سلگتا ہوا مشرق وسطیٰ
از، حسین جاوید افروز
بیسویں صدی کے آغاز ہی سے مشرق وسطیٰ کا خطہ نہایت مہیب تبدیلیوں کے عمل سے گزرا ہے۔ اور ہر آنے والا دور اس خطے میں انتشار و افتراق اور بے یقینی کی دھند کو مزید پھیلائے جارہا ہے ۔پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ کے زوال اور پھر سامراج کی جانب سے اس خطے میں اعلان بالفور کے بعد سے لے کر اسرائیل کے قیام تک تباہی ،ہی اس خطے کا مقدر بنی رہی ہے۔ اسرائیل کے ناجائز قیام سے نہر سویز بحران پھر عرب اسرائیل جنگیں جن سے بتدریج اسرائیلی جغرافیہ تو پھیلتا گیا مگر عرب اپنے ہی خطے میں بے دست و پا ہوتے گئے۔ رہی سہی کسر مسلکی مخاصمت اور بادشاہتوں پر مبنی بد ترین آمرانہ نظاموں نے پوری کردی۔ یہی وجہ ہے کہ خلیج کی دو جنگوں اور خصوصاٰ نائن الیون کے بعد نان سٹیٹ ایکٹرز القاعدہ اور داعش جیسی خون آشام عفریتوں کے لیے سازگار فضا بنتی گئی اور یوں خطہ بنیاد پرستی اور وحشیانہ ظلم و ستم کا نشانہ بن گیا۔
آج 2018 میں بھی مشرق وسطیٰ فرقہ ورانہ کشیدگی کی آگ میں سلگ رہا ہے ۔آئیے جائزہ لیں کہ موجودہ سال میں اس خطے کے انارکی سے متاثرہ علاقوں میں کیا تبدیلیاں وقوع پذیر ہو سکتی ہیں؟ 2017 دسمبر میں امریکہ کے سیماب صفت صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت قرار دینے کا اعلان اور وہاں امریکی سفارت خانے کی منتقلی یقیناٰ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں کسی دھماکے سے کم نہیں تھا ۔گویا اس امریکی اقدام نے تل ابیب کو یہ ہلہ شیری دی کہ وہ اب بلاروک روک ٹوک یہودی بستیاں مظلوم فلسطینیوں کو بے دخل کر کے تعمیر کرسکتا ہے۔جبکہ اس فیصلے کو خود امر یکی انتظامیہ کے اندر بھی تشویش سے دیکھا جارہا ہے۔ بہر حال ٹرمپ کے اس ناعاقبت اندیش فیصلے سے حماس اور اسرائیل میں مستقبل میں خوفناک تصادم کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔
تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ او آئی سی ،عرب لیگ اور خطے کے اہم ممالک اس فیصلے پر ایک کمزور سی مزاحمت سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے۔ حالانکہ جنرل اسمبلی نے کامل اکثریت سے صدر ٹرمپ کے اس تخریبی اقدام کی مذمت کی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ ایک ایسی ڈیل کے خواہاں ہیں جس کے تحت فلسطینیوں کو سینائی میں آباد کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے اسرائیل بارہ عرب ممالک کے ساتھ درپردہ مذاکرات کرنے میں بھی مصروف ہے۔
جہاں تک داعش کا تعلق ہے تویہ امر باعث طمانیت ہے کہ دسمبر 2017 میں داعش اپنے مضبوط گڑھ موصل اور رقاء سے پسپا ہوچکی ہے۔ اور اس کی نام نہاد خلافت جو کہ برطانیہ جتنے حجم کے علاقے پر قابض رہی، وہ بھی اپنی موت مرچکی ہے ۔داعش ہی وہ عنصر تھا جس کے تدارک کے لیے ماسکو ،تہران کرد ،حزب اللہ یکجا ہوئے اور بشار الاسد کے دم توڑتے ہوئے اقتدار کو ازسرنو حیات نو عطا کی۔ لیکن مشرق وسطیٰ کے معروف تجزیہ نگار رابرٹ فسک کے مطابق داعش ابھی تاریخی متروکیت کی منزل سے دور ہے۔ اور یہ یاد رکھا جانا بہت ضروری ہے کہ اس کے جنگجو عراق میں حویجا اور تلافار، جبکہ شام میں دیر الزور میں پسپا ضرور ہوئے مگر اپنی طاقت بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان میں دوبارہ خود کو منظم کرنے کی صلاحیت بدستور قائم ہے یہ الگ بات ہے کہ اب وہ اپنا آسیب ایک خلافت کے ذریعے نہیں بلکہ گوریلا کارروائیوں کے ذریعے پھیلاتے رہیں گے۔
