بروشسکی ، تنہا اور منفرد زبان : یاسین میں بروشسکی شاعری کا ارتقائی دور

Ali Ahmed Jan photo
علی احمد جان، صاحبِ مضمون

بروشسکی ، تنہا اور منفرد زبان : یاسین میں بروشسکی شاعری کا ارتقائی دور

علی احمد جان

بروشسکی کا شمار گلگت میں بولی جانے والی قدیم ترین زبانوں میں ہوتاہے ۔ یہ زبان ہنزہ،نگر اور یاسین میں مختلف لب و لہجے کے ساتھ بولی جاتی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ان علاقوں میں بروشسکی زبان بولنے والوں کی تعداد 90،000 ہے اس کے علاوہ سری نگر میں بھی 300 بروشسکی بولنے والے بستے ہیں۔ روایات کے مطابق سب سے پہلے اس زبان پر کام 1870کی دہائی میں کپتان بڈلف نے کیاپھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے اس زبان پر کام کیا ۔ ان میں لفٹنٹ کرنل لاریمر، جرمن پروفیسر جارج برگر(1962)، علامہ نصیر الدین و دیگر قابل ذکر ہیں۔

جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف کے تحقیقی جریدہ کے مطابق جارج مورنسٹننی نے اپنے رپورٹ ‘Report on a Linguistic Mission to North West India’ (Oslo, 1932) میں لکھا ہے ڈیوڈ ایل آر Lorimer نے بروشسکی پر سب سے پہلے تحقیقی کام کیا تھا۔

جارج مورنسٹننی نے خود بھی بروشسکی زبان کی فونولوجی کو دیگر پڑوسی زبانوں کے ساتھ موازنہ کرایا ہے لیکن اس تنہا اور منفرد زبان پر باقاعدہ تحقیق اور کام  1950 اور 1960 کی دہائیوں میں ہوا۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے جرمن محقق پروفیسر جارج برگر نے بروشسکی کو دنیا کی منفرد اور تنہا زبان قرار دیا ہے۔ انھوں نے 1974 میں بروشسکی گرامر پر ایک کتاب شائع کی جس میں بروشسکی تلفظ اور گلگت-ہنزا کے تلفظ پر وسیع تحقیق کی گئی ہے. اس کے علاوہ برگر اور علامہ نصیرالدین نصیر نے اپنے نوعیت کی اولین بروشسکی جرمن ڈکشنری بھی ترتیب دی جو 50000 الفاظ پر مشتمل ہے۔

یہاں میرا مقصد بروشسکی کی تاریخ بیان کرنا نہیں بلکہ یاسین میں بولی جانے والی بروشسکی شاعری کا ارتقاء ہے۔ مشہور محقق اور نقاد ڈاکٹر رام بابو سکیسنہ کے مطابق ’’دنیا کے تمام ادبوں کی ابتدا شاعری سے ہوئی۔ شعر ایک زندہ قوت ہے جس کا وجود نثر سے بہت پیشتر معلوم ہوتا ہے۔ قافیہ بندی اور تک بندی انسان میں ایک فطری چیزہے۔

انسان کو پہلے جذبات کا حس ہوتا ہے۔‘‘ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ شاعری ہر زبان کی وسعت، جدت، تازگی اور نئے پن سے اس زبان کو نکھارتی ہے ۔ یاسین میں بولی جانے والی بروشسکی غزل کی عمر چھوٹی اور معیار بالکل سطحی تھی ۔شاعر حضرات لب و رخسار کے شکنجے میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے اور بیشتر اب تک جکڑے ہوئے ہیں۔ برسوں پہلے برصغیر کے ادیبوں اور شعراء کے بارے میں لکھا جانے والا شعر ان کے لیے دہرایا جا سکتا ہے۔

 

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس

آہ بیچاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار

 

اقبال کا یہ شعر اس پورے منظر نامے کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ یہ حال دیگر بہت ساری زبانوں کا بھی ہے اور اس کے کئی وجوہات ہیں ۔اول یہ کہ خصوصاً یاسین میں غز ل گو یا شاعری کو لفنگ ا،لوفراور ناکام شخص تصور کی اجاتا ہے اور لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ دوم کچھ زندگی سے بیزار لوگ جو عملی زندگی میں ناکام ہیں، آوارہ گردی کرتے ہیں ،ردیف قافیہ ملا کر البم تیار کرتے ہیں اور شاعر بن جاتے ہیں ۔ یہاں یہ بھی بتا تا چلوں کہ زیادہ تر لوگ گلو کار کو ہی شاعر سمجھتے ہیں۔

سوم پڑھے لکھے حضرات اس میدان میں آنے سے کتراتے ہیں کہ لو گ انھیں بھی لفنگا، لوفر سمجھیں گے ۔دوسری الفاظ میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ایک مافیانے قبضہ جمایا ہواہے ۔ مگر پچھلے چند برسوں سے خوش قسمتی سے پڑھے لکھے نوجوانوں نے شاعری کے میدان میں قدم رکھنا شروع کیا ہے ۔ انھوں نے اپنی شاعری میں میں سماجی ،سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں اور مسائل کو اتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ اسکی مثال بروشکی غزل کے ماضی میں کہیں نظرنہیں آتی۔

