کیپٹن سرور شہید : سنگھوری سے تل پترا کی بلندیوں تک
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
کچھ نقش ایسے ہوتے ہیں جن کی دل کشی وقت اور فاصلوں کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کیپٹن سرور شہید ایسا ہی ایک نقش ہے۔ جس نے شجاعت اور بہادری کی نئی تاریخ رقم کی اور اپنی جان کا نذرانہ دے کر پہلا نشان حیدر حاصل کیا۔
کیپٹن سرور شہید کا تعلق پوٹھوہار سے تھا۔ پوٹھوہار، جہاں کے کتنے ہی سجیلے جوان اور جرنیل وطن کے ماتھے کا جھومر بنے اور کتنے ہی شہیدوں کے لہو نے اس سرزمین کو گلنار کیا۔ مدت سے میرے دل کے ایک گوشے میں کیپٹن سرور شہید کی یاد مہک رہی تھی۔
پھر ایک دن اچانک دل میں ایک خواہش ہمکنے لگی کہ کیپٹن سرور شہید کے گاؤں جاؤں۔ ان گلی کوچوں کو دیکھوں جہاں کیپٹن سرور کا بچپن گزرا۔ ان بادلوں، کھیتوں، پھولوں اور آسمان کو دیکھوں جن کو کیپٹن سرور کی آنکھوں نے دیکھا تھا۔ لیکن میں اس گاؤں میں کس سے ملوں گا؟
سنا ہے کہ اب کیپٹن سرور کے خاندان کا کوئی فرد وہاں نہیں رہتا، لیکن کہتے ہیں: جذبے صادق ہوں تو اندھیروں میں بھی راستے روشن ہو جاتے ہیں۔ ایک روز عزیز دوست آئی ایس پی آر کے بریگیڈیئر طاہر محمود کے توسط سے کیپٹن سرور شہید کے پوتے میجر عدیل سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے کیپٹن سرور سے متعلق بہت سی نادر دستاویزات مجھ سے شیئر کیں، لیکن میں شہید کے گاؤں جا کر اس سارے ماحول کو محسوس کرنا چاہتا تھا، جہاں کیپٹن سرور نے اپنی زندگی کے شب و روز گزارے۔
یہ اگست کا مہینہ اور چھٹی کا دن تھا جب میں کیپٹن سرور شہید کے گاؤں سنگھوری کے سفر پر نکلا۔ اس روز آسمان پر بادلوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ اسلام آباد سے نکلیں تو روات کا شہر آتا ہے۔ روات سے آگے ایک سڑک بائیں طرف سنگھوری کی طرف مڑتی ہے۔
اسی موڑ پر میری ملاقات جاوید امجد بھٹی سے ہوئی۔ وہ اس علاقے کی معروف سماجی شخصیت ہیں۔ اس سفر میں وہ میرے گائیڈ بن گئے۔ سب سے پہلے ہم خالد مسعود صاحب کے گھر گئے۔ خالد صاحب اور ان کے خاندان کے افراد کیپٹن سرور شہید کے معتقدین میں شامل ہیں۔
مزید دیکھیے: جنگ ستمبر اور ہمارا ٹی وی ڈرامہ از، حسین جاوید افروز
انہوں نے بتایا کہ کیسے کیپٹن سرور نے ان کے والد کی تعلیم اور نوکری کے حصول میں رہنمائی اور مدد کی۔ یہیں گاؤں کی ایک بوڑھی عورت سے ملاقات ہوئی جس نے بتایا کیپٹن سرور گاؤں میں اپنی سخاوت کی وجہ سے ”سخی سرور” کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ ہر کسی کی مدد کرتے تھے۔
کہتے ہیں، جاڑوں کے موسم میں کیپٹن سرور نے ایک مزدور کو دیکھا جس کا نام ایوب تھا، اور جو سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔ انہوں نے اپنا کوٹ اتارا، اس کی جیب میں کچھ پیسے رکھے اور کوٹ ایوب کو دے دیا۔ ایوب نے گھر جا کر دیکھا کہ کوٹ میں پیسے پڑے ہیں تو انہیں قدموں واپس آیا۔