اب بھی غوطہ کے چھوٹے حصوں میں اس کے سلیپر سیل متحرک ہیں ۔تاہم آج کی باقی ماندہ داعش اب سرپرائز حملے کرنے کے عنصر سے بھی محروم ہو چکی ہے اوراب زمینی اور حربی فضا بھی اس کے حق میں موافق نہیں رہی۔اس کی فنڈنگ کے ذرائع اور اتحادی اب نہیں رہے۔ لہذا اب وہ یمن، لیبیا، سینائی اور افغانستان کی جانب نئے پاور بیس کی تلاش میں ہے۔ داعش کے بعد شام پانچ سال کی بد ترین خانہ جنگی کے بعد اب بھی ایک اضطراب کا سامنا کرہا ہے۔ اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ اب بشار الاسد دمشق پر اپنا کنٹرول مستحکم کر چکے ہیں مگر اب شام کے زمینی حقائق 2011 والے ہرگز نہیں رہے۔ ترکی کی سرحد سے ملحقہ شامی علاقے اب کردوں کے زیر اثر ہیں۔
ایک جانب شامی جمہوری فورسز امریکی آشیرواد سے دمشق کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں تو دوسری جانب روسی مرد آہن ولادی میر پیوٹن مارچ 2018 میں روس کے صدارتی الیکشن کے بعد شام کے نئے سیاسی نظام کے خدوخال طے کرنے ایک گرینڈ ڈائیلاگ منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جس کے تحت شام کی وفاقیت، پارلیمانی یا صدارتی نظام کا انتخاب ،شام بطور عرب جمہوریہ اور تمام علاقائی یونٹوں کو زیادہ سے زیادہ اٹانومی دینے کے پیچیدہ امور پر گفت و شنید کی جائے گی۔ اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ دمشق میں اگلا چناؤ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہی کرایا جائے۔ اگرچہ بشار الاسد کے صدر رہنے پر تمام گروپس متفق نہیں مگر تہران اور ماسکو کی جانب سے اس کو دی جانے والی حمایت اس امر کو واضح کرتی ہے کہ شامی سیاست کا منظر نامہ اہم کھلاڑی بشار الاسد کے گرد ہی گھومتا رہے گا۔
البتہ ایک اور تلخ پہلو یہ بھی ہے کہ شامی کردوں پر مشتمل امریکی حمایت سے کھڑی فورس SDF جو کہ تیس ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ہے وہ ترکی میں سرگرم کرد تنظیمpkk کی توسیع ہے جس کی وجہ سے طیب اردگان برافروختہ ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آپریشن شاخ زیتون کے نام سے شمالی شام کے کرد علاقوں آْفرین میں ترک فوج کو مصروف کررکھا ہے۔ اب تک ترک فورسز نے 666 افراد کوشمالی شام سے گرفتار کیا ہے ۔بظاہر امریکہ نے SDF کو داعش کی سرکوبی کے لیے بنایا مگر اب داعش کے منہدم کے بعد کہا جارہا ہے کہ اس تنظیم کو شام کے اس خطے میں موجود تیل گیس کے ذخائر اور خطے میں امریکی جاندار موجودگی قائم رکھنے کے بہانے کے طور پر برقرار رکھا جارہا ہے۔ جبکہ طیب اردگان بھی ترکی میں کردوں کی شورش کو بھانپ چکے ہیں اور امریکہ کو واضح پیغام دے چکے ہیں کہ SDF کی موجودگی انقرہ کو کسی طور بھی قبول نہیں ہم اس دہشت گرد تنظیم کاعراقی بارڈر تک پیچھا جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ اس ترک کارروائی کو روس اور نیٹو کے بیشتر ممالک کی حمایت میسر ہے۔ جبکہ کردوں نے انہی علاقوں سے ترک سرحدی علاقوں ریانلی اور حاتے میں راکٹ فائرنگ جاری رکھی تھی اورامریکہ نے ان کے لیے اسلحے سے لیس ہزاروں ٹرک بھی فراہم کرتا رہا ہے یوں اس گروپ کو ترکی کے جنوب مشرق میں فری ہینڈ ملا ۔چنانچہ آفرین کا علاقہ باغیوں کا بحیرہ روم میں ایک گیٹ وے بن کر ابھرا۔ یہی امریکہ کا دوہرا معیار ہے کہ ایک طرف وہ PKK کو دہشتگرد تنظیم قرار دیتاہے تو دوسری جانب اس کی ذیلی تنظیموں کو ہلہ شیری بھی دیتا ہے۔
