تبصرہ و تجزیہ کتاب افسانوی مجموعہ اضطراب از افشاں ملک، بھارت
روما رضوی، تبصرہ کار
کسی فلسفی کا کہنا ہے کہ ”اگر انسان اپنی نسیان کی طاقت سے کام نہ لے تو ماضی کے محرکات اس کی زندگی پر محیط ہوجائیں اور پھر وہ تا عمر مایوسی، اضطراب اور تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔“
یا اضطراب اگر کسی اور طرح اثر انداز ہو تو اندر موجود بے چینی کسی پل بھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ اسی اضطراب کو اگر ایک توانائی سمجھ لیں تو ایک صورت جنون بھی بن سکتی ہے۔ اسی جنوں کو کسی تحریک کا باعث بنا دیا جائے تو تاریخ معرکوں سے پر نظر آنے لگتی ہے۔
جیسے لکھنے والے نے خود بھی کہا ہے کہ:
“میرا ادبی کمٹمنٹ انسان اور اس کے فلاحی پہلوؤں سے ہے۔ میں بلا تفریق مذہب و ملت رنگ و نسل ملک و معاشرہ۔ ایسی دنیا کا خواب دیکھتی ہوں جہاں ظلم اور نا انصافی نہ ہو۔ بچوں کو فکر معاش نہ ہو جہاں بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے انسان کو سمجھوتے نہ کرنے پڑیں۔”
اس بیان کی بازگشت افشاں ملک صاحبہ کی لکھی ہر کہانی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ خوش آئند یہ ہے کہ وہ عورت کو ایک نئے روپ میں ڈھلتے دکھاتی ہیں، جہاں وہ احساس کے ساتھ ساتھ فیصلوں پر بھی اختیارات اور عبور رکھتی ہیں۔ جیسے “گود لی ہوئی ماں” کی اماں صابرہ خاتون بچوں کے ملک سے چلے جانے کے بعد کثیر دولت کے باوجود تنہائی دور کرنے کے لیے اولڈ ایج ہوم کو ساری دولت عطیہ کر دیتی ہیں اور وہاں جا بستی ہیں۔
اسی طرح “شہر وفا میں تلاطم ” کی ریشماں مرتے ہوئے شوہر اور بے آسرا بچوں کے لیے ایک سخت فیصلہ کرتی ہے اور شوہر کی موت کو آسان کر دیتی ہے۔ ان افسانوں پر تبصرہ کرتے نجمہ محمود صاحبہ کا کہنا درست لگا کہ:
“افشاں ملک کی لکھی کہانیاں سرسری پڑھنے والی نہیں ہیں بلکہ ان میں جہانِ دیگر کی کار فرمائی ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ انہیں پڑھ کر مجھے اپنے آنسووں کو پینا پڑے گا۔ تاکہ ان کی بے حرمتی نہ ہو۔ یہ کہانیاں اشاروں کنایوں میں بہت کچھ کہتی ہیں چشم بینا، اور ذہن و دل کی کھڑکیاں کھلی ہوں تو بہت کچھ دکھاتی بھی ہیں۔ بیشتر افسانوں میں مرد کی نفسیات کی عکاسی بہت فطری انداز میں کی گئی ہے۔ کسی بھی فن پارے کی گہرائی میں جانا اور جوہر تلاش کرنا صبر آزما ہے جس کے لیے وقت اور ہمت دونوں درکار ہیں۔”
کئی ہم عصر مصنفین نے اس کتاب پر خوبصورت تبصرے لکھے ہیں، لیکن نجمہ محمود صاحبہ کا تبصرہ ایک عورت ہونے کے ناطے بہت دل کو لگا۔
اسی حوالے سے نسیم سید صاحبہ کا کہنا ہے کہ:
“افشاں کے افسانوں میں sharp ending کی تکینیک کا کامیاب تجربہ نظر آتا ہے۔ اور افسانے کا انجام کوئی نہ کوئی گہرا پیغام دے جاتا ہے میں نے افشاں کو اس کے افسانوں میں پڑھا ہے یہ واقفیت ایک سرشاری ہے اور یہ سرشاری ہر اس قاری کو میسر آئے گی جس کے ہاتھ میں افشاں کے افسانوں کا مجموعہ ہوگا۔”
میں بھی اسی کیفیت سے دوچار ہوں اور افشاں کے لکھے ہر لفظ میں خود کو بھی دیکھ رہی ہوں۔ ان افسانوں میں لکھی کچھ کیفیات کسی نا کسی موقع پر ہم میں سے اکثریت پر گزری ہوں گی۔
نعیم بیگ صاحب بھی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ:
“ان کی ادبی سرشت میں کھوج اور تجسس کا ایسا جرثومہ پایا جاتا ہے جو آخر وقت تک تحقیق و تنقید کی زبان بولتا ہے۔ ریسرچ ان کا شوق ہے اور مکالمہ ان کا ادبی غلبہ جسے یہ ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔”
میرا بھی یہی ماننا ہے کہ افشاں ملک کہانیوں کا تانا بانا کچھ اس نہج پہ بنتی ہیں کہ قاری ایک نشست میں اسے ختم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مکالمے اور منظر نگاری اسے اپنی دنیا میں جذب کر لیتی ہیں۔ پھر قاری کردار کو اپنی موجودگی سے سہارا دینا چاہتا ہے۔
ایک اور قابلِ ذکر بات۔ خوبصورت زبان کا استعمال ہے جو ان کی تحریر کی ایک بڑی خوبی ہے جو مکالموں و حرکات و سکنات سے کردار میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔
افشاں کا اپنا ماضی بھی بہت متاثر کن ہے۔ ان کا اپنے اب و جد کے کتب خانے سےلگاؤ اور والدہ و دادی کے مشاغل مجھے ڈپٹی نذیر احمد کی لکھی کہانیوں میں لے گئے۔
ایک روایتی ادبی گھرانے کی نمائندہ ہونے کے ناتے وہ ایک پراعتماد لکھاری ہیں۔ وہ اپنے افسانوں می وہی دنیا دکھا رہی ہیں جو ان کی من چاہی ہے۔ دکھ درد کا سدباب کرتی، نفسیاتی گتھیاں سلجھاتی، جھکی ہوئی نگاہوں کو اعتماد عطا کرتی ہوئی کہانیاں، جن میں عورت اشک فشانی کرتی خاموش نہیں۔
بلکہ اس یقین کے ساتھ نظر آتی ہے جو ہر انسان کو ایک پہچان عطا کرتا ہے۔ پھر بحثیت ایک فرد اس کی یہ پہچان یقین میں بدلتی ہے اس طرح اس کی پر اعتماد زندگی اس کی مجبوری معذوری کو پس پشت ڈال کر اسے فعال کر دیتی ہے۔
افشاں جیسی قابل فخر دوست کے لیے ہی شاید سعید جمال صاحب کا کہنا ہے:
زرد چہرے کا آہ سے ناتہ
تو پکارے تو مسکرائے گا
شُعلہِ طور کاغذی دنیا
دستِ موسی اسے بجھائے گا
سبز دامن میں سرخ پھول بھرے
وہ میرا خستہ گھر سجائے گا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.