بون گلوبل میڈیا فورم اور اغواء شدہ پاکستانی میڈیا
از، یاسر چٹھہ
پچھلے کچھ برسوں سے سید کاشف رضا گرمیوں میں چھٹیاں منانے دیارِ مغرب چلے جاتے ہیں۔ اس بار ابھی گرمیاں پوری طرح آنے بھی نا پائی تھیں کہ صاحب سیدھے جرمنی چلے گئے۔ جرمنی کے شہر بون جا کر کیا کیا دیکھتے ہیں، وہ سب تو ابھی نہیں بتایا، لیکن کچھ کچھ بتا رہے ہیں:
“بون یورپ میں میری سیاحت کا پہلا پڑاؤ ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہاں منعقد ہونے والا گلوبل میڈیا فورم ہوتا ہے۔ اس مرتبہ جی ایم ایف کے سیشن بھی لا جواب تھے۔ فورم کا موضوع تھا، “میڈیا میں طاقت کے مراکز میں تبدیلی۔” متعدد سیشن چشم کُشا ثابت ہوئے۔ مختلف ملکوں کے صحافی اپنے اپنے ملک میں صحافت کو درپیش مسائل کا رونا روتے رہے۔
ہمارے لبرل دوستوں کو مُژدہ ہو کہ ان افسردہ صحافیوں میں بنگلہ دیش کے بھائی سَرِ فہرست ہیں، اور میرے اس مؤقف کی تصدیق کر رہے ہیں کہ جمہوری اور انسانی آزادیوں کو چھین کر اگر کسی ملک میں اقتصادی ترقی ہو تو آمریت کے سفاک سایے اور بھی دراز ہو جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش اور ترکی اس کی مثال ہیں اور نواز شریف کو رخصت کرنے والوں نے بھی یہی ماڈل سوچا ہوا تھا جو نا کام رہا۔
اس بار کے فورم میں یہ اتفاق کیا گیا کہ اب سوشل میڈیا اطلاعات (غلط یا درست) تک رسائی کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ ایک سیشن میں انکشاف کیا گیا کہ عوام سب سے زیادہ معلومات فیس بک یا ٹوئٹر سے نہیں، وَٹس ایپ پر حاصل کرتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کی مالک روبوٹ صوفیہ گلوبل میڈیا فورم پر چھائی رہی۔ صوفیہ ہر سوال کا جواب دے سکتی ہے، اور رُوٹین کی صحافت بھی کر سکتی ہے۔ انسان نے صحافت کرنی ہے تو اسے کم از کم صوفیہ سے بہتر ہونا پڑے گا۔
مگر لگتا ہے کہ ہمارے صحافی اور عوام صوفیہ سے بھی کم تر ہیں جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوئے مگر صرف وہی کچھ مُنھ سے بول سکتے ہیں، جو ان کے چھوٹے چھوٹے دماغوں میں فیڈ یا پروگرام کر دیا گیا ہے۔”
تجسس تھا، یا پھر مزید تصدیق کی خواہش، سید کاشف رضا سے جب اس بابت بات ہوئی تو انہوں نے اس مسئلہ پر تفصیلی کہنے لکھنے کا عبوری وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت وہ مصروفیت کی وجہ سے اس معاملے پر مزید تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں۔
بَہ ہر کیف، حالات ارد گرد ایسے ہیں کہ پاکستان کے مرکزی ذرائع ابلاغ پر روز بَہ روز اعتماد ختم ہوتا جاتا ہے۔ راقم نے پہلے تو ٹی وی دیکھنا متروک کیا، بعد میں اخبارات بھی کرنا پڑے۔ حالاں کہ مڈل اور ہائی سکول کے زمانوں میں کم از کم تین چار اخبارات پڑھنے کی عادت تھی۔ اب جو کبھی کبھار موازنے کے لیے دیکھتا ہوں تو محض اس لیے کہ کون سا میڈیا گروپ کتنا اپنی ہی نظروں سے گِر گیا ہے۔
بون میڈیا کانفرنس والے دوستوں نے سوشل میڈیا کو رسائی کا اہم ذریعہ باور کیا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا سے یا وٹس ایپ سے موصولہ اطلاعات کی چھان پھٹک اور صداقت کے پیمانے بھی پوری طرح وضع نہیں ہو پائے۔ میڈیا لٹریسی سے بے بہرہ افراد و عام صارف غیر مصدقہ اطلاعات پر دیوانے ہوئے پھرتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے بھی کوئی چیز جانچنے کے لیے اچھی خاصی محنت اور فکری محنت لگانا پڑتی ہے۔ مرکزی و قومی میڈیا ویسے اغواء کاروں کے ہاتھ ہے۔
لمبی سانس لیتے ہیں تو خیال آتا ہے۔ اور آج کل تو عجب ہی خیال آتے ہیں، دن جو عجب ہی ہیں۔ پاکستانی میڈیا کو کیا ہوا؟
ذہن میں الجھن و خیال یہ ہے کہ جب آپ اپنے عوام تک متبادل مؤقف نہیں پہنچنے دیتے تو اس کے چند ایک ممکنہ احوال یہ ہو سکتے ہیں:
١. آپ کا مؤقف کم زور ہے، اس میں جَھول ہیں
٢. آپ کو اپنی عوام جاہل لگتے ہیں
٣. آپ اپنے عوام سے دھوکا کرتے ہیں
٤. آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے اپنی تعلیم کے ذریعے انہیں صحیح غلط، درست، نا درست، متوازن، عدم متوازن کی تمیز نہیں سکھائی
٥. آپ کو جواب دہی سے انتہائی خوف آتا ہے
٦. آپ کو اپنے لکھاری، چمتکاری المعروف معتدل یا سنجیدہ دانش ور اندھے بہرے اور کانے لگتے ہیں
راقم کو تو بَہ طورِ شہری اور اور اس دھرتی کے صدیوں کے باسی کے ایسا قبول نہیں۔
کیا آپ کو ہے؟ ہے تو آپ کی عزتِ نفس کے اپنے معیار، ہمارے اپنے معیار