آج ایک پروفیسر اپنے بچوں کی فیسوں کے لیے قرض لے رہا ہے؟
ڈاکٹر نوید اقبال انصاری
ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں ماڈرن انسان پر تین بڑے بوجھ ہوتے ہیں، ایک رہائش، دوسرا علاج و معالجے کا اور تیسرا تعلیم کا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رہائش اور علاج و معالجے میں تو واقعی بڑا پیسہ درکار ہوتا ہے مگر تعلیم پر بڑے اخراجات کا اندازہ ہمیں چند روز پہلے اس وقت ہوا جب ہم نے اس ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے دو پروفیسروں کی گفتگو سنی، جس میں ایک کی شکایت یہ تھی کہ اس کے بچوں کی فیس پندرہ ہزار سے بڑھا کر یکدم چھبیس ہزار کردی گئی، والدین کے احتجاج کے باوجود کچھ بھی نہیں ہوا۔
دوسرے کا شکوہ تھا کہ انھیں اپنے بچوں کی دو ماہ کی فیس ایک لاکھ نوے ہزار جمع کرانی ہے، جس پر وہ اور تمام والدین ایک جانب اسکول انتظامیہ کے خلاف احتجاج کی تیاری کر رہے ہیں تو دوسری جانب قرض کے حصول کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ ہی عرصے قبل ہمارے ایک پروفیسر دوست نے بتایا کہ انھوں نے ابھی اپنی چھوٹی بچی کو نرسری میں داخلہ دلوایا ہے جس کی مد میں انھوں نے پچاس ہزار روپے جمع کرائے ہیں۔
دوسری طرف ہم نے ٹی وی کھولا تو معلوم ہوا کہ کئی چینلز پر والدین کے احتجاج کی خبریں چل رہی ہیں، جنھیں شکوہ ہے کہ اسکول انتظامیہ نے بغیر بتائے اچانک اسکول کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے، جس کو وہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ تمام باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ ماڈرن ازم کے اس جدید دور میں تعلیم کے اخراجات والدین پر ایک بہت بڑا بوجھ ہیں۔ پھر یہ بوجھ ایک طرفہ بھی نہیںہے بلکہ کتابوں اور کاپیوں کی شکل میں بھی اچھا خاصا بوجھ والدین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
متوسط طبقے یا مڈل کلاس کے لیے تعلیم کا یہ بوجھ ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔ ہمارے ایک شناسا پروفیسر کے چار بچے ایک درمیانے اور معیاری انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتے ہیں، جن کی ماہانہ فیس چوبیس ہزار بنتی ہے، اگر اس میں وین اور ٹیوشن کے اخراجات شامل کر لیے جائیں تو پھر یہ رقم تیس ہزار ماہانہ سے تجاوز کرجاتی ہے۔ ان پروفیسر کے مطابق اصل مالی مشکل تو جنوری، فروری، مارچ اور اپریل کے مہینوں میں ہوتی ہے، کیونکہ اسکول انتظامیہ جنوری اور فروری میں جون، جولائی کی چھٹیوں کی فیس ایڈوانس میں لے لیتی ہے، یعنی ان ماہ میں والدین کو ڈبل فیس ادا کرنا پڑتی ہے، اس کے بعد بچوں کا رزلٹ آتا ہے تو نئی کاپیاں اور کتابوں کے ساتھ بیگ بھی لینے پڑتے ہیں۔ کاپیاں اسکول سے ہی خریدنی پڑتی ہیں، صرف ایک بچے کی کاپیاں پانچ ہزار روپے میں ملتی ہیں۔ کتابوں کے وزن سے بیگ پھٹ کر بدحال ہوچکے ہوتے ہیں، ایک معیاری بیگ بھی لگ بھک دو تین ہزار کا ملتا ہے، ہزار والا بیگ ایک ہفتے بھی نہیں چلتا۔
[su_quote]یوں مارچ کے مہینے میں بھی ساٹھ ستر ہزار کا خرچہ لازمی ہوتا ہے، پھر اس کے بعد کے ماہ میں اسکول والوں کی جانب سے سالانہ چارجز کی وصولی کا نوٹس آجاتا ہے جو کہ فیس کی رقم سے دگنا سے بھی زائد ہوتا ہے، لہذا اس ماہ بھی ان پروفیسر کو ستر ہزار کے لگ بھگ فیس و چاجز جمع کرانا ہوتے ہیں۔ ان پروفیسر کے بقول یوں جنوری، فروری، مارچ اور اپریل تک ہر مہینے تقریباً ستر، ستر ہزار روپے بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنا پڑتے ہیں، چونکہ ان کی تنخواہ اس قابل نہیں کہ وہ یہ خرچ برداشت کرسکیں لہٰذا وہ پارٹ ٹائم ٹیوشن کی تلاش کرنے یا پھر کاپیاں چیک کرنے میں اپنے شب و روز گزار دیتے ہیں۔[/su_quote]
