بریکنگ نیوز : صحافتی اداروں کے ملازمین کو موضوع بناتی ایک کہانی
عفّت نوید
بائک چلاتے ہوئے اس کا ذہن بھی مسلسل چل رہا تھا، آج اس نے اپنی بیوی پر پھر ہاتھ اٹھایا تھا۔ اس کے لیے وہ اپنے آپ کو تاویلیں دے رہا تھا مگر خود کو مطمئن نہیں کر پارہا تھا، سامنے سے آتی ہوئی ایک بڑھیا کو دیکھ کر اس نے بائک آہستہ کی اور انہیں ایک ہاتھ سے سڑک کراس کرنے کا اشارہ کیا، نا ہموار سڑک پر اس کی سوچیں بھی دائیں بائیں ہچکولے لے رہی تھیں۔
اسے معلوم ہے میں اس سے کتنا پیار کرتا ہوں. بچوں کی خاطر اسے سکون دینے کے واسطے کیسا ذلیل ہوتا ہوں۔ کیسے اپنی تنخواہ لینے کے لیے ایک ایک سے کہتا ہوں روز آسرا دے کر روز مایوس کیا جاتا ہوں۔ تنخواہ نہ ملے پر خبر وقت پرچاہیے، گھرواپسی کے لیے اکثر بائک میں پیٹرول تک کے پیسے نہیں ہوتے۔ کبھی ایک کی طرف دیکھتا ہوں کبھی دوسرے کی طرف چائے کی کتنی طلب ہوتی ہے، سوچتا ہوں دو گھونٹ پی لوں تو جسم میں طاقت آجائے، سستی دور ہو جائے، پر جیب میں بیس روپے نہیں ہوتے، دن بھر کیا کیا کرتا ہوں کیا وہ نہیں جا نتی۔ مجھے احساس ہے بُرا کرتا ہوں اس کے ساتھ۔ پر روزانہ اس کی ایک ہی رَٹ کہ وہ نوکری کرنا چاہتی ہے۔ بے کار بات کرتی ہے کیسے کرے گی۔ فرہاد دوسال ہی کا تو ہے اس کے بغیر تھوڑی دیر نہیں رہتا، کہتی ہے امی کے پاس چھوڑ کر جائے گی۔ اتنی خواری کیسے اٹھائے گی وہ۔
اویس ماہی ایک نیوز چینل میں کیمرہ مین تھا۔ ملک میں فیکٹریاں بند ہو رہی تھیں اور نیوز چینل کُھل رہے تھے۔ نبی سرکار ﷺ نے بھوک رکھ کر کھانے کی ترغیب دی ہے۔ ہمارے دولت مند بھوکا رکھ کر حلق تک بھر لیتے ہیں۔ کھانا زیادہ کھا لیا جائے تو متلی ہونے لگتی ہے، اور جب تک الٹی نا ہو جائے چین نہیں آتا۔ جب پیسہ زیادہ آجائے تو لوگوں کو بدہضمی ہو جاتی ہے اور وہ اسے کسی نہ کسی طرح الٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ الیکشن لڑنے کے لیے پیسہ لگاکر اپنا پیٹ ہلکا کرتے ہیں، کچھ الیکشن لڑنے والوں پر پیسہ لگاکر ہاضمہ درست رکھتے ہیں اور کچھ چینل کھول کر قے کر دیتے ہیں۔ اس کی سڑاند دور دور تک پھیل جاتی ہے، مگر پھر ریٹنگ اسکیل سے اس سڑاند کا تجزیہ کیا جاتا ہے، جتنے لوگوں تک اس کی سڑاند پہنچتی ہے اس کے حساب سے اس چینل کی کامیابی کو جانچا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں یہ چینل اور اخبار مالکان اپنے ملازمین کو تنخواہ دینا بھول جاتے ہیں۔
صبح ہی مالک مکان آیا تھا اور پندرہ دن کے اندر مکان خالی کرنے کا نوٹس دے گیا تھا۔ اُس کے جاتے ہی گُھما پھرا کر وہ اپنی بات نوکری پر لے آئی تھی، اسے شدید غصہ آگیا۔ اس نے اس کے منہ پر ایک تھپڑ جَڑ دیا اور گھر سے باہر نکل گیا۔ بائک پر جاتے ہوئے سارے راستے وہ اپنی اس واہیات حرکت کے بارے میں سوچتا رہا۔ آفس پہنچتے ہی اس نے نادیہ سے معافی مانگنے کے لیے موبائل نکالا، مگر بیلنس ختم ہو چکا تھا۔ یہ اس کی محبت کی شادی تھی کتنی مشکلوں سے اس نے نادیہ کو حاصل کیا تھا۔ کیا اس دن کے لیے؟ اس نے یہ حرکت پہلی مرتبہ نہیں کی تھی لیکن ہر بار وہ اسے معاف کر دیتی تھی۔ ریسیپشن پر لینڈ لائن سے فون کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا، اسی وقت خالد آگیا وہ نیوز ڈائریکٹر تھا۔
اتنی دیر سے آئے ہو، چلو ایک ایشو کور کرنا ہے۔
بھائی میں کہیں نہیں جا رہا، مجھے ہر صورت میں آج تنخواہ کا چیک چاہیے۔
