چھوٹا منھ بڑی بات، یا بڑا منھ چھوٹی بات (طنز و مزاح)
از، یاسر چٹھہ
سرِ نوشت: مضمون پڑھنے سے پہلے پسِ نوشت پڑھ لیجیے، کہ زندگی بہت چھوٹی ہے۔
آپ کہاں پیدا ہوئے؟ ذاتی معاملہ ہے؟ ایسی بات آپ کیسے پوچھ سکتے ہیں۔ بھئی پریشان مت ہوئیے۔ مت بتائیے کہ گھر میں نسل در نسل تجربہ کار دائی کے ہاتھوں پیدا ہوئے، اسپتال میں انسانیت کے پیشہ ور مسیحا کے ہاتھوں جنمے، یا پھر پھنسی ہوئی ٹریفک کی وجہ سے بر سرِ سڑک کسی رکشہ میں آنکھ کھولی۔ آپ دنیا میں تشریف لائے۔ بڑا ہونے میں دودھ اماں محترمہ نے پلایا، یا کہ گاؤ ہی ماتا بنی؛ دودھ تازہ ملا یا ڈبہ پر ہی پل بڑھ گئے۔
سماجی اجتماعی ضمیر کی یادداشت میں کچھ کرچیوں کی آواز سنائی دینے لگی ہے۔ کون سی آواز؟ ماں کے رشتے کی جدید زمانہ میں تھوڑے بدلتے سبھاؤ بارے میں؛ اب بچے کا پیدائش کے بعد سب سے زیادہ قربت کا رشتہ چوسنی اور فیڈر کی بوتل سے ہوگیا۔ آہ! جدت کو دوش دے دیا؟ لیکن مغربی ملک جو جدت کے سرخیل ہیں، وہاں تو ماں اپنی شفقت مادارانہ کے ہاتھوں اب فیڈر سے رقابت پال چکی۔ اب یہ عارضہ شہری اور نیم شہری علاقوں کی پاؤ نا پڑھی، وختے کو پڑی ماں کی اجارہ داری بنتا جاتا ہے۔ (یہ بات کدھر کو چلی جا رہی ہے، ہم تو آج کسی اور بات کے پیچھے تھے۔)
آپ جیسے پیدا ہوئے، تیسے بڑھے اور پھلے پھولے وہ بپتا پھر کبھی سہی۔ سر دست یہ تو بتا ہی دیجیے کہ آپ کھاتے پیتے کیا ہیں؟ (آواز آتی محسوس ہوتی ہے، یہ کیا ہوا آج آپ کو؟ کیسے سوال پوچھے ہی پوچھے جا رہے ہیں؟) بھئی بہت ہی سخت پرائیویسی کا دائرہ کھینچا ہوا ہے آپ نے اپنے ارد گرد؛ دائرہ کیا کہیں بلکہ پرائیویسی کی زرہ پہنی معلوم ہوتی ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ انٹرنیٹ سے کوئی بھی سافٹ ویئر ڈاؤنلوڈ کر کے انسٹال کرتے، جانے کس لمبی کہانی کے آخر پر Yes, I gree کے لنک کے سر پر آپ فوری دستخط کر دیتے ہیں۔
آپ کچھ نہیں بولتے بتاتے تو ہم میاں انار سلطان کی کہانی سناتے ہیں کہ ان کے ساتھ وقت اور بدلتے کلچر نے کیسا برتاؤ کیا۔ یہ مت بھولیے کہ میاں انار سلطان کی حیات طویل کی گونا گونی کسی ایک مضمون کے کوزے میں بند نہیں ہو سکتی۔ میاں صاحب، کوئی دریا تھوڑی ہیں۔
بہرحال، میاں صاحب ایک گاؤں میں نسل در نسل کی تجربہ کار دائی کے ہاتھوں پیدا ہوئے۔ ان کی اماں نے انہیں اتنی دیر تک اپنا دودھ پلایا جب تک میاں انار سلطان کے والد صاحب کی مردانگی اور جنسی زرخیزی صبر کر سکی۔ جان رکھیے کہ یہ سب امر خداوندی سے ہوتا ہے کہ کب دنیا میں پہلے سے آن موجود بچے کو دودھ نصیب ہو۔
