ایک زندہ آدمی کی حکایت
افسانہ از، محسن خان
ایک ہاتھ میں لاٹھی اور دوسرے ہاتھ میں تھیلا پکڑے وہ سڑک کے کنارے بجو کا کی طرح کھڑا تھا۔ لاٹھی کو اوپر اٹھا کر اس نے رکنے کا اشارہ کیا تو میں نے کار روک دی۔ جب اس نے کوئی پیش رفت نہیں کی تو میں نے کھڑکی کا شیشہ اتار کر اس کی طرف دیکھا۔ اندھیرے میں اس کا حلیہ واضح طور پر نظر نہیں آیا۔ ہاں یہ اندازہ ہوا کہ کوئی در ماندہ مسافر اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے کسی گاڑی کا انتظار کر رہا ہے۔
”کہاں جانا ہے،“ میں نے اونچی آواز میں پوچھا تو وہ اک تذبذب کی سی کیفیت کے ساتھ کار کے قریب آیا اور قدرے جھک کر مخاطب ہوا:
”صاحب میں سمجھا تھا کوئی سواری ڈھونے والی گاڑی ہے۔“
”کوئی بات نہیں، کہاں جانا ہے،“ میں نے پوچھا۔
”ملیح آباد جانا چاہتا تھا صاحب،” اس نے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔
”بیٹھ جاؤ، میں بھی وہیں جا رہا ہوں،“ میں کہا۔
وہ عجلت کے ساتھ گاڑی کے پچھلے دروازے کی طرف بڑھ کر دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ ”آگے آجا ؤ!“ میں نے کہا اور اگلا دروازہ کھول دیا۔ لاٹھی اور تھیلے کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کی کوشش میں اس کا توازن بگڑ گیا اور ان کا سر کھڑکی سے ٹکرا گیا۔ گاڑی سے اتر کر میں نے کھڑکی کھولی۔ اس کے ہاتھ سے لاٹھی لے کر پچھلی سیٹ پر رکھی اور سہارا دے کر سیٹ پر بٹھا دیا۔
ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی پسینے کی نا قابلِ برداشت بُو کا بَھپکا میرے دماغ میں داخل تو کوفت کی اک لہر نے ہم دردی کی کیفیت کو کچھ دیر کے لیے معدوم کر دیا۔ کھڑکی کے شیشے جو شام کی خنکی سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے چڑھا دیے تھے نیچے گرا دیے۔
وہ تھیلا گود میں سمیٹے سیٹ کی پشت پر ٹیک لگائے بغیر اس طرح بیٹھ گیا جیسے کوئی گودڑ کی پوٹلی رکھ دی گئی ہو۔
”ملیح آباد میں کس جگہ رہتے ہو؟“ میں نے پوچھا۔
”صاحب امانی گنج میں رہتا ہوں،“ اس نے رُندھی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ اس کے لہجے میں ایسی پس مردگی تھی جو دیر تک بھوکے رہنے یا طویل مسافت کی تکان کے سبب انسان پر طاری ہو جاتی ہے۔
”کہاں سے آ رہے ہو“
”صاحب لکھنئو سے آ رہا ہوں۔“
”یہاں تک کیسے پہونچے؟“
”صاحب جس بس سے آ رہا تھا وہ خراب ہو گئی تو کنڈکٹر نے سب کو اتار دیا۔ جو دوسری بسیں آئیں ان میں اتنی جگہ نہیں تھی کہ بیٹھ پاتا۔ دوسری سواریاں تو دوڑ دوڑ کر بیٹھ گئیں کچھ کھڑکیوں میں لٹک کر چلی گئیں، میں نے بھی پریاس کیا مگر نہیں بیٹھ سکا۔ میرا ایک پَیر بھی چھوٹا ہے صاحب، ٹوٹ گیا تھا جڑ تو گیا مگر پہلے جیسا نہیں ہو سکا۔“
”اب تو اس رُوٹ پر خاصی بسیں اور ٹیکسیاں چلنے لگی ہوں گی۔“
