II سرمایہ داریت کی تاریخ
(اصغر بشیر)
سرمایہ داریت کے خلاف مذہبی بنیادوں پر پیڈوا کے چرچ میں پینٹنگ کی صور ت میں ہونے والے پہلے تاثر سے اس کے متعلق نقطہ نظر میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہی ہے۔ پیٹریولی کے ڈبل انٹری سسٹم نے طبعی طور پر حساب کو آسان کیا تو کیلون نے اخلاقی لحاظ سے سرمایہ داریت کی بنیاد فراہم کی جس کا پہلا قومی اور ملکی سطح پر اظہار ڈ چ ری پبلک کی صور ت میں ہوا۔ اسی شعور کو فروغ دینے میں ایڈم سمتھ نے بنیادی کردار ادا کیا جس نے منطقی انداز سے سماجی افعال اور کرداروں کو نئی ممکنات سے مطابقت کرنے کے لیے اصول وضع کیے اور دلائل سے ان اصولوں کو ثابت کیا۔ لیکن سرمایہ داریت کی وسعت کا اندازہ لگانے کےلیے مزید معلومات کی ضرورت ہے۔
کاٹن، جہاز سازی، سٹیل ، اور کوئلہ جیسی صنعتوں کی وجہ سے انیسویں صدی تک برطانیہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ اسی وجہ سے پہلے جو وسیع زرعی اراضی تھی کچھ ہی عرصے میں صنعتی کارخانوں اور ملوں میں تبدیل ہو گئی۔ اس دور میں معاشرے کی سب سے بڑی طاقت سرمایہ دار طبقہ بن گیا۔ لیکن اس کی وسعت کے ساتھ ہی اس پر اختلافات بڑھتے گئے۔ چارلس ڈکنز کا ناول ہارڈ ٹائمز مانچسٹر کو کیپ ٹاؤن کا فرضی نام دے کر اس میں سرمایہ داریت کے گھناؤنے چہرے کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اس دور کی نمائندہ کہانی ہے جس میں سرمایہ دار منافع کو بڑھانے کے لیے انسانی حدوں کو پار کرتے ہیں اور زر کی خواہش میں غیر انسانی احکامات تک صادر کرنے لگتے ہیں۔ یہی کہانی دوسری طرف انسانی مجبوریوں کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ انسان زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے غیر انسانی احکامات ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔چارلس ڈکنز کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
“It was a town of red brick, or of brick that would have been red if the smoke and ashes had allowed it; but as matters stood it was a town of unnatural red and black like the painted face of a savage.”
’’یہ سرخ اینٹوں سے بنا ٹاؤن تھا، یا ایسی اینٹوں کا جو سرخ ہوتیں اگر دھواں اور راکھ انہیں اجازت دیتی؛ لیکن معاملہ یہ تھا کہ یہ غیر فطری سرخ اور سیاہ کا ٹاؤن تھا جیسے ایک وحشی کا پینٹ کیا ہوا چہرہ۔‘‘
چارلس ڈکنز اس نظریہ کا مالک تھا کہ سرمایہ داریت برائی کو بڑھاوا دیتی ہے۔ یہ ایسا ماحول مہیا کرتی ہے جس کے اندر ایک سرمایہ دار بڑی آسانی سے دوسروں کا استحصال کر سکتا ہے۔ اگر سرمایہ داریت کے گھناؤنے افعال کے لیے اخلاقی یا منطقی دلائل پیش کرنے کی بات کی جائے تو معاشرے کا سمجھ دار طبقہ ہمیشہ کسی نہ کسی متاثر کن دلیل کو پیش کرتا رہے گا۔
