سرمایہ دارانہ نظام بستر مرگ پر؟
معصوم رضوی
کیا سرمایہ دارانہ نظام اپنی عمر گزار چکا؟ اس وقت آزاد معشیت کے نام پر دنیا کی 90 فیصد دولت ایک فیصد طبقے کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ ماہرین معاشیات دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اور بڑھتی ہوئی غربت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ عالمی دولت کا تیزی سمٹنا پورے نظام کو سنگین خطرات سے دوچار کر چکا ہے۔ گزشتہ 25 سال کے دوران ایک فیصد طبقے کے سرمائے میں 90 فیصد آبادی کے نسبت خطرناک سرعت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ دولت کا خوفناک ارتکاز اور ہولناک تیزی سے بڑھتی غربت ماہرین معشیت کے لیے بڑا سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔
چلیں آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ دنیا بھر میں لگ بھگ 70 کارپوریشنز کا راج ہے اور ان میں شامل 10 عظیم الشان کاروباری اداروں کا بجٹ 180 ممالک کے بجٹ سے زیادہ ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک سالانہ 100 بلین ڈالرز کا خسارہ اٹھا رہے ہیں۔ عالمی ادارے آکسفیم انٹرنیشنل (Oxfam International) کا کہنا ہے کہ 8 افراد کے پاس دنیا کی نصف آبادی کے برابر دولت موجود ہے۔ ان میں بل گیٹس 70 بلین ڈالرز، ایمانسو آرٹیگا 67، وارن بفٹ 60.8، کارلو سلم 50، جیف بیجوز 45.2، مارک زکربرگ 44.6، لاری ایلیسن 43.6 اور مائیکل بلومبرگ 40 بلین ڈالرز کے ساتھ شامل ہیں۔ امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتا خوفناک اضافہ پورے نظام تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2010 میں دنیا کی آدھی دولت 43 افراد کی دسترس میں تھی اور 2016 میں یہ تعداد گھٹ کر صرف 8 افراد تک محدود ہو گئی، ان میں سے 6 کا تعلق امریکہ سے ہے۔ 2009 کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ عالمی امیروں کی دولت میں اضافے کی شرح تقریبا 11 فیصد سالانہ ہے۔ امریکی میگزین فاربز (Forbes) کے مطابق 1810 افراد کے پاس 6.5 کھرب ڈالرز کی دولت تقریبا دنیا کی 70 فیصد آبادی کے برابر ہے، آئندہ 20 سال میں 500 امیر ترین افراد اپنے وارثوں کا 2.1 کھرب ڈالرز کی دولت منتقل کرینگے جن میں کارپوریٹ آرگنائزیشن میں وال مارٹ، شیل، ایپل جیسی کمپنیاں شامل ہیں۔ آکسفیم رپورٹ کے مطابق تقریبا 7.6 بلین ڈالرز دولت کو آف شور اکائوئنٹس یا خفیہ طور پر رکھا گیا ہے تا کہ ٹیکس بچایا جا سکے۔
اتنے بھاری اعدادوشمار کے بعد میری سانس بھی پھول چکی آپکو بھی چکر آ رہے ہونگے، معذرت مگر صورتحال کی سنگینی واضح کرنے کا کوئی اور چارہ بھی تو نہیں، حقائق سامنے رکھنا ضروری تھے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ دنیا کے مالدار ترین ادارے جسے کارپوریٹ سیکٹر کا نام دیا گیا ہے اتنے طاقتور اور باوسائل ہو چکے ہیں کہ ملکوں کی پالیسیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ مختلف ممالک کی داخلہ، خارجہ اور معاشی پالیسیوں کے علاوہ بین الاقوامی معاہدات اور عالمی اداروں کو اپنے مفادات کے تحت استعمال کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین معشیت دولت کی تقسیم میں غیر منصفانہ تقسیم کی انتہاپسندی کو پورے نظام کے لیے خطرہ قرار دے چکے ہیں۔
فرانسیسی ماہر معشیت تھامس پکیٹی نے اپنی کتاب کیپیٹل ان دی ٹونٹی فرسٹ سینچری (Capital in the 21st Century) میں ثابت کیا ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور آمدن میں عدم مساوات سرمایہ دارانہ نظام کا ناگزیر انجام ہے۔ کتاب میں گزشتہ ڈھائی سو سالوں کے معاشی جائزے سے ثابت کیا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کو حاصل ہونے والا سرمایہ عالمی اقتصادی ترقی کی شرح سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اور اب یہ عدم مساوات بھیانک حدود میں داخل ہو چکی ہے۔ تھامس پکیٹی نے عالمی ٹیکس کے نفاذ اور دولت کی تقسیم کے طریقہ کار کی تجاویز بھی پیش کی ہیں۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ 1776 میں ماہر معشیت ایڈم اسمتھ کی کتاب دولت اقوام (Wealth of Nations) سرمایہ دارانہ نظام کی موجد سمجھی جاتی ہے۔ اسی نظریے پر طلب و رسد کا کلیہ وضع ہوا اورعالمی منڈی کا قیام، آزاد تجارت، پیداواری ذرائع کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس کے بعد 1867 میں کارل مارکس نے سرمایہ داری پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے محنت کشوں کے خون سے پلنے والے سفاک گروہ کا کارنامہ قرار دیا۔ اپنی کتاب داس کیپیٹل میں مارکس نے اشتراکیت کا نظریہ پیش کرتے ہوئے معاشی مساوات کو مسائل کا حل قرار دیا تھا۔
اشتراکیت کا سب سے بڑا حامی روس اور مخالف یورپ تھا، مختصر یہ کہ 1917 کا روسی انقلاب اور اسکے بعد 1945 میں جنگ عظیم کے بعد طاقت کا توازن پوری طرح امریکہ کی جانب چلا گیا اور عالمی معشیت کی پالیسیاں سرمایہ دارانہ نظام کے مفاد میں ڈھلتی چلی گئیں۔ آج امریکہ اور یورپ کے خوشحال ملک اس نظام کے سخت گیر محافظ ہیں اور دنیا پر یہ تاثر راسخ کر دیا گیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام تمام خرابیوں کے باوجود دنیا کے لیے واحد معاشی حل ہے۔
جناب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو ہے نہیں کہ آزاد معشیت یا Free Economy کی بنیاد صرف اور صرف منافع ہے جس کے تحت بلاروک ٹوک زیادہ سے زیادہ آمدن کا حصول جائز قرار پاتا ہے۔ یہ سلسلہ اب اس انتہا تک پہنچ چکا ہے جہاں عالمی دولت چند تجوریوں میں بند ہو کر رہ گئی ہے۔ آزاد معشیت کے نام پر لوٹ مار، تیز رفتار ٹیکنالوجی کے باعث بیروزگاری، ترقی کے مواقع میں عدم مساوات، مصنوعی معشیت کا فروغ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، مالی بدانتظامی اور اب تہذیبوں کے درمیان بڑھتی خلیج نے عالمی معشیت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں مالی بحران اور قحط کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔
آج جب دنیا کی نصف دولت صرف 8 افراد کی تحویل میں ہے تو ایسے وقت ایک ارب بیس کروڑ افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، سالانہ 30،000 بچے ایسے امراض میں مر رہے ہیں جنہیں علاج سے بچایا جا سکتا ہے، کم خوراک کے باعث 150 ملین سے زائد بچوں کا وزن خطرناک حد تک کم ہے، ایک ارب سے زائد انسانوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، ڈھائی ارب افراد نکاسی آب کی سہولت سے محروم ہیں۔ آزاد معشیت کے تحت ترقی پذیر اقوام پر بلاواسطہ کنٹرول کے لیے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے ادارے قائم کیے گئے جبکہ عالمی امرا نے این جی اوز کے سلطنت بھی کھڑی کر رکھی ہے۔
یہ طریقہ کار سرمایہ دارانہ نظام کی تحفظ کے لیے اہم ترین ہتھیار ہے۔ محنت کشوں کے ذریعے کمائی جانیوالی دولت میں سے چند ٹکے خرچ کر کے غریبوں کی فلاح بہبود کے تاثر کو فروغ دیا جاتا ہے۔ خیر اب تو این جی اوز بھی اب ایک بڑا عالمی تجارتی سیکٹر شمار ہوتی ہیں۔ ہر سال این جی اوز کے تحت 15 ارب ڈالر کی رقم خرچ کی جاتی ہے اور اس شعبے میں 19 ملین افراد کام کرتے ہیں۔ حیران نہ ہوں اب یہ شعبہ دنیا کی آٹھویں بڑی صنعت بن چکا ہے۔
آج غریب بھوکا، ننگا اور محتاج ہے تو کل یہی حال ملکوں اور قوموں کا ہو گا۔ امریکہ اور یورپ عالمی پیداواری وسائل اور آزاد معشیت کے مالک اور ترقی پذیر ممالک دست نگر بن چکے ہیں۔ جس تیزی کے ساتھ دولت محدود اور غربت میں لامحدود ہوتی جاری ہے یہ واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا عروج دنیا کو ایک ہولناک معاشی جنگ کی جانب دھکیل رہا ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رکھیں کہ دنیا میں ہر نظام کی ایک عمر یا حد ہوتی ہے، شاید سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنے منطقی انجام کی جانب گامزن ہے۔ یہ بحث الگ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام بہتر ہے یا اشتراکیت، اس کا فیصلہ تو آپ کرتے رہیئے گا، مگر یہ ضرور عرض کرنا ہے کہ شاید وقت آ گیا ہے فیصلہ کرنا ہے کہ متبادل نظام یا پھر تیسری جنگ عظیم!