ہمیشہ ادھورا رہ جانے والا ایک مکالمہ
از، یاسر چٹھہ
“کانوں اور پیٹ کا پکا ہونا، شخصیت کی پختگی کے بنیادی ستون ہوتے ہیں۔”
“کیا کہہ رہے ہو سر جی؟ جو بھی کہتے ہو میرے تو سر کے اوپر سے ہی گزر جاتا ہے۔ تھوڑی آسان بات نہیں کر سکتے، پروفیسر صاحب!”
“اس پنجابی محاورے سے نُچڑے جملے کا مطلب ہے کہ ہر سنی سنائی بات پہ بغیر سوال جواب اور تحقیق کیے کان دھر لینا، اسے سچا مان لینا، اور آگے اپنے حلقۂِ اثر و احباب تک منتقل کر دینا۔”
“اچھا جی، تو اس سے کیا ہوتا ہے؟ کیا فرق پڑتا ہے سر جی؟”
“یہ دونوں چیزیں اگر کسی کی شخصیت میں موجود نہ ہوں تو بندہ کسی کے ہاتھوں بھی، کبھی بھی، کہیں بھی بونگا بن سکتا ہے۔ اور اگر ایسا بندہ رہنمائی کے سنگھاسن پر براجمان ہو تو معروف پنجابی لطیفے والی سکھ ماں کی طرح پورے کے پورے پنڈ کی پڑھی لکھی جوانیاں بھی بونگی بن سکتی ہیں۔ اسے کہا جاتا ہے کہ تنقیدی شعور نہیں ہے، معلومات کے ذرائع کو پرکھنا نہیں آتا!”
“ہیں جی! یہ جو آپ کہہ رہے ہیں تنقیدی شعور، یہ نہ ہو تو کیا ہوتا ہے؟”
“جس معاشرے میں تنقیدی شعور کا فقدان ہوتا ہے وہاں:
۱۔ مقررِ شعلہ بیاں دانش ور کہلاتا ہے
۲۔ اونچی آواز میں بولنے والا مدلل کہلاتا ہے
۳۔ بات بات پہ مذہبی حوالے دینے والا، اپنی نمازوں کی کیفیت بیان کرنے والا، اونچی آواز میں دورود پڑھنے والا، دین والا کہلاتا ہے
۴۔ غازہ (کریم پاؤڈر) مَل کے آنے والا، بڑالے شیشوں والا برانڈڈ دھوپ کا چشمہ لگانے والا خوب صورت اور صاحبِ/صاحبۂِ نظر و فکر سمجھا جاتا ہے
۵۔ بار بار اپنی حلال کمائی کی قسمیں کھانے والا، دیانت دار کہلاتا ہے
۶۔ وزیرآباد والے سبطِ شاہ المعروف ڈبل شاہ جیسا کردار لوگوں کو بہ آسانی لبھا لیتا ہے
۷۔ زیادہ high potency کی اینٹی بائیوٹک دوائیں دینے والے ڈاکٹر زیادہ ہائی ریٹڈ دستِ شفائی والے طبیب کہلاتے ہیں
۸۔ مردانہ کم زوریوں اور لیکوریا کا گھنٹوں میں شرطیہ خاتمہ کرنے کے دعویٰ دار نیم حکیموں کو زیادہ مریض ملتے ہیں
۹۔ شرطیہ لڑکا پیدا کرنے والے پِیروں کے پاس جھمگٹا لگتا ہے
۱۰۔ چھ مہینے میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرنے والوں بازیگرانِ اعلیٰ کو بار بار حکومت ملتی ہے
۱۱۔ زیادہ رلانے اور جھگڑانے والے ذاکروں کو محرم پڑھنے کا ٹھیکہ ملتا ہے؛ زیادہ تیزی سے تکفیر کے فتوے کی فیکٹریوں کو عالمِ با عمل سمجھا جاتا ہے؛ حوروں اور غلمان کے ساتھ جلد ہی جلد لوٹ پوٹ ہونے کے لیے جیکٹ مارکہ خود کشیاں کی جاتی ہیں
