی ہے مگر یہ پہلو فلم میں گہرائی پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ گویا ہم نوے کی دہائی پر بننے والی فلم کچھ نئے مصالحوں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
اب آخر میں ذکر ہوجائے دسمبر میں رہلیز ہونے والی سلمان خان اور کترینہ کیف سٹارر فلم ’’ٹائیگر زندہ ہے ‘‘کا جو دہشت گردی کے موضوع پر بنی ایک متاثر کن فلم ثابت ہوئی ۔فلم میں را اور آئی ایس آئی کے درمیان غیر متوقع طور پر تعاون کی فضا گویا فلم کی جان تھا۔ سلمان اور کترینہ کے ایکشن سے بھرپور مناظر ،جاندار سکرین پلے کی بدولت فلم نے ہندوستان سمیت سارے عالم میں دھوم مچا دی ۔ فلم نے اوپننگ ڈے پر ہی 34 کروڑ کما کر دھوم تھری کا ریکارڈ بھی پاش پاش کردیا ۔ لگ ایسا ہی رہا ہے کہ یہ فلم تیزی سے 300 کروڑ کمانے کی دوڑ میں با آسانی کامیاب ہوجائے گی ۔اس فلم سے سلمان خان نے ٹیوب لائٹ سے ہونے والی مایوسی کو ایکشن سے بھرپور کردار نبھا کر یکسر ختم کردیا ہے ۔یوں سلمان خان کا جادو اس وقت سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سال بھاری منافع کمانے والی فلموں نے گویا کاروباری حوالے سے تو ایک تاریخ رقم کی ہے۔ لیکن بات اگر کی جائے اسکرپٹ اور سکرین پلے کی جزیات کی، بات اگر کی جائے سنجیدہ اور حقیقت سے قریب تر موضوعات کی حامل فلموں کی تو بلاشبہ اس سال ہمیں اس معیار میں گراوٹ دکھائی دیتی ہے۔ بجائے اچھوتے موضوعات پر تخلیقی جستجو کی نزاکتوں کا خیال کرنے کے آج بولی وڈ میں موضوعات کا اس قدر فقدان ہوچکا ہے کہ بیس بیس سال پرانی فلموں کا سیکوئل بنا کر کام چلایا جارہا ہے۔ جس سے بظاہر تو فلمی کاروبار میں گہما گہمی موجود رہتی ہے لیکن کیا اس بھیڑ چال کو اپنانے سے ہم آرٹ کی خدمت ہوتی دیکھ رہے ہیں؟ کیا ہمیں اس راہ پر چلتے ہوئے معیاری سنیما کی تخلیق کے حوالے سے کچھ سود مند کو ششیں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں؟ میری دانست میں بولی وڈ کے لیے جاری موجودہ رجحان کچھ اتنا حوصلہ افزاء نہیں ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.