کیپٹن سرور نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا: یہ کوٹ اور اس میں پیسے تمہارے لیے تھے۔ میں نے اپنے گائیڈ بھٹی صاحب سے کہا: اس گاؤں میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے کیپٹن سرور کو دیکھا ہو۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور ایک طرف اشارہ کیا۔
ہم آڑی ترچھی گلیوں میں گھومتے ہوئے ایک گھر کے سامنے آ گئے۔ گھر کی دیواریں بوسیدہ تھیں۔ دیوار کے ساتھ جامن کا پرانا درخت تھا۔ کچھ جامن زمین پر گرے تھے۔ گھر کا دروازہ نیم وا تھا۔ بھٹی صاحب نے دروازے پر دستک دی۔ جواب پر ہم گھر میں داخل ہو گئے۔
ایک چھوٹے سے کمرے میں چارپائیاں بچھی تھیں۔ ہم ان پر بیٹھ گئے۔ یہیں ہماری ملاقات سکینہ بی سے ہوئی جس کی عمر 120 سال سے اوپر تھی۔ اس نے کیپٹن سرور شہید کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ سکینہ بی نے بتایا: سرور شہید ہمارے علاقے کا پھول تھا، بہت ہمدرد، بہت غریب پرور سب کے کام آنے والا۔
اسے وہ دن بھی یاد تھا، جب کیپٹن سرور شہید کی شادی ہوئی۔ بہت سادگی سے۔ صرف چند لوگ تھے، گنے چنے۔ ان کی بیوی کا نام کرم جان تھا۔ ہم یہاں سے باہر نکل کر پگڈنڈی پر چلنے لگے۔ میرے دائیں بائیں کھیت تھے، جہاں موسموں کی مناسبت سے گندم، مونگ پھلی، مکئی، جوار اور سرسوں کے رنگ بکھرتے ہیں۔
ان رنگوں نے کیپٹن سرور کی آنکھوں میں بھی اپنا عکس چھوڑا ہو گا۔ اب ہم کیپٹن سرور کی یادگار کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمیں راستے میں اس علاقے کے مخصوص درخت ملتے ہیں دھریک، بیری، پھلائی، کیکر، شہتوت، پیپل اور بوہڑ کے درخت۔
ان درختوں کو کتنی ہی بار کیپٹن سرور شہید کی آنکھوں نے دیکھا ہو گا۔ کیپٹن سرور شہید کی یادگار ایک چہار دیواری کے اندر تعمیر کی گئی ہے جہاں لوگ دور دور سے عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کیپٹن سرور شہید کا جسدِ خاکی یہاں نہیں بل کہ یہاں سے بہت دور کشمیر میں واقع نو ہزار فٹ بلند پہاڑی تل پترا میں مدفون ہے۔
میں یاد گار پر پھول رکھتا ہوں، دعا کرتا ہوں اور پھر یادگار کی چہار دیواری سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ میری آنکھوں میں کیپٹن سرور شہید کا سنگھوری سے تل پترا تک کا سفر ایک لمحے میں سمٹ آتا ہے۔ 15 اپریل 1929ء کو وہ بلوچ رجمنٹ میں بطور سپاہی بھرتی ہوئے۔ کراچی کے بلوچ سینٹر سے ٹریننگ حاصل کی۔ جنگ عظیم دوم میں شریک رہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان آرمی کو جائن کیا اورکیپٹن کا رینک ملا۔ 1947ء میں بھارتی فوج سری نگر میں آ گئی تھی اور اس کا ارادہ کشمیر میں مزید پیش قدمی کا تھا۔ پاکستانی فوج کے جوان ان کی راہ میں حائل تھے۔ ان دنوں کیپٹن سرور شہید راولپنڈی میں ایک کورس کر رہے تھے۔ انہوں نے درخواست دی کہ میں محاذ پر جانا چاہتا ہوں۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ کیپٹن سرور کو اجازت مل گئی۔
