ہمیں کیا برا تھا مرنا جو … : بجٹ اور رمضان
(معصوم رضوی)
سرکار بھی چالاک ہوتی جا رہی ہے، رمضان میں چونکہ شیطان قید ہوتا ہے لہذا بجٹ دو دن پہلے پیش کر دیا، ویسے بھی رمضان میں بڑوں بڑوں کے بجٹ فیل ہو جاتے ہیں کیونکہ ماشااللہ اس ماہ مبارک میں دن بھر روزے رکھنے والے خوش عقیدہ حضرات کی خوش خوراکی نفس پر ایسی حاوی ہوتی ہے کہ کسی نعمت کو چھوڑنا گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں۔ سرکار نے بھی بہتر جانا دور حکومت کا آخری بجٹ پیش کر دیا جائے چونکہ رمضان میں تو ویسے بھی لوٹ مار کا دور دورہ ہوتا ہے، ایسے میں غریب عوام کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ کونسی چوٹ بجٹ کی ہے اور کونسی رمضان کی یعنی اس بار یک نہ شد دو شد والا معاملہ ہو گا۔
نجانے کیوں جب بھی کوئی وزیر خزانہ بجٹ تقریر کرتا ہے مجھے مداری اور بچہ جمہورا کا تماشہ یاد آ جاتا ہے۔ پرانے وقتوں میں چوک پر مجمع لگائے مداری کڑک رعب دار آواز میں بچہ جمہورا سے سوال کرتا، بچہ جمہورا،،، جو پوچھے گا بتلائے گا، بچہ آنکھیں موندے مسحور لہجے میں جواب دیتا ہے بتلائے گا، مداری مجمعے کو اپنی گونج دار آواز سے متاثر کرتا بچے سے سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھتا ہے، بچہ جمہورا بند آنکھوں سے کبھی کوہ قاف میں جنوں اور پریوں کے لائیو مناظر بتلاتا تو کبھی بکنگھم پیلس میں ملکہ برطانیہ اور وہائٹ ہاؤس میں امریکی صدر کی ذاتی زندگی پر رواں تبصرہ نشر کرتا۔ ہجوم میں شامل مداری کے چالباز گرگے سر ہلاتے اور تالیاں بجاتے ہیں، مداری کے گرد جمع ہونیوالے لوگ اس کی پراثر آواز کے سحر میں جکڑے تمام فضولیات کو من و عن حقیقت مانتے بلکہ بعضے روشن خیال تو اس مکالمے کو بطور دلیل بھی استعمال کرتے تھے۔ یقین جانیئے کسی کی توہین مقصور نہیں مگر کیا کروں بجٹ تقریر کے شروع ہوتے ہی مداری اور بچہ جمہورا یاد آ جاتا ہے، اب تک سوچ پر تو نہ تو اختیار ہے نہ قانون کی گرفت، ذرا سوچیں وہی پاٹ دار آواز، وہی گرگوں کی تالیاں، ویسے ہی سحر زدہ عوام، بس ایک چھوٹی سی تبدیلی نظر آتی ہے کہ چوک کی جگہ پارلیمنٹ لے لیتی ہے۔ وزیر خزانہ کسی مداری کی طرح ہاتھ اور آنکھیں بیک وقت نچا کر کڑکدار آواز میں عوام کو خوشحالی کے ایسے باغ دکھاتا ہے کہ بیچارے ٹیکسز کے بوجھ تلے بلبلانا بھی بھول جائیں۔ ویسے آپس کی بات ہےمداری بہت شریف ہوتے تھے پبلک جو کچھ دے اس پر خوش اور دونوں ہاتھ ماتھے پر جوڑ کر سلام بھی کرتے تھے۔
خیر جناب مذہب کے نام پر قوم لٹنے کی عادی ہو چکی ہے، اس بار چونکہ بجٹ بھی اسی موقعے پر آیا ہے تو دل تھام کر بیٹھیئے جانے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک، ہر دکاندار اور تاجر اللہ کے فضل و کرم سے ڈبل شاہ بنا نظر آتا ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے رمضان میں پورے سال نہ سہی تو کم از کم آدھے سال کی کمائی تو ہو ہی جاتی ہے۔ کھجور اور پکوڑے سے لے کر زرق برق ملبوسات تک ببانگ دہل آزادانہ لوٹ مار جاری رہتی ہے۔ حقیقت سے ہمارا رشتہ کچھ زیادہ دوستانہ نہیں، برا نہ منائیے گا لیکن رمضان دراصل ہمارے لئے سال کا سب سے بڑا بزنس سیزن ہوتا ہے۔ غریب روزہ دار مجبور ہے کہ منہ مانگے مول ادا کرے، ٹھیلے والا ہو یا عظیم الشان شاپنگ مال اس مقدس مہینے کی برکت سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ماہ مقدس کے نام پر ٹی وی چینلز میں علما، نعت گو، اداکار، کرکٹرز، ماڈلز، گلوکار سب ایک میک اپ میں ایک ہی گھاٹ پر منہ مانگے مول لیکر سادگی، قناعت اور اللہ کی رضا کا درس دینے کی نیکی کماتے ہیں۔ سرعام کھانا پینا تو ممنوع مگر اشیائے خورونوش پر لوٹ مار کی آزادی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ نہ میرے لئے نیا ہے نہ آپکے لئے ہاں یہ ضرور ہے کہ سارا پاکستان ایسا نہیں، کچھ نیک افراد فی سبیل اللہ روزہ داروں کی خدمت میں مصروف نظر آئینگے، روزانہ مفت سحر و افطار کا پرتکلف انتطام، غریبوں کیلئے راشن، نادار و مساکین کیلئے عید کے کپڑے اور دیگر لوازمات، یہ لوگ مختصر اور گمنام سہی مگر سب پر بھاری ہیں اور شاید انہی کے دم سے ہم گناہگاروں کا بھرم بھی قائم ہے۔
رمضان میں دفاتر کا ماحول بھی عقیدتمندانہ ہو جاتا ہے، روزہ دار اور روزہ خور میں فرق پہچاننا ہرکس و ناکس کی بس کی بات نہیں ہے۔ بس یوں جانیں کہ ایسے اصحاب جو زیادہ متقی، پاکیزہ اور مظلوم نظر آئیں، سر پر ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح، سحر و افطار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، سوکھے ہونٹوں پر بار بار زبان پھیریں، جان لیں یہ روزہ خوروں کی صف میں شامل ہیں۔ یہ حضرات چھپ چھپا کر سگریٹ کا سوٹا بھی مار لیتے ہیں اور بارہ بجے دوپہر کے بعد افطار کے پکوڑے ڈھونڈتے نظر آتے ہیں، بقول علامہ مومنین کا صرف یہی گروہ ماہ صیام میں فی سبیل اللہ حقوق العباد کا فریضہ ادا کرتا ہے۔ دوسری قسم ایسے دوستوں کی ہوتی ہے جن کی تیوریوں پر پڑے بل دور سے نظر آ جائیں، بیزارگی اور جھنجھلاہٹ کی تصویر، یہ نشانی ہے روزہ داروں کی، اس کیفیت میں بے تکلف ہونے کا خطرہ قطعی مول نہ لیں۔ خیرحضور روزہ خور ہوں یا روزہ دار دفاتر میں کام آدھا اور جھگڑے دوگنے ہو جاتے ہیں۔ بازاروں اور بسوں میں ذرا ذرا سی بات پر چیخم چلا معمول ہوتی ہے اور بعض برگزیدہ روزہ دار مذہبی خبط عظمت کے تحت دفتری کام چھوڑ چھاڑ کر پندونصائح اپنا لیتے ہیں، یہ درسی کیفیت عموما افطار تک جاری رہتی ہے، انکی ہر بات پر ہاں کے سوا کچھ نہ کہیں ورنہ نتائج کی ذمہ داری آپ پر ہو گی۔ بقول ضمیر جعفری صاحب
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار، میں روزے سے ہوں
میرا روزہ اک بڑا احسان ہے لوگوں کے سر
مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار، میں روزے سے ہوں
پوری مسلم دنیا میں رمضان کی خوشی میں عید منائی جاتی ہے اور ہماری یہاں عید کی خوشی میں رمضان، اس دوران نفس پر جو ٹوٹی پھوٹی رکاوٹیں لگائی جاتی ہیں آدھی تو افطار کے بعد ہٹا دی جاتی ہیں اور اگر کچھ بچ رہیں تو رمضان ختم ہوتے ہی چھٹکارا پا لیا جاتا ہے، پھر خضوع اور خشوع کیساتھ مکروفریب، جھوٹ، منافقت، بددیانتی میں الجھ جاتے ہیں کیونکہ یہی دستور دنیا ہے۔ گویا رمضان سے کچھ بھی سیکھنے کو تیار نہیں، سچ تو یہ ہے کہ ہمارے جیسے گناہگاروں کا روزہ تو جسمانی ہوتا ہے روح کا معاملہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ماہ صیام میں دین کمانے کی نوید سنائی گئی ہے مگر ہم دنیا کماتے ہیں، روزہ نفس پر قابو پانے کا نام ہے، بھوکے پیاسے رہنا تو مسئلہ نہیں مگر نفس کے سرکش بگٹٹ بھاگتے گھوڑے پر قابو پانا محال ہو جاتا ہے۔ روزہ دوزخ کی آگ کے خلاف ڈھال ضرور ہے مگر چھلنی جیسی ڈھال آگ سے کتنا بچائے گی۔ رمضان میں شیطان قید رہتا ہے تو بھولے لوگ جیل خانے کی تلاش میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ حضور شیطان تو ہمزاد ہے، جیل خانہ ہے آپ کا دل جس پر پہرہ ہے نفس کا، ذرا ایک بار اپنے دل میں جھانک کر تو دیکھیں حقیقت حال کا بخوبی اندازہ ہو جائیگا، کیونکہ دلوں کا حال آپ جانتے ہیں یا آپ کا رب۔