ترکی کے مقاصد واضح ہیں کہ ایک جانب ترکی میں مقیم پانچ لاکھ شامی پناہ گزینوں کوبحفاظت واپس شام بھیجا جائے اور دوسری طرف ترک سلامتی کے لیے خطرہ بنے کرد وں کی سرکوبی کی جائے ۔ اس مہم میں ترکی آفرین سے آگے فرات علاقے تک بھی جاسکتا ہے جو کہ امریکہ عمل داری میں آتا ہے جہاں دو ہزار امریکی فوجی پہلے ہی موجود ہیں۔ ترک وزیر اعظم بن یلدرم بھی کہہ چکے کہ آفرین ،جرابلس اور ال باب پر جاتے ہوئے ہم منجب تک بھی جاسکتے ہیں ۔یہ پہلا موقع نہیں کہ ترکی نے دہشتگردوں کے تعاقب میں سرحدیں پار کی ہوں۔ ماضی میں بھی ترکی عراق کے سرحدی علاقوں میں محدود مقاصد کے لیے ایسی کارروائیاں سر انجام دیتا رہا ہے ۔تاہم ترکی نے ہمیشہ ثابت کیا کہ وہ اس سلسلے میں ہرگز توسیع پسندانہ عزائم نہیں رکھتا ۔لیکن وہ امریکہ کی جانب سے شامی کردوں کی حمایت پر شاکی ہے اور کردستان تحریک میں شدت اس کے مفاد میں ہرگز نہیں۔
یوں آپریشن شاخ زیتون رواں سال شام میں کشیدگی کی چنگاریوں کو مزید ہوا دیتا رہے گا۔ یہاں ہم اسرائیل کی جانب سے شامی علاقوں میں قائم شامی اور ایرانی ملیشیاء کے ٹھکانے پر بمباری بھی کیسے فراموش کرسکتے ہیں جس کے جواب میں ایرانی اعانت سے ایک اسرائیلی ایف سولہ طیارہ بھی مار گرایا گیا ۔قریب تھا کہ کہ اس سے دمشق اور تل ابیب بھڑک اٹھتے مگر روس کی جانب سے بروقت مداخلت نے فائر فائٹنگ کا کام انجام دیا۔ اب ہم یمن کی جانب آتے ہیں جو کہ اس خطے کے سب سے پسماندہ ملکوں میں شامل ہے۔ مارچ 2015 سے جاری یمن سعودیہ جنگ نے اس دورکے خوفناک انسانی بحران کو جنم دیا جس سے تین برس میں دس ہزار قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں اورتقریبا دو ملین افراد بے گھرہوئے۔
اس کے علاوہ سعودیہ نے حدیبیہ کی یمنی بندرگاہ بھی سمگلنگ کا عذر دے کر بلاک کی جس سے خوراک کی سپلائی رک گئی اور عوام بھوکوں مرنے لگے ۔ یمن ،ریاض اور تہران کے درمیان پراکسی جنگ کی تازہ مثال ہے جہاں ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں اور سعودی اتحادی یمن کے سنی صدر منصور ہادی کے درمیان میدان کارساز گرم ہے ۔حوثیوں کی فنڈنگ تیل گیس کے ذرائع سے پوری ہوتی ہے۔ نیز ان کے لیے اسلحے کی سپلائی بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
اس لڑائی میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب تین دہائیوں سے صدارت پر براجمان صدر صالح 4 دسمبر2017 کو مارے گئے۔ اس وقت صدر منصور ہادی کی حالت بالکل افغان صدر اشرف غنی جیسی ہے جو کہ یمن پر اپنی رٹ کھو چکے ہیں۔جبکہ مشرقی یمن میں حضرموت کے علاقے میں متحدہ عرب امارات کی حامی فورسز بھی حوثیوں کے لیے محاذ گرم رکھے ہوئے ہیں۔ لگ ایسا ہی رہا ہے کہ اس سال بھی یمن میں حوثیوں اور صدر ہادی کے درمیان صنعا اور حدیبیہ میں خونی معرکے ہوں گے ۔جبکہ حوثی جو کہ 2004 کے مقابلے میں زیادہ وسائل رکھتے ہیں سعودیہ عرب امارات اتحاد کے سبب زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔
البتہ حوثیوں کی جانب سے کی گئی بمباری سے جنوبی سعودیہ کے علاقے بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ ریاض کو اس جنگ پر یومیہ 200 ملین ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں اور یمن اس کے لیے ایک رستا ہوا ناسور ثابت ہورہا ہے ۔یہی نہیں اس لاحاصل جنگ میں یمن میں تہذیبی ورثے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جن میں مارب ڈیم، صنعا کا پرانا شہر، قدیم عجائب گھر اورعوام ٹمپل شامل ہیں۔ آخر میں اب ہم مشرق وسطیٰ کی سب سے اہم شخصیت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا تذکرہ کرتے ہیں جن کی جارحانہ اور متلون مزاج طبعیت نے گویا سارا منظر نامہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔
سعودی عرب گزشتہ برس خاصی چونکا دینے والی سیاسی تبدیلیوں سے گزرا ہے ۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اب سعودی عرب کو ولی عہد محمد بن سلمان کی بدولت جانا جاتا ہے ۔ 32 سال کی عمر میں ہی انہوں نے سعودی شاہی ایوانوں میں اس وقت ہلچل مچا دی جب نومبر 2017 میں ۱۱سعودی شہزادوں کو کرپشن کی پاداش نظر بند کیا جن میں نہایت با اثر ولید بن طلال بھی شامل تھے۔ اس کے ساتھ نے محمد بن سلمان نے اپنے وژن 2030 کو سعودیہ کا مستقبل کا بیانیہ قرار دیا ۔جس کی رو سے اب سعودی معیشت کا کلیدی پتھرہا ئیڈرو کاربن کے بجائے سرمایہ کار ی،سیاحت اور نج کاری کو قرار دیا گیا ۔نیز اپنے سوشل ایجنڈے میں محمد بن سلمان نے خواتین کو جون تک ڈرائیونگ کی اجازت دے ڈالی اور ساتھ ہی ایک قدامت پرست معاشرے میں میوزک کنسرٹس اور تھیٹر کی سرگرمیوں کی سرپرستی شروع کر دی تاکہ سعودی عرب کا سافٹ امیج سامنے لایا جائے۔
اپنی عزائم پر مکمل طور پر کاربند مگر خاصے بے صبرے سمجھے جانے والے MBS نے خارجہ پالیسی میں بھی جارحانہ طرز عمل اپنایا ۔وہ عرب دنیا میں سعودیہ کو ہی قیادت کا دعویدار سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خطے میں ایرانی اثرو نفوذ کے شدید ناقد رہے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ ایرانی روحانی لیڈر آیت اللہ خامنائی کو خطے کا ہٹلر بھی قرار دینے سے نہیں چوکتے۔ جہاں ایک جانب وہ بحرین، قطر، لبنان اور یمن سے ایرانی نوازی کی بدولت شاکی ہیں وہاں وہ ایران دشمنی میں اسرائیل کے ساتھ بھی نرمی روا رکھنے کے حامی گردانے جاتے ہیں۔ اور 2014 سے ہی ریاض اور تل ابیب میں ایران کو دبانے کی غرض سے بیک ڈور چینل پر گفت و شنید جاری ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت قرار دینے پر ریاض نے لاتعلقی کا سا رویہ اختیار کیا ہے۔ جبکہ صدر ٹرمپ کے دورہ ریاض کے موقع پر میں اسلحے کے حصول کے لیے کی گئی اربوں ڈالر کی ڈیل بھی محمد بن سلمان کے جارحانہ رویے کی عکاسی کرتی ہے۔ MBS سعودیہ کے مستقبل کا معمار کا روپ تو دھار چکے ہیں مگر یہ بھی تلخ سچ ہے کہ ان ہی کی بدولت سعودیہ، یمن کی لاحاصل جنگ میں پھنس چکا اور مستقبل میں بھی یمن ریاض کے لیے ناسور بنا رہے گا۔ جبکہ کرپشن کے خلاف بھی محمد بن سلمان محض 108 ارب ڈالر ہی مغوی سعودی شہزادوں سے بٹور سکے۔ یاد رہے ان شہزادگان پر 800 ارب کی کرپشن کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ جبکہ جس طرح MBS نے سعد حریری کو ریاض بلا کر باقاعدہ دھمکا کر حزب اللہ کی مذمت پر مجبور کیا اس سے بھی MBS کی چانکیائی ذہنیت عیاں ہوتی ہے۔
اس طویل نشست کے اختتام پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ 2018 میں بھی مشرق وسطیٰ کے سیاسی معاشی اور سماجی معروض میں بادشاہت جیسے فرسودہ نظام ،جس کے بطن سے آمرانہ نطام کی آبیاری بھی ہوتی رہی، مسلکی مخاصمت کے زہریلے عنصر اور اسرائیل کی نسل کش پالیسیوں کا تسلسل موجود رہے گا جس کی پاداش مشرق وسطیٰ اسی منافرت بھرے ماحول میں سلگتا ہی رہے گا۔