پر؟ ہاں تو وہ کتاب مقدس میں جو کہا گیا تھا کہ ڈھائی اور تین سال تک بچوں کو دودھ پلانا ضروری ہے؟ بھئی زمینی لوگوں کو کتاب مقدس کی فکر صرف مخصوص حالات میں ہی ہوتی ہے، جب کسی مذہبی اقلیتی طبقے کی بستی جلانا ہو، یا اپنے سے دیگراں مکتبہ ہائے فکر کی گرفت و تکفیر کرنا ہو؛ باقی حالات میں مقدس کتاب تعویذ کرا کے گلے اور بازو میں لٹکانے کے کام آتی ہے۔ اس کے علاوہ مقدس کتاب کا گھر ایک خوبصورت ریشمی غلاف اور عمدہ لکڑی کی وارنش سے نکھری رحل ہوتی ہے۔
سو امر خداوندی، یا میاں انار سلطان کے ابا جان کی مردانہ “جاہ و حشمت” میاں صاحب کو دودھ چند مہینے ہی نصیب ہوا۔ پھر گاؤ بھی ماتا نا بن سکی کیونکہ گھر میں بھینس کا دودھ ہی میسر تھا۔ بھینس کا دودھ پیتے پیتے دانت نکلے تو ٹھوس غذا کے قدم اٹھتے ہوئے بغیر کسی چاپ کے سنائی دیے۔
میاں صاحب پراٹھے سے ٹھوس غذا کا آغاز کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مہینے ایک بعد کھیر بھی کھانے کو ملتی، البتہ ہفتے میں ایک آدھ بار چاول ضرور کھا لیتے۔
فطرت اپنے مقاصد کی نگہبانی کرتی گئی۔ میاں صاحب کسی بھی نہال کی طرح نیچے سے اوپر بڑھتے گئے۔ میاں صاحب اپنے گاؤں میں رہتے اور بڑھتے بڑھتے تربوز، خربوزہ اور گرمیوں کی سوغات آم وغیرہ منھ کے کم سے کم رقبے، آستیوں کے کم سے کم کپڑے اور سینے پر پہنے ہوئے کُرتے کی کم سے کم پٹی پر گرائے کھانے میں خاصے چابکدست ہو گئے تھے۔ اب وہ یہ سارے کام کئی ایک چیمپئین جدید افسانہ نگاروں کے ایک افسانہ لکھنے کے چند لمحوں کے فرق وقت میں ہی نبھا لیتے تھے۔
پلیٹ سے چمچ کی مداخلت بے جا کے بغیر، ہاتھ کی چار انگلیوں مع ایک انگوٹھے کو نیم دائرہ semi circle کرکے چاولوں کو گرفت میں لا کر منھ میں ڈالنے میں اچھی خاصی مہارت حاصل کر لی تھی۔ اس کارروائی میں بھی انہیں اردو کالم نگاروں کے مردم شماری کے تجزیاتی کالم لکھنے سے کچھ زیادہ وقت نہیں لگتا تھا۔
کھیر بھلے کیسی ہو ایک انگلی ٹیڑھی کر کے پلیٹ یا پیالے سے اتنی سی دیر میں ایسے چٹ کر جاتے تھے جتنی دیر جنرل مشرف اور چودھری نثار کی کمر درد کے ظہور ہونے میں لگتی ہے۔ میاں انار سلطان کی اسکول کی زندگی کی تفصیلات کبھی پھر سہی۔
گوکہ اس بات کا تعین کرنا مشکل امر رہا کہ ان کی شخصیت کی تعمیر و جلا بخشی میں سرکاری نصاب و مکتب کی کرامت زیادہ تھی یا اردو کالموں اور پی ٹی وی کے خبر ناموں کی؛ البتہ مختصر کہنے دیجیے کہ کسی طرح کالج پہنچ گئے۔ سر دست یہ کہنے دیجیے کہ بمطابق انگریزی محاورے کے کہ تفصیلات میں شیطان کا گھر ہوتا ہے، اس لیے ہم اس وقت تفصیلات سے گریز کر کے شیطان رجیم و مردود کو آس پاس نہیں آنے دیں گے۔