پروفیسر کی باتیں سن کر ہم سوچ میں پڑگئے کہ جدید عہد میں یہ کیسا ظلم ہے، یہ کیسا تعلیمی نظام ہے کہ ایک پروفیسر محض بچوں کے تعلیمی اخراجات کے لیے ادھار مانگتا پھرے یا پارٹ ٹائم کمانے کی فکر میں لگا رہے، حالانکہ اس کاکام تو تحقیق کرنا اور ملک و قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے کا ہے۔
کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ اس جبر اورظالمانہ نظام کے خلاف کوئی آواز بلند کیوں نہیںکرتا؟ آخر کسی کو ان معصوم بچوں کا خیال کیوںنہیںآتا جو بھاری بھرکم بیگ لیے سخت سرد اور گرم موسم میں گھروں سے نکلتے ہیں۔ یہ کون سا تعلیمی نظام ہے کہ جس میں ایک دو نہیں درجن بھر مضامین زبردستی ایک معصوم بچے پر لاد کر سی ڈبلیو، ایچ ڈبلیواور ٹیسٹ کاپیوں کے نام پر بیس بیس کلو وزنی بیگ بھر دیا جاتا ہے۔
پھر سب سے قابل غور بات یہ کہ ہم اپنے اس تعلیمی نظام سے کون سی پروڈکٹ حاصل کررہے ہیں؟ معاشرہ تو ہمارہ دن بدن وہی تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ اس قدر سرمایہ لگانے کے باوجود اس نسل کی تربیت کیا ہورہی ہے؟ کیا ہمارے اسکولوں کا طلبا کی تربیت میں کوئی کردار ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ کیا والدین اسکولوں میں بچوں کو صرف سند یا سرٹیفکیٹ لینے کے لیے ہی بھیجتے ہیں؟ کیا اتنا سارا سرمایہ والدین صرف اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ ایک سرٹیفکیٹ مل جائے؟ یا انگریزی کے دو لفظ بولنا آجائیں؟
یہ معمولی سوالات نہیں، بہت اہم ہیں جس میں ہماری پوری قوم پھنسی ہوئی ہے اور ہم ماڈرن ازم کے چکر میں آنکھیں بند کیے اندھی تقلید کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ آخر اتنی زیادہ فیسیں ادا کرنے پر ہمارے بچوں کو اسکول میں کیا سہولیات دی جا رہی ہیں۔ بیشتر اسکولوں میں تو بجلی جانے پر جنریٹر تک نہیں ہوتا، اگر ہوتا ہے تو چلایا نہیں جاتا، اسکول میں کھیلنے کودنے کے لیے کوئی میدان یا مناسب جگہ تک نہیں ہوتی، بچے کی جسمانی نشوونما کا کوئی سامان دستیاب نہیں ہوتا، بس انڈور گیمز کی کچھ سہولت دے دی جاتی ہیں۔
یہ اس معاشرے کا کریز (یا جنون) بن گیا ہے کہ ہر کوئی اپنے بچوں کو اچھے انگلیش میڈیم اسکول میں پڑھانا چاہتا ہے اور کاروباری انداز میں اسکول چلانے والے عوام کی اس ذہنی کیفیت سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اور والدین کو صرف یہ باور کراکر کہ وہ ان کے بچوں کو بہت اچھی انگریزی سکھائیں گے، والدین کی جیب سے خوب پیسے بٹور رہے ہیں۔ ہمارے ہاں کیونکہ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے لہٰذا تعلیم ہی سب سے اچھا منافع بخش کاروبار بنا ہوا ہے۔ حکومتی اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں کبھی کوئی ایسی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی کہ جس سے تعلیمی میدان میں اس لوٹ مار کو روکا جاسکے۔ یہ کاروبار اور لوٹ مار تعلیمی نظام میں ایک نرسری کی کلاس سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک جاری ہے۔
درحقیقت تعمیراتی اور میڈیا کے اداروں کے بعد اس ملک میں سب سے منافع بخش کوئی کاروبار ہے تو وہ تعلیم کا کاروبار ہے۔ یہ عوام کا بھی کام ہے کہ وہ اس گورکھ دھندے کو سمجھیں اور کم ازکم اس بات پر ضرور غور کریں کہ آخر وہ کیوں اپنے بچوں پر نرسری اور پری نرسری وغیرہ سے اس قدر دولت لٹا رہے ہیں؟ آخر وہ اس سب سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ان والدین کا مقصد صرف اچھی انگریزی کا حصول ہے، کیا وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ فر فر انگریزی بولے؟ یہ کام تو گھر پر کسی ٹیوٹر کو لگا کر بھی کیا جاسکتا ہے، صرف انگریزی کے لیے والدین اپنے گھر کا بجٹ کیوں خراب کر رہے ہیں؟ قرضہ لے کر بچوں کی اس قدر فیسیں کیوں ادا کر رہے ہیں؟
یہ آج کا ایک اہم ترین سوال ہے، آئیے اس کا جواب تلاش کریں اور اس سوال کا جواب بھی تلاش کریں کہ کیوں آج ایک پروفیسر اپنے بچوں کی فیسوں کے لیے قرض لے رہا ہے؟
بشکریہ: ایکسپریس اردو