کلاسک فلمیں، دیوار فلم کا ریویو
از، سُفیان مقصود
سٹار کاسٹ: امیتابھ بچن، ششی کپور، نروپا رائے، پروین بابی، نیتو سنگھ، افتخار
ہدایت کار: یش چوپڑا
ریلیز کا سال: 1975
کچھ فلمیں ہٹ ہوتی ہیں، کچھ سپر ہٹ، کچھ بلاک بسٹر اور کچھ فلمیں فلاپ قرار پاتی ہیں لیکن بہت کم ایسی فلمیں ہیں جو یادگار رہ جاتی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ “کلٹ کلاسک ” کا درجہ پاتی ہیں۔
ان کلٹ فلموں میں سے بھی چند ایک ایسی فلمیں ہوتی ہیں جو تاریخ میں ہمیشہ نمایاں رہ جاتی ہیں جو فلم انڈسٹری کا رخ ہی تبدیل کر دیتی ہیں اور ریلیز کے دھائیوں بعد بھی ان کی مقبولیت میں رتّی برابر فرق نہیں آتا بل کہ جب جب دیکھی جائیں تب تب ایک نیا لطف دیتی ہیں اِنھی کلاسک فلموں میں سے ایک “دیوار” ہے۔
“دیوار” عظیم ترین فلم میکرز میں سے ایک یش چوپڑا کی لیجنڈری فلم ہے جو اب فلم کے درجے سے اوپر جا کر ایک اِنسٹی ٹیوشن کا درجہ پا چکی ہے۔ “دیوار” کا پلاٹ ایک اور روایت شکن، بلاک بسٹر اور کلاسک فلم “گنگا جمنا” سے متأثر ہے جسے لکھا اور پروڈیوس کیا تھا “صاحبِ عالم” دلیپ کمار صاحب نے۔
اپنے مختلف انٹرویوز میں سلیم خان اور جاوید اختر، دونوں اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ “دیوار” کا آئیڈیا در حقیقت “گنگا جمنا” سے ہی مستعار لیا گیا تھا۔
ایک عظیم فلم سے متأثر ہونے کے با وُجود “دیوار” نے اپنی الگ پہچان اور فَین بیس بنائی؛ شاید ہی کوئی بالی وُڈ فلم بِین ہو جس نے “دیوار” نہ دیکھی ہو اور دیکھ کر پسند نہ کی ہو۔
“زنجیر” نے امیتابھ بچن کو پہلی بار شناخت دلائی، لیکن “دیوار” وہ فلم تھی جس نے امیتابھ بچن کو عوامی ہیرو بنایا؛ یہی وہ فلم تھی جس نے سلیم جاوید کی جوڑی کو انڈیا کی مقبول ترین جوڑی بنایا اور یہی وہ فلم تھی جس نے یش چوپڑا کے عمدہ فلم میکر ہونے پہ مُہر لگائی۔
یش چوپڑا، جن کے کریڈٹ پہ اس سے پہلے “دھول کا پھول” اور “داغ” جیسی رومانوی اور حساس فلمیں تھیں ان کے ہاتھوں “دیوار” جیسی فلم کا بننا اپنے آپ میں ایک دل چسپ پہلو ہے۔ اس فلم کی سب سے خاص بات اس فلم کا عمدہ سکرین پلے تھا جو اتنے شان دار طریقے سے لکھا اور فلمایا گیا کہ فلم میں موجود ہر سین پیسہ وصول سین بنا۔ اس فلم کا ٹائٹل ہی در اصل اس فلم کی اساس ہے، یہ “دیوار” ہے جو بھائیوں کے نظریات کے درمیان حائل ہے، یہ “دیوار” ہے جو فلم کے ہیرو اور سماج کے فرسودہ نظام کے درمیان حائل ہے۔
“دیوار” نے جہاں انڈیا میں مقبولیّت کے ریکارڈ توڑے، وہِیں بین الاقوامی سطح پہ بھی اس فلم کو خوب سراہا گیا۔ اس فلم کو دنیا کی ہر بہترین فلموں کی فہرست میں شامل کیا گیا، بڑی بڑی درس گاہوں میں آج بھی اس فلم پہ مقالے لکھے جاتے ہیں۔
“دیوار” ہر لحاظ سے ایک یادگار فلم تھی اس فلم کے ڈائیلاگز آج بھی زَبان زَدِ عام ہیں:
“میرے پاس ماں ہے،”
“اگلے ہفتے ایک اور قلی ہفتہ دینے سے انکار کرنے والا ہے،”
“میں آج بھی پھینکے ہوئے پیسے نہیں اٹھاتا،” “آج خوش تو بہت ہوئے ہو گے تم،”
“میں جن کا انتظار کر رہا ہوں وہ باہر میرا انتظار کر رہے ہیں۔”
یہ وہ ڈائیلاگز ہیں جو آج بھی ہر فلم بِین کو اَز بر ہیں، دل چسپی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی روایتی پنچ لائین یا ڈائیلاگ نہیں لگتا، لیکن فلم میں صورتِ حال ایسی ہے کہ شائقین ان ڈائیلاگز کو سن کر جھوم اٹھتے ہیں۔
