اکیس دن کی خاموشی کے بعد
از، بلال مختار (آسٹریلیا)
گذشتہ دس سالوں میں بہت سے ایسے لکھاریوں سے علیک سلیک کا موقع ملا ہے، جو اپنے بچپن کو یاد کرتے ہیں۔کوئی روایات سے ہٹ کر نئے چلن کی بات کرتے ہیں، وہیں کسی کے ہاں انفرادیت کے پودوں سے خیالات کا باغ بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اِمسال ایک ایسی لکھاری کو پڑھنے کا موقع ملا، جنھوں نے اپنے قارئین کو اک نئے ڈگر پہ لانے کی سعی کی ہے۔ گو وہ اس فکری و تخلیقی میدان میں نو وارد ہیں، مگر ان کی اوّلین کتاب، ’سفید پھولوں کا تاج‘ ان سے جڑے بہتر مستقبل کی خوش بُو دیتی ہے۔ محترمہ تہنیت آفرین کے قلمی نام میں مَلک کا اضافہ ہے۔ وہ 14 نومبر 2001ء کو منڈی بہاؤ الدّین میں پیدا ہوئیں۔ تعلیمی اعتبار سے شعبۂِ اسلامیات میں بی ایس کر رکھا ہے۔ ان کی دو کتابیں شایع ہو چکی ہیں:
ا): سفید پھولوں کا تاج (شاعری)
ب): نمود (سائنس فکشن ناول)
دو کتب انھوں نے بہ طورِ مؤلف لکھی ہیں۔ جن کے نام درج ذیل ہیں:
Rays of Dreams
The Door of Heaven
مشہور سوئس ماہرِ نفسیات کارل ینگ کہتے ہیں:
”اجتماعی لا شعور کا ہماری زندگیوں پہ گہرا اثر ہوتا ہے۔ایک ایسا لا شعور جو علامات اور تجربات سے معنویت کا لباس اوڑھتا ہے۔“
ان اثرات میں ہمارے دبے سے احساسات ہوتے ہیں، پوشیدہ یادیں، عادات اور خواہشات کا ملاپ ہوتا ہے۔اسی نُکتے کو تہنیت نے اپنی اک نمائندہ نظم میں کچھ یوں بیان کیا ہے:
”…وہ جلتے تمام خطوط جو راکھ دان کو بھر رہے ہیں
سلاخ تاباں کو دھندلا دیں گے
شمار کنندہ تجدید کے اصول کو دہرا رہا ہے
لیکن،
میں تمھیں وہاں سے مٹادوں گی
ہر وہ رنگ پہن لو ں گی جو تمھیں پسند نہیں
ہر وہ خوبی مٹاتے ہوئے
کبھی تم نے جس کی تعریف کی تھی…“
(بہ حوالہ نظم: اکیس دن کی خاموشی کے بعد)
ان کی ایک دوسری نظم بانجھ دکھ مجھے ٹی ایس ایلیٹ کی ایک خوب صورت نظم کی یاد دلاتی ہے۔ جس میں شہر میں پھیلی دھند کو وہ اک بلی سے دل کش انداز میں موازنہ کرتے ہیں:
“The yellow fog that rubs its back upon the window-panes,The yellow smoke that rubs its muzzle on the window-panes…”
“The Love Song of J. Alfred Prufrock”
اس نظمیہ حوالے کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ دھند اک بلی ہے جو شیشے پہ اپنی دم رگڑ رہی ہے۔ پھر اپنی ناک شیشوں سے مَس کر رہی ہے۔ ایسا ہی کچھ ادبی استعمال تہنیت صاحبہ کے ہاں یوں ملتا ہے:
”بھوری بلی کے قدموں کی آہٹ کی طرح
سرما کی اداس دھوپ بہت خامشی
سے ڈحل رہی ہے…“
( بہ حوالہ: بانجھ دکھ: نومبر 2023ء)
شاعری میں سرخ رنگ کی بہت اہمیت ہے۔ بالکل ایسے جیسے دیگر رنگ اپنے اپنے معنی لے کر ادبی دنیا میں نمو دار ہوتے ہیں۔ وہیں لال رنگ محبت، بغاوت، خون، غم، خوف اور دیگر احساسات کی سیاق و سباق کے حساب سے ترجمانی کرتا ہے۔ ایسے میں مذکورہ بالا شاعر کے ہاں ایک نظم میں سرخ رنگ کو تین مختلف مقامات پہ تین الگ روپ میں جگہ دی گی ہے۔
یہ اک دل کش اشارہ ہے کہ کیسے سرخ رنگ اپنی کیفیت و معنوِیّت کی سچویشن کے حساب سے بدلتا جاتا ہے۔
سرخ!
وہی رنگ ہے
حالاں کہ درخت کھڑے ہیں اور ان کے پتے زردی اوڑھے چمک رہے ہیں
مواصلاتی محبت کی سکرین پہ
ابھرنے والا سرخ دل!
بے ترتیب دھڑکنوں کو ترتیب دیتا ہے
ایک ڈیجیٹل کلِک!
…پرانی کتابوں کے پنوں میں چھپا جھانکتا سرخ پھول
یعنی محبت سرخ ہی ہے
سرخ کی جگہ نہیں بنتی
تازہ قبر پہ،
لیکن شاید
اس کی اصل جگہ وہی ہے
محبت موت کا بہروپ ہی تو ہے
(بہ حوالہ: سفید پھولوں کا تاج)
مذکورہ بالا نظم میں سرخ رنگ نے تین الگ احساسات کا روپ ڈھالا ہے۔
ا): جدید رابطوں کی دنیا میں سوشل میڈیا سائیٹس پہ سرخ رنگ کا دل والی ایموجی کے طور پہ استعمال ہونا۔
ب): سرخ گلاب جو کلاسیک زمانوں کا مرکزی استعارہ ہوا کرتا تھا۔
ج): اور قبر پہ رکھے ان ہجر و وصال بھرے احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔
جدید دنیا میں محبت کے گلاب نے کتاب کے پنوں سے سکرین کے اِن-باکس تک اپنی جگہ بنالی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ گلاب جو کتابوں میں ملا کرتے تھے، اب ویسی کیفیت و جذبات میں اڑان نہ دیتے ہوں جیسے چیٹ کرتے ہوئے بِنا کچھ کہے یا لکھے اک سرخ گلاب سکرین پہ آویزاں ہو جائے۔
یاد ہے اب تک مجھے وہ بدحواسی کا سماں
تیرے پہلے خط کو گھنٹوں چومتا رہتا میں،
آج امجد وہم ہے میرے لیے جس کا وجود
کل اسی کا ہاتھ تھامے گھومتا پھرتا تھا میں
(امجد اسلام امجد)
المختصر، نوجوان ادیب تہنیت آفرین ملک نے انسانی احساسات کو جدیدیت کے روپ میں پیش کرنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔ یہ ان کا شروعاتی ادبی سفر ہے۔ ہمیں ایسا نوجوان ادبی قافلہ چاہیے جو آج کے بدلتے خیالات کا آج ہی کی زبان میں کرافٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔ بلا مبالغہ تہنیت کے کلام میں مذکورہ خصوصیات جا بہ جا ملتی ہیں۔