بالی وڈ فلموں میں پاکستان دشمن کب بنا
1965 کی جنگ سے پہلے پاک بھارت تعلقات اتنے کشیدہ نہیں تھے جتنے کہ اس کے بعد ہو ئے اس وقت امرتسر والے لاہور کے میلوں ٹھیلوں پر سائیکل پر سوار ہو کر امرتسر سے لاہور آیا کرتے تھے۔ اسی طرح لاہوریے کیسے پیچھے رہتے، جب بھی کوئی نئی ہندوستانی فلم امرتسر لگا کرتی تو لاہوریے بھی دن گزارنے امرتسر کا رخ کیا کرتے۔ پاکستانی سِنِیما گھروں میں بھی بھارتی فلموں کی نمائش ہوا کرتی تو دیکھنے والوں کا کھڑکی توڑ رش ہوا کرتا۔ مغلِ اعظم اور پاکیزہ کے ریلیز ہونے پر عوام کا جوش و خروش اس کی واضح مثال ہے۔
از، حسین جاوید افروز
پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدوں پر موجود حالیہ کشیدگی انتہاؤں کو چھوتی محسوس ہو رہی ہے جب کہ اُڑی حملے کے بعد بارہ مولا فوجی کیمپ اور اب ہندواڑہ کیمپ پر فائرنگ نے ماحول کو مزید گرما دیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بھارت ابھی تک اس بدنام زمانہ سرجیکل سڑائیک کا کوئی بھی ثبوت فراہم کرنے سے بھی قاصر رہا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ کشیدگی محض سیاسی تناؤ یا فوجی محاذ تک ہی محدود نہیں ہے اس میں بہت بڑا حصہ بھارتی میڈیا اور بالی وڈ کا بھی ہے جو آئے روز پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔ بالی وڈ کے لیے پاکستان ہمیشہ سے ایک مصالحہ دار موضوع رہا ہے۔
اگر ہم تھوڑا پیچھے جائیں تو قیامِ پاکستان سے قبل لاہور فلمی صنعت کا ایک بڑا مرکز ہوا کرتا تھا اور بر صغیر کے کئی نامی گرامی اداکار لاہور میں فلمی سرگرمیوں میں مصروف رہتے۔ بھارتی فلموں کے مشہور اداکار پران جو بَہ طورِ ولن اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے تھے، اکثر فلموں میں کام کرنے سے قبل لکشمی چوک پر پان کی دکانوں پر چکر لگایا کرتے۔
وہ تو ایک ڈائریکٹر نے ان کی چال ڈھال اور لہجے سے متاثر ہو کر ان کو فلموں میں کام کرنے کی پیش کش کی اور پران ہندی فلموں کے ایک عظیم اداکار کے طور پر ابھرے۔ پران اکثر کہا کرتے تھے، ”لاہور سے میرا بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ بمبئی تو محض ایک کاروبار کا نام ہے شہر تو لاہور ہی ہے۔“
اسی طرح ایک اور مشہور بھارتی اداکار اوم پرکاش بھی تقسیمِ ہند سے پہلے لاہور میں ریڈیو میں بَہ طورِ اداکار خاصے مقبول تھے۔ جب کبھی بمبئی میں ان سے ملنے والوں میں کوئی لاہوری نکل آتا تو وہ اس کے آ گے بچھ جاتے اور کرید کرید کر لاہور کی گلیوں، راستوں کے بارے میں اشتیاق سے سوالات پوچھتے۔
اداکار کبیر بیدی بھی لاہور میں پیدا ہوئے اور اسی طرح اداکار اے کے ہنگل کا تعلق بھی سیال کوٹ سے تھا۔ ونود کھنہ پشاور جب کہ منوج کمار ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے۔ بلراج ساہنی کا تعلق جھنگ شہر سے تھا جب کہ امتیابھ بچن کہتے ہیں کہ ان کی والدہ تیجی بچن کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ بچپن میں امتیابھ والدین کے ہم راہ کراچی بھی آئے۔
یہ بھی دیکھیے:
نہیں بھئی، دو قومی نہیں، ایک اوقاتی نظریہ از، یاسر چٹھہ
تخلیق کار، دھرتی ماں سے محبت اور تخلیق: ایک گفتگو از، ایک روزن رپورٹس
مشہور کپور فیملی کی بات کی جائے تو ان کا آبائی گھر پشاور میں تھا اور ویسے ان کا تعلق سمندری فیصل آباد سے ہے۔ اداکار شاہ رخ خان کے والد میر تاج کا تعلق بھی پشاور شہر سے تھا۔ بر صغیر کے عظیم اداکار دلیپ کمار بھی پشاور کے کوچوں سے نکل کر قسمت آزمائی کے لیے بمبئی پہنچے۔
1965 کی جنگ سے پہلے پاک بھارت تعلقات اتنے کشیدہ نہیں تھے جتنے کہ اس کے بعد ہو ئے اس وقت امرتسر والے لاہور کے میلوں ٹھیلوں پر سائیکل پر سوار ہو کر امرتسر سے لاہور آیا کرتے تھے۔ اسی طرح لاہوریے کیسے پیچھے رہتے، جب بھی کوئی نئی ہندوستانی فلم امرتسر لگا کرتی تو لاہوریے بھی دن گزارنے امرتسر کا رخ کیا کرتے۔