آپ سکرین پلے کا معیار دیکھیں، ایک ڈان ایک نو جوان کو کام اور پیسے آفر کر رہا ہے؛ نو جوان کھڑکی سے باہر اپنا بچپن فلیش بیک میں دیکھتا ہے اور ہامی بھر لیتا ہے۔ ڈان اس کے سامنے میز پہ پیسے پھینکتا ہے نو جوان اسے پچیس سال پہلے کا ایک واقعہ سنا کر کہتا ہے: “میں آج بھی پھینکے ہوئے پیسے نہیں اٹھاتا،” اور پورا ہال تالیوں اور سیٹیوں سے گونج اٹھتا ہے اور اس سین کی مقبولیت کا اندازہ لگائیں کہ چند سال پہلے بچن صاحب کی سال گِرہ پہ ان کی چند یادگار فلموں کو دوبارہ تِھیئٹرز میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا جن میں سے ایک “دیوار” بھی تھی، ریلیز کے اڑتالیس سال بعد بھی ہال شائقین سے کھچا کھچ بھرا ہے اور جب یہ سین آتا ہے تو پورا ہال تالیوں اور سیٹیوں سے گونج اٹھتا ہے: یہ ہے مِعیار، کریز اور چھاپ اس فلم کی جو اس نے اپنے شائقین پہ چھوڑی۔
“دیوار” کی سٹار کاسٹ میں بچن صاحب کے ساتھ ساتھ نروپا رائے اور یش چوپڑا کے فیورٹ ششی کپور نے بھی اہم کردار نبھائے۔ یش چوپڑا نے بارہا ششی کپور کو اپنا فیورٹ اداکار قرار دیا۔ کشش، خوب صورتی، پرسنَیلٹی اور رائلٹی یوں تو کپور خاندان کے ساتھ ان کے سَرنَیم کی طرح جڑی ہوئی ہے مگر ششی کپور کی بات ہی الگ تھی۔ پورے کَرِیئر میں بیش تر فلموں میں ثانوی کردار نبھانے والے ششی کپور نے ہر فلم اور ہر کردار میں اپنی چھاپ چھوڑی اور نروپا رائے تو ویسے بھی جذباتی اداکاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔
“دیوار” بِلا شبہ ہندی فلم انڈسٹری میں ایک سنگِ مِیل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس فلم نے بچن صاحب کو عوامی ہیرو بنایا، ایک پِسے ہوئے طبقے کا ہیرو جو سماج کی اونچ نیچ کا شکار ہے؛ ایک ایسے طبقے کا ہیرو جو سماج کی ہر طرح کی زیادتی کا شکار ہے۔
“دیوار” سرمایہ دارانہ نظام کی نفی کرتی تھی۔ اس فلم نے ایک بہت مضبوط پیغام دیا کہ اگر حق دیا نہیں جائے گا تو حق چھینا جائے گا اور غربت، زیادتی اور محرومیوں کے بطن سے اکثر جرائم اور مجرم پیدا ہوتے ہیں۔
“دیوار” نے باکس آفس پہ بے مثال کام یابی حاصل کی۔ اس فلم کے ٹِکَٹس بلَیک میں ملنا بھی محال تھا۔
“دیوار” نہ صرف باکس آفس پہ بلاک بسٹر ثابت ہوئی، بَل کہ ناقدین کی جانب سے بھی پسند کی جانے والی فلم تھی؛ جہاں اس فلم کی ایک ایک چیز کو خوب سراہا گیا، بچن صاحب نے بار ہا اس فلم کو اپنی فیورٹ فلم قرار دیا ہے اور اس کے سکرین پلے کو سب سے بہترین سکرین پلے قرار دیا۔
“دیوار” بہت لحاظ سے ایک روایت شِکن فلم تھی۔ شاید پہلی بار کسی فلم میں ہیرو ہیروئن کو اس طرح ایک بیڈروم شیئر کرتے دکھایا گیا تھا۔ “انیتا” اور “وجے” کے درمیان قُربت دکھانے کے لیے بچن صاحب کو “شرٹ لَیس” اور پروین بابی کو “نائٹ ڈریس” میں بستر پہ ایک ساتھ دکھانا اُس دور میں ایک بہت ہی بولڈ سین تھا۔ فلم کے ہیرو کی جانب سے “بھگوان” سے ناراضی، اور ایک غیر اعلانی “جنگ” بھی اس فلم کو بہت دل چسپ اور خوب صورت پہلو تھا۔
امیتابھ بچن جیسے اداکار جنھوں نے لگ بھگ پچپن سالوں سے صرف فلمیں ہی بنائی اور جو آج بھی جان دار کرداروں میں نظر آتے ہیں ان کے بارے میں یہ کہنا کہ آج سے پچاس سال پہلے ان کے کَرِئیر کے اوائل میں بننے والی ایک فلم ان کی زندگی کی بہترین فلم تھی تو یہ یقیناً زیادتی ہو گی؛ لیکن سچ تو یہ ہے کہ سینکڑوں فلمیں اور پانچ دھائیاں فلموں میں کام کرنے والے بچن صاحب کی زندگی کی تین بہترین فلموں میں سے ایک لازمی “دیوار” ہو گی۔