1۔ اندرون کی الف لام میم
از، یاسر چٹھہ
… آوازیں اور سچا مچا جھوٹ…
آپ کی کتابوں کی دنیا آپ کے کہنے میں خوب صورت ہو سکتی ہے، آپ کو لفظی جمال پسند ہو گا، مجھے تو وہ منشیات، نا پاک، کذبِ محض لگتا ہے۔
رومانویت بھلی ہوتی ہے، اگر وہ جگا کر رکھے، جِلا دے، جینا سکھائے۔ مرنے سے روکے۔ مرنا، نیند کا بھی عکس ہے، مرنا منشیاتِ نظر، منشیاتِ فکر، منشیاتِ عمل کا بھی بخرہ ہے… ان dots کو جوڑیے، اگر سوچتے ہو تو، مجھے تمہارے لیے سوچنا نہیں۔ مجھے تمہیں سوچنے پر لگانا ہے۔ مجھے تمہیں اپنے آپ سے الجھانا ہے کہ تم وہ راز پا جاؤ جو لطف و جمال کے نئے معنی قبولتا ہے، اجالتا ہے، چمکاتا ہے، سب زنگ اتارتا ہے۔
کیا تمہیں جھوٹ پسند نہیں؟ سب ادب، سب فن، سب نور، سب سایے، سب ہست، سب بود، سب نا بود جھوٹ ہی تو ہے، اے اشرف المخلوقات، اے بندر کے نوع سے اچھلتے کودتے دم پر آئے دُم چھلے، اے سرابوں کو اپنی چاند بستی کہنے والے، عقل اور فہم کے بودے! (آواز آتی ہے…، گَڑ گَڑ ہوتی ہے۔)
سہم جانے والا ماحول، روشنیاں لمحے کے nano بھر کے حصے میں گُل ہوتی ہیں۔ دیری نہیں۔ Flash ہوتا ہے۔ اور اندر کی مختاری کا واہمہ ہٹ دھرمی اور ضد کی قبائیں اور چوغے اوڑھے پہنے سینہ تان کھڑا ہوتا ہے۔ کہتا ہے:
مجھے جھوٹ بھی وہ پسند، جو ایک سچ کی آس کے پھول کھلائے، لیکن جھوٹ بھی کسے سچے انسان کا۔ کیا تم نے کبھی کسی سچے انسان کے جھوٹ کا رَس چَکھا،… نہیں؟
تم بہت محروم رہے ہو…!
میری تو کتابوں کی دنیا میں بھی وہ سچ ہے جو خون بن کر دوڑتا ہے، زخم کی صورت بہتا ہے، موجود کے خلاف قیامت کی جنگ کے رجز لکھتا یے کہ نئی دنیا کا وجود اس کی آس کی پھولوں کا حوالہ ہے۔ میری کتابیں مجھے کذبِ محض میں نہیں رکھتیں۔
جاؤ تم کو سزا دیتا ہوں، تمہیں نظر انداز کروں گا۔ تم منشیات پڑھو، منشیات سوچو، منشیات میں رہو، منشیات کے خواب دیکھو، مجھے تو کڑوے پانی بھاتے ہیں۔ بے شک، کڑوے پانی ہی سب سے زیادہ رسیلے ہوتے ہیں۔
2۔ قابیل کو کسی نے کیوں نا بتایا؟
نفرت کی اینٹوں سے بنی دیوار سیدھی نہیں چڑھتی؛ نفرت کسی اور کو کم، خود کو زیادہ کھاتی ہے؛ اے قتل شدہ رنج ہے کہ تھے تو تم انسان ہی نا…
احباب سمجھ نہیں پا رہے کہ نفرت کی پیامبری کے سانسوں کی ڈوری کاٹ دیے جانے پر گیت گانا رَوا ہیں، یا نوحے لَبوں پر ملنا مناسب ہے۔
میں تو وقت کو کاٹنے کا قائل ہوں۔ مجھے تضاد سے ڈر نہیں لگتا۔ مجھے قتل کسی طور قبول نہیں، بھلے وہ قتل کو اپنے لیے جائز سمجھ لینے والے، حلال قرار دینے والے کریں، یا اپنے ماتھے کا جھومر بنانے والے کریں۔ مجھے قتل انسان، انسانیت اور ہم احساسی کے بہتے دریا کا کنارہ توڑ دینے کی بات لگتی ہے۔
کل میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ اس سوال سے پہلے مجھے اپنے تخیلی وجود کی دنیا کا نقشہ بنا لینے دیجیے۔
میں نے سوچا میں کسی جادوئی دنیا میں ہوں۔ اس دنیا میں مجھے ایسا بنایا گیا ہے کہ میرے جتنے شعور ہیں، اتنے ہی شعوروں میں مجسم ہوں۔ مجھے سہولت تھی، اپنے آپ کا لمحہ تھا۔
میں تخیل کو اگلے درجے پر بہ رُوئے کار لایا۔
ایک صورتِ حال فرض کی۔ میں قتل ہو گیا ہوں۔ ایک اور فرض کیا کہ دنیا میرے قتل کو ہندسہ نہیں سمجھ رہی۔ (ایک شعوری تجسیم شکریہ ادا کرتی ہے) دنیا والے اس پر اپنی سوچ، اپنے تشدد سے عبارت سوچ، اپنی ناک کو خوش بُوئے انسانیت و ہم احساسی سے محروم کر کے حاصل شدہ شرع، فقہ، آئین، قانون، تعزیر کی خون آلود عینکوں کی نالیاں صاف کرتی ہے۔ میرے قاتل سے بدلہ لینے کو انصاف باور کرتی ہے۔
اتنے مفروضوں کے بادلوں میں گِھری اس دنیا میں میری ایک شعوری تجسیم اس سب طربیے کو، اس عقلِ سلیم کے تماشے کو، اس خرافاتی طنازی کو آنکھیں گول کر کے، (جو کہ اس وقت تک بھیگ گئی ہوئی ہیں،) دیکھتی ہے۔
دیکھ کر وہ شعوری تجسیم چیختی ہے، اور کہتی ہے:
مجھے میرے قاتل کا انصاف کے نام پر بدلہ، انصاف کے نام پر قتل قبول نہیں۔
میری یہ آخری تجسیم میرا سرمایۂِ افتخار ہو گا۔ میں اسے اپنی غالب پہچان سونپوں گا۔ آسمان کی اس بستی والے مجھے حیران آنکھوں سے دیکھیں گے، پاگل کہنے کو ہونٹوں کو جوڑیں گے ہی کہ میں کہہ اٹھوں گا:
میں انسان تھا، میں انسان ہوں۔
انسان را، مجھے ایک بار پھر قتل نا کرو۔ مجھے ایک بار پھر قتل نا کرو۔
اے کاش، یہی بات کوئی قابیل کے کان میں بھی ڈال دیتا۔ لیکن قابیل کے کان یہ بات نا سن پائے تھے، بد قسمتی۔
نتیجہ آج قابیل کا فلسفہ اور عمل زیادہ مقبول ہے۔