ادب کے ناقدین اور محققین کے مطابق غزل کے اشعار مضامین کو اختصار سے بیان کرنے میں مثالِ آپ ہیں اختصار پسندی تیزی سے فروغ پاتاہوا عالمی رویہ ہے۔ یہ بھی واضع ہے کہ ہر تخلیق اپنے سماج کی حدود میں رہ کر اظہارِ خیال کرتی ہے ۔مگر اس سماج کی وسعت کا تعین تخلیق کار کے فہم و ادراک کی وسعت کے بلند و پست اور وسیع و محدود ہونے پر ہے ۔ ایک شخص کھڑکی کی جالی کی ڈیزائن پر غور کرتا ہے جبکہ دوسرے شخص اسی کھڑکی سے باہر تاحد نظر پھیلے منظر اور رواں زندگی میں امکانات کے نئے زاویے تلاش کررہا ہوتا ہے گویا تخلیقی اڑان ہر تخلیق کار کی مختلف ہوتی ہے۔

کسی معاشرے میں سماجی اور تہذیبی تبدیلی تخلیقِ اظہار میں تبدیلی سے عبارت ہے۔ فرد کا انفرادی شعور ،سماج کے اجتماعی شعور پر اثر اندا ز ہوتا ہے ۔مگر اس تبدیلی کی بنیاد فراہم کرنے کے لیے تخلیق کار کا طاقت ور علمی اور دانش ورانہ پسِ منظر سے ہونے کے ساتھ ساتھ تبدیلی کے عوامل کے ادراک اور اس کے مابعد اثر پزیری کو سمجھنے والی بالغ نظری کا حامل ہونا ضروری ہے۔

خوش قسمتی سے بروشکی شاعری کا منظرنامہ آہستہ آہستہ تبدیل ہوتا جارہا ہے توقع ہے کہ ہے کہ یہ چنگاری بروشکی غزل کے مستقبل کو روشن کرنے میں اہم کردار ادا کریگی ۔ گزشتہ چند سالوں میں یاسین میں بولی جانے والی شاعری میں بہت اچھی نظمیں اور غزلیں لکھی گئی ہیں۔ جس کا معیار کسی بھی ادب کی شاعری سے کم نہیں۔ ان نوجوان تخلیق کالوں میں آصف علی اشرف، شیرنادر شاہی، بشارت شفیع، ریاض ساقی و دیگر شامل ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ تمام شعراء ملک کے نامور درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہیں۔ اس کی ایک مثال نوجوان شاعر ریاض ساقی ؔ کی یہ غزل ہے ۔ یاد رہے کہ یہ جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ہیں۔

 

محبت نانی مو دُعا غا سِمان

محبت تاتی تے وفا غا سیمان

محبت چھاس نیموق پونر یعووشوم

محبت دن ایچوم سُرما

محبت اُلچی چِیپ آ اُن نوکوئچ

محبت عمرِ سوداغا سیمان

محبت اِت نیلے گادیرو ریاضؔ

محبت علمے محرکا غا سیمان

 

(محبت کیاہے؟ محبت ماں کی دعا کو کہتے ہیں محبت باپ کے شفقت کو کہتے ہیں۔ بنجر زمین اور جھاڑیوں میں پھو ل اگانے کع محبت کہتے ہیں ۔ اپنے محبوبی کوایک جھلک دیکھ کر عمر بھرکے لیے خود کو اس کے سپرد کرنا محبت ہے۔ محبت کیا ہے تم کیا جانو نادان ریاض۔۔۔ محبت علم کے اجتماع کو کہتے ہیں۔ )

اُردو ادب کے محقیق کے مطابق غزل میں تفکر ، حقیقت پسندی اور اظہار کی ہونا لازمی ہے یہ چیزیں بروشکی غزل میں بھی اب نظر آنے لگی ہیں ۔ جیسا کہ بشارت شِفع اپنی شاعری میں انسان کی فطرت کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں۔

 

غونڈلے جی نِیانے چھیونی میما

گِری دُو تھاریس نیتے چھیو نی میما

سے گا می گیچامان بے اِسقایامان

چھینے فالو نوکووا دا دِیا کا

(فاختے کو مار گرا کر ہم خوش ہوتے ہیں، ہرن کو اس کے چھوٹے بچوں سے جدا کر کے خوشیاں مناتے ہیں۔ حتیٰ کہ چڑیا کی ننھی جان کو بھی نہیں بخشتے۔ ) اسے وجاہت شاہ نے اپنی گائیگی سے مذید خوبصورت بنایا ہے ۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ روایتی اور حسنِ جاناں کی تعریفوں سے ہٹ کر سماجی اور معاشرتی مسائل کو غزل میں جگہ دی جانے لگی ہے جسے بروشکی شاعری کا ارتقاء کہا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)