”جی صاحب چلنے لگی ہیں مگر سواریاں بھی بہت ہو گئی ہیں۔“
آج میں طویل مدت کے بعد ملیح آباد جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا ذرائع آمد و رفت نے شہروں اور قصبوں کو قریب کر دیا ہے۔ پہلے سست رفتار بسوں میں کنکریٹ کی سڑک پر سفر کر کے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہونچنے میں دشواریاں ہوتی تھیں اور وقت بھی زیادہ صرف ہوتا تھا۔ آج فور لین ہم وار سڑکوں پر ایئر کنڈیشنڈ بسوں اور کاروں نے سفر کو آسان اور خوش گوار بنا دیا ہے۔
”اب تو تمھارے گاؤں تک پکی سڑکیں بن گئیں ہوں گی۔“
”جی صاحب، اب تو گاؤں میں بجلی بھی آنے لگی ہے۔ ٹیل پُھون اور ٹیلی وِجن بھی لگ گئے ہیں۔ اسکول اور اسپتال بھی بن گئے ہیں۔ کایا پلٹ ہو گئی صاحب، اب گاؤں گاؤں نہیں رہے، دو چار کو چھوڑ کر جیادہ تر مکان بھی پکے بن گئے ہیں۔“
میں نے لڑکپن میں جو گاؤں دیہات دیکھے تھے ان کے نقش ذہن میں محفوظ تھے۔ کچی دیواروں پر پتاور کے چھپر اور استراحت کے لیے پیال کے بستر یا بان کی چارپائیاں۔ دائم المریض اور مدقوق چہروں والے لوگ ننگی چارپائیوں یا دروازوں کی چوکھٹوں پر بیٹھ کر چلم کا دھنواں کھینچتے اور کھانستے دکھائی دیتے اور ان کے بچے جانوروں کے ریوڑ ہانکتے اور راستوں کی گرد اڑاتے ہوئے صبح کو کھیتوں کی جانب اور شام کر گھر کی طرف آتے ہوئے دکھائی دیتے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد بیرونِ ملک قیام کے طویل دورانیے میں مجھے نہیں معلوم کہ قصبوں اور دیہاتوں میں کیا کیا سماجی اور معاشرتی تبدیلیاں رُو نما ہوئیں؛ ہاں ٹیلی وژن اور دوسرے ذرائع سے سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کا پتا چلتا رہتا تھا۔
”صاحب!”اس نے مجھے مخاطب کیا۔
”آپ ملیح آباد میں رہتے ہو؟“ اس نے پوچھا۔
”ملیح آباد میں رہتا تھا مگر اب انگلینڈ میں رہتا ہوں۔“ میں نے جواب دیا۔
’’انگلینڈ میں تو انگریج رہتے ہوں گے۔“
”انگریزوں کے ساتھ اور لوگ بھی رہتے ہیں۔ ہندوستان اور دوسرے ملکوں کے لوگ بھی۔”
”وہا کا کانون تو بڑا بے ڈھب ہو گا۔“
”ہاں بے ڈھب ہی سمجھو،” میں نے ہنس کر کہا۔ “سب کے ساتھ انصاف ہوتا ہے۔”
’’صاحب اگر وہاں کوئی کسی جندہ آدمی کو مرا ہوا گھوشت کر دے تو کیا ہوتا ہے۔“
اس کے اس لا یعنی سوال پر میں نے اس کی جانب دیکھا۔
میرا جواب سننے کے لیے اس نے اپنا رخ میرے طرف کر لیا تھا۔ مجھے اس کی دماغی صحت پر شبہ ہوا۔
“میں تمھاری بات سمجھا نہیں۔“
”صاحب میرے بھائی نے مجھے مردہ گھوشت کر دیا ہے۔ اب میں تحصیل کے کاگجوں میں مر چکا ہوں۔“
میں نے قدرے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔
”یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی زندہ ہو اور اسے مردہ ثابت کر کے کاغذوں میں اندراج کرا دیا جائے۔“