پاکستانی سِنِیما گھروں میں بھی بھارتی فلموں کی نمائش ہوا کرتی تو دیکھنے والوں کا کھڑکی توڑ رش ہوا کرتا۔ مغلِ اعظم اور پاکیزہ کے ریلیز ہونے پر عوام کا جوش و خروش اس کی واضح مثال ہے۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے بعد یہ ماحول ماضی کی دھول میں گم ہو گیا ایسے میں بھارتی فلم سازوں نے بھی ایسی فلمیں بنائیں جن میں پاکستان دشمنی کا عنصر نمایاں رہا۔
کشمیر میں 1988 تا 2000 مسلح جدوجہد کے دوران یہ مخاصمت عروج پر پہنچ گئی۔ 1994 کی روجا، 1997 میں بارڈر، 1999 میں ہندوستان کی قسم، سرفروش جس میں پاکستان کو سرحد پار کارروائیوں کا ذمے دار قرار دیا گیا۔ 2000 کی ماں تجھے سلام میں پاک فوج کے خلاف نا زیبا زبان استعمال کی گئی۔
2003 کی جال اور 2001 کی غدر میں سنی دیول نے پاکستان کے خلاف نفرت انگیز جذبات کا اظہار کیا۔ 2004 کی لکشیا، ایل او سی، کارگل، قیامت، 2006 کی فنا جیسی فلمیں سامنے آئیں۔
حال ہی میں D Day سامنے آئی جس میں ایک افسانوی ماحول تراشا گیا کہ کیسے بھارتی ایجنٹس کراچی میں داؤد ابراہیم کو گرفتار کر کے بھارت لے جاتے ہیں؟ اسی طرح فلم فینٹم میں کیسے سیف علی خان اور کترینہ کیف لاہور میں حافظ سعید کی تلاش میں پہنچ جاتے ہیں؟
گویا جو ارمان بھارتی ایجنسیاں اور فوج سرجیکل سٹرائیک کے تحت پورے نہیں کر سکتی وہ بھارتی فلمیں پورے کر لیتی ہیں۔ اسی طرح اڑی حملے کے تناظر میں انڈین آرمی کے پاکستانی ایریا میں کی گئی فرضی سرجیکل سٹرائیک پر مبنی فلم اڑی میں بھی کھل کر جھوٹا اور بے سروپا پراپیگنڈا گھڑا گیا۔ جب کہ عالیہ بھٹ کی فلم رازی میں بھی یہ دکھایا گیا کہ کیسے ایک بھارتی جاسوس لڑکی پاکستانی جرنیل کی بہو بن کر حساس معلومات بھارتی سرکار کو مہیا کرتی رہی اور پاکستانیوں کو خبر بھی نہ ہوسکی۔
لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ چند ایسی فلموں کے جن میں بارڈر، سرفروش اور غدر شامل ہیں باقی تمام فلمیں فلاپ رہیں۔ تاہم تصویر کا دوسرا رخ حوصلہ افزاء ہے کہ کچھ ایسی فلمیں بھی ہیں جن میں پاکستانیوں کی مثبت باتوں کو بھی اجاگر کیا گیا جیسے فلم ویر زارا جس میں رانی مکرجی نے پاکستانی وکیل کے طور پر ایک قیدی بھارتی پائلٹ کا کیس لڑا؟جیسے فلم جب تک ہے جان میں شاہ رخ کے لاہوری دوست نے اس سے خوب دوستی نبھائی۔ جیسے فلم PK میں ایک بھارتی رپورٹر اور اس کے پاکستانی دوست کی بے لوث محبت اجاگر کی گئی اور بتایا گیا کہ ایک بھارتی اور پاکستانی کے لیے محبت کرنا کوئی جرم نہیں۔ جیسے فلم میں ہوں ناں میں شاہ رخ بَہ طور بھارتی فوجی افسر ایک متعصب بھارتی افسر سنیل شیٹی کو سمجھاتا ہے: ”پاکستان بدل چکا ہے اب ہم دشمنی کے ماحول میں مزید نہیں رہ سکتے۔“
یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں پاکستانی فن کاروں جاوید شیخ، فواد خان، علی ظفر اور ماہرہ خان نے بالی وڈ میں اپنا مقام بنایا ہے اسی لیے جب ان پاکستانی فن کاروں کے بھارت میں کام کرنے پر اعتراضات اٹھے تو سلمان خان نے واشگاف الفاظ میں کہا، ”یہ اداکار ہیں دہشت گرد نہیں۔ ان کو ویزہ کس نے دیا ہماری حکومت نے دیا، اس بات کو سمجھیں۔“
یقیناً یہ ایک جرات مندانہ مؤقف تھا۔ آنجہانی بھارتی فن کار اوم پوری نے تو بھارت میں یہ کہہ کر آگ لگا دی:
”میں نے پاکستان کی فلم میں کام کیا مجھے فخر ہے۔ بے شرموں کیسی فلمیں پاکستان کے بارے میں بناتے ہو؟ پاکستان اور بھارت کو اسرائیل فلسطین نہ بناؤ۔“
اوم پوری کی جرات نے پاکستانیوں کے دل موہ لیے یہی اوم پوری پاکستانی فلم ایکٹر ان لاء میں بھی جلوہ گر ہوئے جو اب تک ریکارڈ بزنس کر چکی ہے۔
پاکستان اور بالی وڈ کا یہ رشتہ جس کی ایک مختصر سی منظر کشی کی کوشش آج کی گئی یہ ایسے ہی کھٹاس اور مٹھاس لیے چلتا ہی رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فن کاروں اور فن کو سیاسی و جنگی کشیدگی کی آگ میں نہ جھونکا جائے کیوں کہ یہی وہ ستون ہیں جو سرحد کے دونوں جانب امن کی امیدوں کو زندہ کیے رکھتے ہیں۔