اس روز وہ فجر کی نماز کیلئے مسجد میں گئے اور مسجد کے امام سے درخواست کی کہ دعا کریں کہ مجھے شہادت کی موت ملے۔ محاذ پر پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ ایک بلندوبالا چوٹی ہے، جس کا نام تل پترا ہے۔ وہاں دشمن کی چوکی ہے۔ پاکستانی کمانڈر نے کہا: اگر تل پترا کی یہ چوکی زیر ہو جائے تو جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے لیکن اس سارے عمل میں سپیڈ اور سرپرائز فتح کی ضمانت دے سکتے ہیں۔
یہ ایک انتہائی مشکل اسائنمنٹ تھی۔ کمانڈر نے کہا: کون ہے ایسا والنٹیئر جو اس اسائنمنٹ کو پورا کرے گا۔ کیپٹن سرور نے سب سے پہلے جواب دیا: میں یہ کام کروں گا۔ وہ 27 جولائی اور 20 رمضان کی تاریخ تھی۔ رات کی تاریکی میں کیپٹن سرور چھ سپاہیوں کے ساتھ تل پترا کی چوکی کی طرف بڑھنے لگے۔
بلندی پر پہنچ کر کیپٹن سرور نے دیکھا کہ راستہ خادار تاروں سے بند کر دیا گیا ہے۔ اچانک دشمن فوج کو کیپٹن سرور کی موجودگی کا احساس ہوا۔ ایک گولی کیپٹن سرور کے کندھے پر لگی۔ ان کا ساتھی فرمان علی فائرنگ سے شہید ہو گیا۔ کیپٹن سرور نے اس کی گن سنبھال لی اور زخمی حالت میں خاردار تاروں تک پہنچ کر انہیں کاٹنے لگے۔ آخر خاردار تاریں کٹ گئیں اور پاک فوج کو آگے بڑھنے کے لیے safe passage مل گیا۔
کیپٹن سرور نے اپنے ساتھیوں کو پکارا کہ راستہ صاف ہے۔ پاک فوج کے جوان فوراً پیش قدمی کرکے آگے بڑھ گئے۔ کیپٹن سرور کے جسم پر کئی گولیاں لگیں۔ وہ زمین پر گر گئے لیکن ان کا مشن مکمل ہو چکا تھا۔ پاک فوج کی پیش قدمی میں حائل رکاوٹ ختم ہو چکی تھی۔
زخموں سے چھلنی جسم سے لہو تیزی سے بہہ رہا تھا۔ اب کیپٹن سرور شہید کی خوب صورت آنکھیں بند ہونے لگی تھیں۔ دمِ رخصت کتنے ہی بھولے ہوئے منظر ان آنکھوں کے سامنے گزر رہے ہوں گے۔ اپنے گاؤں کی ٹیڑھی میڑھی گلیاں، حدِ نظر تک پھیلے سرسوں کے سنہری کھیت، کاسنی رنگوں والی دھریکیں، زرد بُور والے کیکر، ٹھنڈی چھاؤں والی ٹاہلیاں، میٹھے پانی والا کنواں، اونچے مینار والی مسجد، گھر کی کیاریوں میں کھلے ست برگے کے پھول اور لکڑی کی دہلیز پر راہ تکتی کرم جان اور دو ننھے معصوم بچے۔
پھر ان بند ہوتی ہوئی آنکھوں نے اپنے اوپر تل پترا کے آسمان کو دیکھا ہو گا۔ یہ میں کہاں آ گیا ہوں؟ بند ہوتی ہوئی آنکھوں میں سوال جاگا ہو گا۔ ”سنگھوری کے میدان سے تل پترا کی بلندیوں تک” ہوا کے جھونکوں نے جواب دیا ہو گا۔ ”اسی منزل کی تو آرزو تھی مجھے۔‘‘
کیپٹن سرور نے سوچا ہو گا۔ اس خیال سے کیپٹن سرور کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ہو گی۔ ایک اطمینان بھری مسکراہٹ کہ رفعتوں کا یہ سفر ہر کسی کا مقدر نہیں ہوتا۔