پراٹھوں، سیدھی ٹیڑھی کھیروں، کھلے منھ اور اونچی سروں کے متقاضی پھلوں جیسا کہ تربوز، خربوزہ اور آموں کے کھانے کی دیسی مہارتیں حاصل کرتے میاں صاحب شہر لاہور کے ایک بڑے کالج میں پہنچے۔ ہاسٹل میں بھی پڑ جانا نصیب ہوا۔ کالج کا نام تھا گورنمنٹ ایف سی کالج۔ یہاں کے ہوسٹلوں کا کھانا مشہور تھا۔ اسلامیہ کالج سول لائنز اور گورنمنٹ کالج لاہور کے ہوسٹلوں کی نسبت کھانا ملتا بھی با عزت انداز سے تھا۔ تو ہوا کیا؟ میاں انار سلطان اب صاحب بننے کی دشوار گزاریوں گھاٹیوں میں پا بندِ سفر ہوئے۔
ہاسٹل کے مینیو میں بریانی بننے کا مقرر دن آیا۔ یہاں لاہور میں پلاؤ بے چارے کی آنکھوں میں تھوڑے سے مصالحہ کی دھول جھونک کر اسے بریانی کا نام دینا آج بھی معمول ہے۔ اس وقت بھی معمول تھا۔ تاریخ دائروں میں گھومتی تو سنا ہوگا، تاریخ رکی ہوئی بھی جان لیجیے، اب ہمیں اپنی سپریم کورٹ کی مثال دینے سے بچا لیجیے کہ خواہ مخواہ توہین کی توپ کے گولے گروائیں۔ (کراچی اور حیدرآباد والے اپنے قہقہے دبا کر رکھیے، آپ کے راز داں بھی ہم ہیں، ایسے ہی تو نہیں آپ کو چونا آسانی سے لگ جاتا ہے، لیکن مرچیں زیادہ ہونے کے باوجود نہیں لگتیں [سمائلی]
میاں صاحب اس پلاؤ مارکہ بریانی سے اپنے ہاتھ کی انگیلوں اور انگوٹھے کی اتحادی حکومت کے مطابق حسب دستور و معمول نبردآزما ہونے لگے تو ساتھ بیٹھے نوزائیدہ دوست کمبوہ صاحب نے کانٹے اور چمچ کی طرف اشارہ ابرو سے متوجہ کیا۔ اشارے بھلے ٹریفک کے ہوں، یا ابرو کے لاہور میں کہاں کام کرتے ہیں۔
کمبوہ صاحب کو میاں صاحب کے ہاتھ میں چمچ اور کانٹا پکڑانا پڑا۔ میاں صاحب کو آج سے اس مشکل طریقے سے کھانا زہر مار کرنے پر لگنا پڑا۔ جسے یہ ظالم شہروں والے کلچر کہتے ہیں، آزاد طبعوں پر کیسا گراں گزرتا ہے! آہستہ آہستہ میاں انار سلطان لاہور کے شہر روماں میں لاہور کے رومیوں کی طرح کرنے لگے۔
ناشتے میں میاں صاحب اب پراٹھے کی جگہ کبھی بریڈ ٹوسٹ مع جام jam (دوسرا ہم آواز جام کس مومن کو اس قدر آزادی و آسانی سے بھلے کیسے ملتا ہے) لینے لگے، تو کبھی سینڈوچ وغیرہ۔ اس ٹوسٹ اور سینڈوچ وغیرہ کو تو میاں صاحب کی اپنی ہاتھ کی گِبی (پنجابی لفظ برائے ہتھیلی کا نوکدار ورژن) سے ٹوٹے تربوز کی طرح منھ کو ہر ممکن حد تک دائروں سے بگڑتی مستطیلوں سے معدے تک پہنچانے میں مہارت کی کامرانی کا تجربہ و مشق کام آتی رہی۔
