بوسہ

Khizer Hayat
خضرحیات

بوسہ

از، خضر حیات

اُس کے گلابی ہونٹوں نے سُتواں ناک کے نیچے جو قوس تان رکھی ہے، جب میں اُس میں اپنی نرم سانسیں اُنڈیلوں گا تو جان نکل جانے کا بھی ڈر نہیں رہے گا۔

ہمارا درجہ الہامی اور ہماری حالت روحانی ہو جائے گی۔

ہم فضاؤں میں تیرنا شروع کر دیں گے۔

فرشتے ہمارا طواف کرنے لگیں گے۔

ہم دونوں اس خاکی جہان سے ماورا ہو جائیں گے۔

شاید ہمارا ٹھکانہ ساتواں آسمان ہو یا عرش بریں۔

میری عمومی شخصی حیثیت ختم ہو جائے گی

تم بھی خاص الخاص بن جاؤ گی

محبت جسے منتخب کرلے وہ عام رہ ہی نہیں سکتا۔

آسمان و زمین جو صدیوں سے آمنے سامنے کے ہمسائے ہیں مگر آج تک لب نہیں جوڑ سکے ہم پہ رشک کرنے لگیں گے۔

فرشتے پھول برسائیں گے

وقت آگے بڑھنا ہی بھول جائے گا

دھڑکنیں سینے کی صندوقچی میں دھماچوکڑی مچا دیں گی

سانسیں صندل میں غسل کرکے خوشبودار ہو جائیں گی

میری نرم ہتھیلیوں میں تمہارے زندگی سے بھرپور اور پکّے اناروں کے جیسے گال لیمپوں کی مانند جگمگا اٹھیں گے

تمہاری نیم وا، نیم مدہوش آنکھیں طلسماتی نگاہوں سے ماحول کو اور بھی طلسماتی بنا دیں گی۔

آنکھوں کی کھڑکیوں سے جھانکتی نظروں کو سب کچھ ہی مقدس نظر آنا شروع ہو جائے گا۔

مسرت سے سرشار اور مستی میں نہال تمہارا رُواں رُواں ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کر ناچنا شروع کر دے گا

ہونٹ ایسے ہونٹوں سے ملیں گے جیسے صدیوں کی مسافت طے کرکے وہ کسی طے شدہ منزل پہ آن پہنچے ہوں

جیسے بھولے بھٹکے اور در در ٹھوکریں کھاتے مسافر بالآخر کوئی گھر ٹھکانہ پانے میں کامیاب ہو گئے ہوں۔

جیسے زمانوں تک طوفانی لہروں سے لڑتے جھگڑتے تیراک بالآخر ساحل کی زندگی بخش زمین پر آن اترے ہوں۔

لبوں کے بغل گیر ہونے والا یہی وہ لمحہ ہے جسے مدتوں مقدس لمحے کے طور پہ یاد رکھا جانا چاہیے۔

اور رکھا بھی جائے گا۔

اسی لمحے کا جادو ہوگا کہ ہمارے لیے بعد کی دنیا بہت مختلف روپ دھار لے گی۔

پھول ہمیں زیادہ تازہ دم لگنے لگیں گے۔

سبزہ جیسے جہان بھر کی ہریالی اوڑھ لے گا۔

موسم دنیا جہان کے رنگ اپنے آنچل میں ڈال کے لے آئیں گے۔

جنگل جنگل اڑتے بادل ٹھنڈی ہواؤں سے سرگوشیاں کرنے لگیں گے۔

کائنات نئی نویلی ہو جائے گی۔

چراغ کی لَو مزید اونچی ہو جائے گی اور نور برساتی روشنیاں خوشبودار ہو جائیں گی

آسمان ہم سے دوستی کرلے گا

اور دھرتی ہمارے لیے پہلے سے بھی زیادہ نرم دل بن جائے گی

کائنات ہمیں ہیر رانجھے کی طرح دُلارے سمجھنے لگے گی

دنیا ہمیں ماتھے کا جُھومر بنا لے گی

زندگی ہمارے ساتھ دوستی گانٹھنے کے بعد اپنے تمام تر راز ہماری چوکھٹ پہ اگل دے گی۔

اور موت ہماری جنم جنم تک ساتھ رہنے والی سہیلی بن جائے گی۔

پھر تم اور میں چاہیں تو آخر تک اس کائنات کے دولہا اور دلہن بن کے رہیں گے۔

اور جب آخری مرنے والے ذی نفس کو بھی ہم اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار لیں گے تو

چاہے یہیں محبت کی بستی بسا کر آباد ہو جائیں گے۔

اور چاہے تو فرشتوں کے پہرے میں پوری شان سے چلتے ہوئے جنت کے باغات کو اپنا مسکن بنا لیں گے۔

محبت ہمیں لازوال بنا دے گی اور بوسہ ہمیں لافانی۔