“ایسا ہی ہوا ہے صاحب، یہ کام میرے بھائی نے لیکھ پال کی ملی بھگت سے کیا ہے۔“
تم نے لیکھ پال سے ملاقات نہیں کی۔“
کئی بار کی صاحب، وہ میری سنتا ہی نہیں۔“
”تحصیل دار سے ملو۔“
“ان سے بھی ملا صاحب، کئی سال سے تحصیل کے چکر لگا رہا ہوں، مگر کوئی سنوائی نہیں، پردھان جی کے سامنے بھی ہاتھ پیر جوڑے مگر وہ بھی نہیں سنتے۔ وہ تو ویسے بھی میرے بھائی کی مٹھی میں ہیں۔ میرا بھائی الیکسن میں ان کے لیے دوڑ بھاگ جو کرتا ہے۔ کیا کروں صاحب کسمت کھراب تھی۔ گاؤں کے لڑکوں کے بہکاوے میں آ کر اجودھیا چلا گیا۔ وہاں کچھ دن تو مجے میں گجرے، کھوب آؤ بھگت ہوئی ایک مہنت جی کے وہاں کھاتا پیتا اور ان کی سیوا کرتا رہا۔ مہنت جی آشواسن دیتے رہے کہ رام مندر بن جائے گا تو تمھیں دُکان کھلوا دوں گا۔ دُکان میں پوجا کی سامگری بیچنا بہت پھائدہ ہو گا۔ مگر جب مندر بنتے دکھائی نہیں دیا تو لوٹ کر گھر آ گیا۔ یہاں آ کے پتا چلا کہ بھائی نے ہمیں مردہ گھوشت کر کے ہماری جمین اپنے نام چڑھوا لی ہے۔ وہی ایک بگہہ جمین ہماری پونجی تھی صاحب … جمین تو اپنے نام کرا ہی لی تھی مکان سے بھی بے دکھل کر دیا۔ رہنے کا ٹھکانہ رہا نہ کمائی کا جریا۔
’’تو پھر اب کہاں رہتے ہو۔“ میں نے پوچھا۔
”صاحب گاؤں کے پاس ہی ایک مندر ہے اس کے پجاری جی کی سیوا کرتا ہوں اور مندر کی چوکھٹ پر ہی سو جاتا ہوں۔ پجاری جی کھانا بھی کھلا دیتے ہیں اور بیماری میں علاج کے لیے تھوڑے بہت پیسے بھی دے دیتے ہیں۔ وہیں مندر میں بیٹھ کر بھگوان سے پرارتھنا کرتا رہتا ہوں کہ وہ کوئی چمتکار دکھا دیں اور سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے۔
”تم کسی اچھے وکیل سے کیوں نہیں ملتے؟” میں نے کہا۔
”وکیل صاحب ہی سے ملنے گیا تھا صاحب، پجاری جی کے گاؤں کے ہیں، اب لکھنؤ میں رہنے لگے ہیں پجاری جی نے ان کے پاس بھیجا تھا۔
”وکیل صاحب نے کیا کہا۔“
صاحب ان کے پاس اتنا سمے ہی نہیں تھا جو میری پوری بات سنتے۔ بس یہ کہا کہ میں بیس ہجار لیتا ہوں۔ پجاری کی بات ہے تو تم پندرہ ہجار دے دینا۔ تمھارا پرمان پتر بن جائے گا۔“
کچھ توقف کے بعد اس نے کہا، ”اب صاحب جس کے پاس دو وکھت کے کھانے کے پیسے نہ ہوں وہ پندرہ ہجار روپے کہاں سے لائے۔ پجاری جی نے جو پیسے دیے تھے وہ سب کرایے بھاڑے میں کھرچ ہو گئے دن بھر کی دوڑ دھوپ الگ ہوئی۔
”تم درخواست لکھوا کر چیف منسٹر ڈی ایم اور دوسرے بڑے افسروں کے پاس بھیجو“ شاید وہاں تمھاری سنوائی ہو،“ میں نے مشورہ دیا۔
”صاحب پجاری نے ایک اسکول ماسٹر سے وہ بھی لکھوائی تھی میں نے ڈاک سے بھیجی بھی مگر کوئی جواب نہیں آیا۔
ریمائنڈر بھیجو۔ میرا مطلب ہے جو درخواست بھیجی تھی اسی کو پھر سے بھیجو۔“