اب میاں صاحب تربوز وغیرہ کو پھلِ جاہلاں و تہی تہذیباں جاننے کی ذہنی کایا کلپ میں آہستہ آہستہ آتے جا ر ہے تھے۔ لیکن انہی دنوں فارمن کرسچیئن کالج، جو ان دنوں گورنمنٹ ایف سی کالج کے نام سے موسوم تھا، کے قریب گلبرگ میں میکڈونلڈز کا ریستوران کھل گیا۔ میکڈونلڈز والے بابا جی اور اور چچا جان سام کے بَر تریں کلچر کے غوغا اور عالم گیریت کے ڈھول تاشوں میں اب میکڈونلڈز کا کھائے ہونا اور اس پر مبصر کے درجے پر فائز ہونا نئی کایا کلپ کے بنیادی نصاب کا اہم مضمون تھا۔
تو چلے گئے میاں انار سلطان مع اپنے کمبوہ صاحب اور احباب دیگراں اس گلبرگ والے میکڈونلڈز میں۔ وہاں جا کر بڑے سے برگر ملے بڑے سے نوٹ دینے کے عوض۔ میاں صاحب کے ہاتھ کافی بڑے تھے، مگر وہ بڑا سا تہذیبی برگر ان کی انگلیوں اور ہاتھ کی گرفت میں بہت مشکل سے آیا۔ خیر پکڑ ہی لیا اس برگر کو۔ مگر پکڑنا تو اسے کھانے کی ہمت کرنے کی پہلی گھڑی تھی۔
آج نا تو کوئی چھری ساتھ تھی اور نا ہی کانٹا؛ اور تو اور، یہ ظالم لگ بھگ تربوز جتنا برگر اوپر بتائی گئی گِبی سے بھی نا ٹوٹتا دکھائی دیتا تھا۔ تربوز اور آم وغیرہ کو بھری محفلوں میں کھانے میں خود کو روکنے سے جو عصر حاضر کی تہذیب کی جانب قدم بڑھائے تھے، وہی قدم اٹھانے والے پاؤں آج اس میکڈونلڈزی بڑے میاں برگر کے سامنے پھولتے دکھائی دیتے تھے۔
اس درپیش برگر کو میاں انار سلطان نے منھ کے کون کون سے زاویے بنا کے کھایا ہوگا؟ ان کے ہونٹ کون کون سی اقلیدسی اشکال میں ڈھلے ہونگے؟ آپ کا کسی بڑے برگر، یا پیزا کے بڑے سلائس کو کھانے کا تجربہ کیسا رہا ہے؟ جو آپ کے جواب ہیں، وہی میاں انار سلطان کے، اور ان سر اٹھاتے تہذیبی سوالوں کے سر نیہوڑائے جامع جواب ہیں۔
اپنے اپنے جواب سوچیے اور چلتی فلم کا اختتام کیجیے۔ نیز یہ بھی بتائیے کہ کیا چھوٹا منھ بھی بڑی بات کر سکتا ہے کہ صرف بڑے منھ کو ہی چھوٹی بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے؟
پسِ نوشت: اس مضمون کو پڑھ کر اگر آپ کو یہ لگا کہ اسے نہیں لکھا جانا چاہیے تھا؟ اور آپ اپنے آپ کو کوس رہے ہیں کہ آپ نے اس مضمون کو پڑھنے میں اس قدر وقت کیوں صرف کیا، تو آپ کے لیے کچھ بیش قیمت مشورے ہیں۔ مقدس کتابوں کی دو چار آیتیں زبانی یاد کیجیے اور ان کا ورد کرتے رہا کیجیے، ثواب ملتا رہے گا؛ طبع پر اگر یہ بھی گراں گزرے تو ان آیتوں کے تعویذ بنا کر گلے یا بازو پر باندھ لینا بھی مفید ہوگا۔ ہاں ان آیتوں کے مطالب مت سوچیے گا، اور سیاق و سباق میں مطالب جاننے کی تکلیف ہر گز نا اٹھائیے گا، مبادا کہ سوچنا پڑ جائے۔