سشانت سنگھ اور نجی زندگی کا سراب

Sushant Singh
سشانت سنگھ، اصل تصویر بہ وساطت ایکسپریس ٹریبیون

سشانت سنگھ اور نجی زندگی کا سراب

از، سید کاشف رضا

سشانت بولی ووڈ میں سب سے زیادہ امکانات رکھنے والے اداکار تھے۔ ان کا چہرہ بہت خوش رُو تھا اور جسم نئی فلمی ضروریات کے مطابق فٹ۔

پھر وہ اداکار بھی بہت اچھے تھے۔ میں نے ایک اور معیار بھی طے کر رکھا ہے کہ مرد اداکار کو لڑکی کے ساتھ بھلا اور انسان کا بچہ لگنا چاہیے: بھوکا اور میلا درندہ نہیں۔ ششی کپور کے بعد سشانت سنگھ تھے جو اس معیار پر پورا اترتے تھے۔

فلم پی کے کے گانے چل دو نا ساتھ میرے کا سیکوئنس کسے یاد نہیں ہو گا۔ اس میں وہ سین یاد کیجیے جس میں سشانت بالکونی میں کھڑے ہیں۔ میں نے یہ گانا درجنوں بار دیکھا ہو گا۔

پھر میں بیلجئیم میں تھا جب پتا چلا کہ یہ گانا جس شہر میں فلمایا گیا ہے وہ قریب ہی ہے۔ سو میں بروج جا پہنچا اور وہاں یاد داشت میں تابندہ رہنے والا ایک دن گزارا؛ جہاں ایک کشتی میں ایک نو جوان انڈین جوڑے سے ملاقات ہوئی۔

ان سے میں نے اس گانے کا ذکر کیا اور جب خاتون نے پوچھا کہ کیا آپ پاکستانی ہیں تو سر ہلاتے ہوئے اس سے کہا تھا، سرفراز دھوکا نہیں دے گا اور یہ کہتے ہوئے حلق میں آنسوؤں کا نمک گھلتا ہوا محسوس ہوا تھا۔

سشانت نے خود کشی کیوں کی؟ اس نے تو زندگی سے بھر پُور ایک وش لسٹ بھی بنائی ہوئی تھی۔ پھر کیوں؟

Sushant Singh Rajput
سوشانت سنگھ تصویر بہ وساطت سے ایل پی لائیو

گوتم بدھ نے کہا تھا کہ دکھ کا سبب خواہش ہے۔ کیا خواہشوں کی کثرت اور ان کے پورا ہونے کی قلت نے انھیں مار ڈالا، یا پھر ایسے کسی دکھ نے جو وہ کسی سے شیئر نہیں کر پا رہے تھے۔

ہم اب اپنے دکھ کیوں شیئر نہیں کر پا رہے؟ ہندوستان سے عزیز دوست سوربھ کمار شاہی نے سشانت سنگھ کی موت کے پسِ منظر میں اس کی وجہ لکھی ہے۔ ان کی تجویز پر خود میں بھی عامل نہیں ہو سکتا کہ زندگی بڑی حد تک اس ڈھب پر ڈالی جا چکی۔

تاہم آپ کے لیے سوربھ کمار کی انگریزی پوسٹ کا ترجمہ حاضر ہے:

“پرائیویسی اور نجی زندگی سے متعلق مغربی طرز کا خبط اب قتلِ عام کا سبب بن چکا۔ اس خبط نے مغربی خِطّے میں لاکھوں انسانوں کی جان لی، اور اب اس نے ہمیں بھی قتل کرنا شروع کر دیا ہے۔

“ہم نتائج پر غور کیے بَہ غیر اس طرزِ زندگی کی نقالی کرتے ہیں۔ یہ ہے اس کا نتیجہ!

● مت کریں اس طرزِ زندگی کی نقالی

● نئے دوست بنائیں

● پرانے دوستوں کے ساتھ گھومیں پھریں

● ان کی زندگیوں میں ناک گھسیڑیں

● اور انھیں اپنی زندگی کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنے دیں

● بَہ غیر بتائے ان کے دروازوں پر جا کر دستک دیں

● اور جب وہ بدلے میں یہی عنایت کریں تو انھیں خوش آمدید کہیں

● جیسے ہم اپنے دیہاتوں میں، اپنے چھوٹے چھوٹے شہروں میں کیا کرتے تھے

یہ پرائیویٹ زندگی وہ سب سے بڑا دھوکا ہے جو آپ سے کیا جا رہا ہے۔ اس کے مفروضہ سِحَر کے سامنے سپر نہ ڈالیں۔

لگا رہنے دیں انگریزوں، جرمنوں اور امریکیوں کو اس سے جُوجھنے کے لیے۔ یہ ہمارے لیے نہیں۔ اپنے دوستوں سے باتیں کرتے رہیں۔ ان سے نجی نوعیت کے سوال کریں۔ مجھ پر اعتبار کریں، آپ کی اپنے اندر لائی یہ تبدیلی زندگیوں کو بچا لے گی۔”

About سیّد کاشف رضا 27 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