سرمایہ داریت پر اعتراضات کی نئی جہت جان رسکن کی ان ٹو دا لاسٹ سے منظر عام پر آتی ہے جس میں رسکن سرمایہ داریت پر روایتی اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے نئی جہت پیش کرتا ہے۔ رسکن سرمایہ داریت میں کھپت کے پہلو کو زیر بحث لاتا ہے۔ وہ مزدوروں کی حالت زار اور ماحولیاتی آلودگی کی بات نہیں کرتا بلکہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ سرمایہ داریت کی بنیاد اس چیز پر ہے کہ وہ لوگوں کو فضولیات بیچتی ہے۔ ایسی چیزیں جن کی نسل انسانی کو ضرورت نہیں ان کو نہ صرف بیچا جاتا ہے بلکہ ان کی ضرورت بھی پیدا کی جاتی ہے۔ اس لیے رسکن کہتا ہے کہ زر نہ صرف اخلاقی معیار پر کمانا چاہیے بلکہ اس کو خرچ بھی اخلاقی طور پر کرنا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ پیسہ کمانا ہی اہم نہیں بلکہ اس کو مناسب انداز سے خرچ کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ رسکن کے نزدیک وینس کی خوبصورتی اور اس دور کے صنعتی انگلستان کی بدصورتی میں فرق صرف زر کے مناسب خرچ کا تھا۔
سرمایہ کا اجتماعی سطح پر رویہ کس جہت کو بدل سکتا ہے اس کی بہترین مثال مشرقی جرمنی میں شروع کیے گئے NOS ہے۔ جس کا بنیادی مقصد معاشرے میں ایسی سرمایہ کاری کا آغاز تھا جو وہاں کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم اور زندگی کی بنیادی راحتوں کے مواقع فراہم کرئے۔ لیکن اس نظام کے نتائج بھی کچھ سالوں بعد نظر آنا شروع ہو گئے جب 1974ء میں مشرقی جرمنی میں کافی کی قلت کی وجہ سے مظاہرے شروع ہو گئے۔ چونکہ گورنمنٹ اس کو مناسب مقدار میں درآمد نہیں کر پا رہی تھی، اس لیے انہوں نے نئی قسم کی کافی متعارف کروائی جس میں 51% کافی تھی اس کا نام نیس کیفے رکھا گیا۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ مظاہرین کی زبان بندی کے لیے خفیہ پولیس کا استعمال کیا گیا۔ اسی طرح 1989ء میں مشرقی جرمنی کے عوام برلن دیوار گرا کر جب مغربی جرمنی کی سپر مارکیٹ کی طرف دیوانہ وار بھاگے تو پتہ چلا کہ عوام کو فلسفہ، تقاریر، کھیلوں اور ٹی وی پروگراموں سے مطمئن نہیں کیاجاسکتا۔
آج ایپل کمپیوٹرز دنیا کی سب سے بڑی کارپوریشن ہے۔ اگرچہ اس کی کامیابیوں کی داستان بہت لمبی ہے لیکن اجتماعی انسانی کہانی آج بھی اسی مقام پر رکی ہوئی ہے۔ کارپوریشن پر لگنے والے الزامات اس بات کی شہادت ہیں کہ آج بھی مزدور طبقہ آج بھی پس رہا ہے۔ ایپل کی واچ کو دیکھ کر ایک سوال تو کم از کم کیا جا سکتا ہے کہ کیا ترقی پذیر ممالک کی اکثریت عوام خون پسینہ صرف اس لیے بہا رہی ہے کہ ان وسائل کو ایسے کاموں میں استعمال کیا جائے جن کا بظاہر کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔
خلاصہ ان الفاظ میں کیا جا سکتا ہے کہ سرمایہ داریت جان بوجھ کر ایسے مواقع فراہم کرتی ہے جن میں مزدور طبقہ کا با آسانی استبداد کیا جا سکتا ہے۔ اس کو صرف شعوری کوششوں اور مسلسل نگرانی سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ سرمایہ کی اکثریت ایسے پروجیکٹس پر استعمال کی جا تی ہے جن کا بظاہر کوئی ضروری مقصد نظر نہیں آتا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ شعوری کوششوں سے مثبت اعمال کے نتیجہ میں منافع کمایا جائے اور انسانی فلاح کے لیے کوشش کی جائے۔
ماخوذ
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.