خالو جہلم والا، چاچا برمنگھم والا، ماما اٹلی والا اور وہ بھاگتی لڑکی کا اشتہارِ کریمی
از، یاسر چٹھہ
کریم والوں جیسے اشتہار اور باتیں سن کر اگر آپ کو غصہ آئے، اور تسلسل سے آتا جائے تو آپ کسی آزاد ملک کے آزاد شہری اور انسان سے کہیں زیادہ دھواں دار اور نقطۂِ کھولاؤ پر پہنچ چکے چاچا جی، چاچی جی، خالہ جان، خالو جان وغیرہ، وغیرہ بن چکے ہیں۔
شور تھوڑا کم کیجیے، اور اپنی فکر زیادہ۔ آپ کے دماغ میں حسِ مزاح کے خُلیات کی تعداد روز روز کے شور و غُل سے مر مر کر انتہائی نچلے درجے تک آن پہنچی ہے۔
اپنا خیال کیجیے ایسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر دل مت جلایا کیجیے۔ یوں تو معلوم پڑتا ہے کہ آپ اگر اس جیسے اشتہاروں اور ان جیسی باتوں پر اپنا فشارِ خون blood pressure کسی سروس سٹیشن پر کار واش والے کے پائپ جتنا کر لیتے ہیں تو مزید نمک کھانے سے حکیموں، طبیبوں، ڈاکٹروں کو آپ کو روکنا چاہیے۔
لیکن ہم اپنی نیم حکیمی میں یہ نسخۂِ نمکین ارزاں کیے دیتے ہیں۔ مزاح کلام کا نمک ہوتا ہے۔ اسے چُٹکی بھر لے لیجیے… ممم ممھا … مزاح کو کلام کا، بَل کہ اشتہار کا بھی صرف نمک مان لیا کیجیے، نہ کہ دل کو جلانے واسطے اسے بھی گندھک کا تیزاب بنا لیں۔ پہلے ہمارے دوست آفتاب اعوان کا کہا دیکھیے جو اس قدر رنجیدہ ہیں کہ انہیں وہ اشتہار جس پر اخلاقی توپوں کے دھانے گرم لو جاتے تھے دیکھ نا پائے:
پیرو مرشد یوسفی کی کیا بات ہے غالب کی طرح ہر جگہ کام آتے ہیں۔ ایک محفل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہاں پر دو لڑکوں نے ایسی شرٹیں پہن رکھیں تھیں کہ جن پر ایسی تصاویر تھیں کہ انہیں دیکھ کر ہر شریف شخص بے اختیار لاحول پڑھنے لگتا تھا۔ اور ہم نے دیکھا کہ ہر شریف شخص بار بار لاحول پڑھ رہا تھا۔ یہ لائنیں یوں یاد آئیں کہ کریم والوں نے بڑی زیادتی کی۔ ہمیں لاحول پڑھنے کا موقع دیے بغیر اپنا اشتہار غائب کر دیا۔ بطور ایک غیرت مند پاکستانی ہمیں بھی حق تھا کہ اس اشتہار پر غم و غصے کا اظہار کرتے اور اپنی اقدار کی بربادی کا نوحہ پڑھتے۔ مگر ہم نے چُوں کہ وہ اشتہار دیکھا ہی نہیں اس لیء لا حول پڑھنے کے ایک نادر موقعے سے محروم رہ گئے اور غم و غصے کے اظہارکا شوق بھی دل میں ہی رہ گیا۔
آفتاب صاحب کا قلق تو ایک طرف رکھیے کہ وہ گہرے رنج و غم میں ہیں کہ موقعہ ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ویسے بتائیے آپ کس فکر میں ہیں۔
بھئی، آپ کو آخر کیوں لگا کہ لڑکی نکاح یا شادی سے بھاگ جائے گی؟ اور وہ واقعی بھاگ جائے گی۔
کیا آپ کیا کبھی زبر دستی کسی کا نکاح اور شادی کرتے ہی؟ نہیں کرتے ناں۔
آپ بھلا کون سے کوئی ہیروئنچی اَبّے ہیں جو اپنی چند دن کی پروازِ جُنوں کے خرچے پانی کے لیے، ہاں میرا مطلب ہے کہ، وغیرہ وغیرہ؟
آپ کون سے گھر کی زمین جائیداد، گھر ہی میں رکھنے کی فکر میں پگھلتے اور بخارات vapours میں بدلتے چاچے تائے ہیں کہ جو کوئی بھاگنے کا سوچ بھی سکے؟
آپ بھلا کون سے مامے، خالو، پھوپھا وغیرہ ہیں جو گھر کے دریا کی سمندر پار نیشنلٹی، گھر کے دریا میں قید کرنے، یعنی اوّل خویش بعد درویش، کے بیضوی چکر میں کبھی زبر دستی نکاح و عقد کرتے ہیں کہ جو شادی کسی لڑکی کو بوجھ لگے گی؟
آپ کون سی خاندانی زمین کو بچانے واسطے کسی نامیاتی جائیداد یعنی لڑکی کی قرآن سے شادی کرنے پر یقین رکھتے ہیں؟
بھاگنا تو ویسے ہی مُنڈوں شُنڈوں، لڑکوں مردوں کا کام ہے۔ لڑکیاں کب بھاگتی ہیں، کاٹ کے نا رکھ دیں ایسی نا ہنجاروں کو غیرت مند اور گھر اور اپنی ناکوں کے محافظ۔ تو یہ شادی سے بھاگتی لڑکیاں کارٹون ہیں، یہ انسان نہیں ہوتیں۔ یہ ایجنڈوں کا شکار، اور خبروں کے بیوپاریوں، ویب لنکوں کے کلِک کمائی گیروں کے ذہنوں کا کڑوا و زہریلا ثمر ہوتی ہیں۔
یہ کریمی اشہار انتہائی غیر یک ساں نصابِ تعلیم کے پڑھنے، لکھنے، سوچنے اور بعد میں ہنسی مذاق اڑانے والوں کے انتہائی غیر سنجیدہ ذہنوں کا شاخسانہ اشتہار ہے۔ انہیں کیا پتا کہ مقامی لوگوں میں سے تو کوئی بھی ایسا نہیں جو زبر دستی لڑکیوں کے ہاتھ کے ساتھ اپنے کسی لالچ حرص میں ہاتھ کر جائے۔
ہمارے ہاں تو لڑکی کی شادی اور نکاح سے پہلے مبلغ تین بار، نصف جن کا مبلغ ڈیڑھ بار ہوتا ہے، دھان پان کے لوگوں، گولا فائرنگ کرتے دھوم دھام سے آئے، چھوہارے پتاشوں اور روٹی شوٹی کا انتظار کرتے باراتیوں کی آس پاس موجودگی میں فلاں، ابنِ ڈھمکاں سے بہ رضا و خوشی منکوحہ بننے کا خطرہ مول لینے کا دریافت کیا جاتا ہے۔ وہ البتہ آگے سے رو پڑتی ہے۔ یہ ہاں ہوا، کہ ناں۔ کیا بات کرتے ہو بھئی؟ صاحب، یہ ہاں ہی تو ہے۔ ہمارے ہاں عورت کا ہر جواب وہی ہوتا ہے، جو ہم نے سوچا رکھا ہوتا ہے۔
تو بس پھر مبارک باد شروع… چھوہاروں کی تقسیم کاری، روٹی پر یلغار… اوراور پھر چل سو چل۔ انگریز شاعر نے کسی اور موقعے پر کہا، حالاں کہ وہ اس موقعے پر بھی کہہ سکتے تھے:
“God’s in His heaven — All’s right with the world!”