۱۲۔ ضبطِ حمل کے طریقوں پہ عمل کرنے کو لذت کشیدگی میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے؛ اور کنواری مائیں اور ان کے غیر ذمے دار حرامی باپ ایدھی کے جھولے پاس فرزند رکھنے میں ہی اپنی شرافت پر داغ سمجھتے ہیں
۱۳۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر زیادہ C-Section کرتے ہیں
۱۴۔ نوے دن میں الیکشن کرانے والے تاجے حوالدار صادق اور امین کہلاتے ہیں
۱۵۔ آمروں کو ڈیڈی اور روحانی باپ کہنے والے genuine سیاسی لیڈر کہلاتے ہیں
۱۶۔ صرف مسلمان، پاکستانی کہلاتا ہے
۱۷۔ تین دن میں حکومت گرانے کے دعویٰ والوں کو انقلابی کہا جاتا ہے
۱۸۔ آنکھ جھپکنے میں ڈگری دینے والوں کا بازار سجتا ہے
۱۹۔ قبضہ مافیا والے خدا ترس اور غریب پرور سمجھے جاتے ہیں
۲۰۔ جن کو خود مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے وہ مصنف، دانش ور، تجزیہ کار اور اینکر بنتے ہیں؛ ہر تمباکو والا، بڑا سمگلر سنیارا، فیکٹری والا پبلشر اور چینل مالک بنتا ہے
۲۱۔ چٹکی بھرنے میں سیال کوٹ سے بھارت کی سپلائی لائن کاٹنے کے دعوٰی داروں کا چورن ہاتھوں ہاتھ جاتا ہے
۲۲۔ کارگل کا قلفہ بِکتا ہے
۲۳۔ بال پھینک کر فوراً ریویو کا تقاضا کرنے والوں کو aggressive کھلاڑی کہا جاتا ہے
۲۴۔ صرف کم کپڑے پہننے والیاں اور کافی کلب والے تن آسان و دماغ آسان لبرل کہلاتے ہیں؛ بڑھی داڑھی بال اور چرس والے مارکسٹ کہلاتے ہیں۔
“ہیں یہ تنقیدی شعور تو بڑی بلا کی چیز ہے؛ کہاں سے ملتی ہے؛ مجھے بیعت کراؤ کسی کے پروفیسر جی!”
“یہ بیعت ہونے سے نہیں ملتی؛ یہ اپنے من کے اندر جھانکنے سے ملتی ہے؛ یہ سوال اٹھانے سے ملتی ہے؛ یہ کانوں کا پکا ہونے سے ملتی ہے؟”
“یہ تو پھر نہ کرنے والی بات ہی ہوئی نا، سر جی؟”
“آسان ہی تو ہے، تھوڑی کوشش تو کرو بھئی! پکی پکائی چائے کی پیالی کو سُرکی لگانے کی بہ جائے اس پہ غور کرو کہ اس کے بننے میں کیا مراحل تھے؛ چیزوں کو توڑ پھوڑ کے ان کی ماہیت پتا کرو؛ ان ہی حقائق کو بیان کرو۔ عادت پڑ جائے گی دماغ استعمال کرنے کی۔ اور سب سے بڑھ کے کسی مسیحا کے آنے کا انتظار مت کرو، بَل کہ خود تبدیلی کے عامل بن جاؤ۔ کیوں کہ کسی سیانے ادیب نے کہا تھا کہ قابلِ رحم ہے وہ قوم جو اپنی نجات کے لیے کسی مسیحا اور ہیرو کا انتظار کرتی ہے۰۰۰اچھا بھئی میں اب چلتا ہوں!”
“سر جی مجھے آپ کی باتوں کی پوری سمجھ تو نہیں آئی، پر آپ کی باتیں ہیں بڑی دل کو لگنے والی! اچھا جی اللہ حافظ”
“جی، خدا حافظ”