”کونو پھائدہ ناہیں صاحب، جب سمے کھراب ہوتا ہے تو کوئی سنوائی نہیں ہوتی۔ جب سگے سمبندھی ہی نہیں سن رہے ہیں تو پھر اور کس کو جا کر اپنی بِپتا سناؤں۔ گاؤں کے وہی لوگ جو ساتھ اٹھتے بیٹھے تھے اب اس طرح میری اور دیکھتے ہیں جیسے میں واستو میں مر چکا ہوں۔ وہ تو میرا مجاک اڑاتے ہیں کہتے ہیں تمھارا کریا کرم کب ہو گا۔ صاحب میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں، آپ مجھے دیکھ رہے ہیں، میری باتیں سن رہے ہیں بھلا ایسے آدمی کو مردہ گھوشت کیا جا سکتا ہے۔”
”اس کے لئے تمھیں قانونی لڑائی لڑنی ہو گی،” میں نے کہا۔
“صاحب کانونی لڑائی میں تو جندگی بیت جائے گی میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں جو کھرچ کر سکوں اور دوڑ بھاگ کرنے کی سکت بھی نہیں۔ جب سے ٹانگ ٹوٹی ہے ٹھیک سے چل پھر بھی نہیں پاتا۔ اب کہیں نہیں جاؤں گا صاحب۔ اب تو بس مندر میں بیٹھ کر پوجا ارچنا اور بھگوان سے پراتھنا کروں گا۔ مندر ہی میری تحصیل ہے اور بھگوان ہی میرے وکیل ہیں،” اس نے درد آمیز لہجے میں کہا۔
خنکی بڑھ چکی تھی ہوا کے جھونکے بدن کو ٹھنڈا کیے دے رہے تھے۔ اب میں اس وقت تک شیشے نہیں چڑھا سکتا تھا جب تک وہ کار سے نیچے نہ اتر جاتا۔
“صاحب! میرا بھائی کہہ رہا تھا کہ اگر کوئی آدمی مردہ گھوشت کر دیا جائے اور وہ بعد میں مر جائے تو اسے مرا ہوا نہیں مانا جائے گا۔ معلوم نہیں اس کی بات کہاں تک صحیح ہے مگر جب سے اس نے یہ بات کہی ہے میں بھے بھیت رہنے لگا ہوں۔ رات برات کہیں نہیں آتا جاتا مندر ہی میں رہتا ہوں۔ کچھ توقف کے بعد اس نے کہا۔ آج رات ہو گئی ہے۔ ڈر لگ رہا ہے ہنومان چالیسا پڑھتا ہوا جاؤں گا۔ بھگوان ہی رکشا کرے گا۔”
اطمینان سے جاؤ کچھ نہیں ہو گا۔ میں نے تسلی دی۔
وہ خاموش ہو گیا۔ شاید کسی انہونی کا خوف اس پر طاری ہو گیا تھا۔
اب میں ملیح آباد پہنچنے کو تھا۔ اس خیال سے وحشت ہو رہی تھی کہ مجھے آبائی مکان کی اَزسرِ نو تعمیرکے سلسلے میں بھائی سے تبادلۂِ خیال اور باغات کی آمدنی کا حساب کر نے کے بعد لکھنئو واپس جا کر بیرونِ ملک کے لیے رختِ سفر باندھنا تھا۔
”ہاں ہاں صاحب، یہیں روک دیجیے، مجھے یہیں اترنا ہے۔” اس نے اونچی آواز میں اک بے قراری کے ساتھ کہا تو میں نے گاڑی روک دی۔
وہ کار کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا، میں نے اتر کر دروازہ کھولا اور اک فاصلے سے سہارا دے کر کار سے نیچے اترنے میں اس کی مدد کی۔
اس نے خود کو سنبھالنے کے بعد لاٹھی کندھے سے ٹیکی اور میری قدم بوسی کے لیے جھکتے ہوئے کہا۔ صاحب آپ بھگوان کا روپ ہو۔ آپ کا یہ اُپکار کبھی نہیں بھولوں گا۔
کوئی بات نہیں، آدمی ہی آدمی کے کام آتا ہے۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
کار میں بیٹھنے کے بعد میں نے سائیڈ مِرر میں دیکھا وہ کسی زخمی جانور کی طرح لنگڑاتا ہوا گھنے درختوں کے درمیان اک پگ ڈَنڈی پر مُڑ کر میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