یار آفاقی صاحب نے بطورِ خاص مجھے یہ ایشو کور کرنے کے لیے کہا ہے۔ ابھی چلو، ورنہ کسی اور چینل پر پہلے چل جائے گی۔ دانیال پہلے ہی جاچکا ہے اسی نے واقعہ رپورٹ کیا ہے۔
میں خود بات کرتا ہوں، آفاقی صاحب سے۔
ارے کیا ہو گیا ہے، میٹنگ کر رہے ہیں وہ۔
مجھے کچھ نہیں معلوم، واپسی پر ہمیشہ دیر ہو جا تی ہے، مجھے آج ہی پیسے چاہییں۔
یہ کہتا ہوا وہ آفاقی صاحب کے کمرے میں داخل ہو گیا۔
آفاقی صاحب اسے دیکھ کر چونک گئے۔ کسی لوئر اسٹاف کی اتنی ہمت کے ڈائریکٹ ان کے کمرے میں دندناتا ہوا گھس جائے۔
آفاقی نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
ذرا فاصلے پر صوفے پر بیٹھا ہوا نیوز پروڈیوسر آغا فیاض جو آفاقی کاداماد تھا، اسے دیکھ کر چونک گیا۔
ارے تم ابھی تک گئے نہیں، جلدی جاؤ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے وقوعہ، اس کمبخت نے اپنی بیوی کو مار مار کر ادھ موا ہی کر دیا ہے۔ دانیال نے رپورٹ دی ہے کہ میاں غریب آدمی ہے، اور بیوی اس سے پیسے مانگتی رہتی ہے۔
سر تین مہینے سے تنخواہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اویس ماہی نے آفاقی کی طرف دیکھا۔
مل جائے گی، مل جائے گی۔ مگر پہلے جا کر اس کمزور عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو تو عوام کے سامنے لے کر آؤ۔ آغا فیاض نے کھڑے ہو کر اس کو کاندھا دبایا۔
آج سخت ضرورت ہے، اگر آج نہیں ملی تو شاید کل میں آفس بھی نا آ سکوں۔
دھمکی دے رہے ہو، تم جس چینل سے آئے ہو، وہ کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔۔ ہاں ہر لمحہ نیوز چینل۔ وہاں بھی تو تمہاری دو مہینے کی سیلری رکی ہوئی ہے، تم نے اسی لیے چھوڑا ہے نا اس چینل کو۔ جاؤ ان سے نکلواؤ پہلے پیسے۔
آفاقی نے آغا کو خاموش رہنے کاشارہ کیا
ہمارے چینل پر کبھی اتنا لیٹ نہیں۔ ہوا پہلی مرتبہ ایسا ہوگیا۔
جی میں نے یہی سن کر پچھلا چینل چھوڑا تھا۔
دیر سویر ہر ادارے میں ہو جاتی ہے، مگر کام کا حرج نہیں ہونا چاہیے۔ آفاقی نے نرم لہجے میں اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
جاؤ فوراً وقوعہ پر جاؤ۔ اس ظالم کا مکروہ چہرہ اور اس کے تاثرات ضرور ریکارڈ کرنا۔ ابھی وہ وہیں موجود ہے۔ پولس بھی نہیں پہنچی ہو گی، تم ذرا ٹھیک اینگل سے عورت کو دکھانا، اور گھر کی ایک ایک چیز کو فوکس کرنا، دو گھنٹے بعد بارہ بجے کی خبروں میں اسے چلانا ہے، دیکھنا کیسی ریٹنگ آئے گی۔ جنگلی لوگ کمزور پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ بزدل سالے۔ آفاقی کے لہجے میں اب عالمانہ رعونت تھی۔
ٹھیک دو گھنٹے بعد بارہ بجے کی خبروں میں بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔
ہر لمحہ نیوز چینل کا مالک، محمود پان والا ٹی وی دیکھتے ہوئے چونک پڑا۔ اس نے ایک نمبر ڈائل کیا۔
یار یہ بریکنگ نیوز میں کس قسم کی خبر چلائی جا رہی ہے۔ روکو اس خبر کو۔ روک دو فوراً۔
سر وہ جو ہمارا مخالف چینل ہے نا، آج ہم نے اس کی ایسی خبر بریک کی ہے کہ سر دیکھیے ریٹنگ دیکھیے، سب سے پہلے ہم نے بریک کی ہے یہ خبر
ایک جوشیلی آواز اس کے کان سے ٹکرائی۔
او دماغ خراب ہے تمہارا، اس کے کیمرا مین نے اس کا سر پھاڑ دیا ہے، اور تمہیں یہ بریکنگ نیوز لگ رہی ہے۔ محمود پان والا نے اپنا ہاتھ زور سے میز پر مارا۔
مخالفت اپنی جگہ لیکن چینلز ایک دوسرے کے مفاد کا خیال نہ رکھ پائے تو! پھٹے ہوئے سَروں کی بریکنگ نیوز کتنے دن چلا پائیں گےہم۔ نہ چینلز رہیں گے، نہ بریکنگ نیوز۔