زبان بندی اور آئین پاکستان کی شق اُنیس
از، احمد علی کاظمی
چئیرمین پیمرا نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے ملاقات کی۔ آفیشل پریس ریلیز کے مطابق ملاقات میں اس بات پر غور کیا گیا کہ کیسے میڈیا سے “ریاست مخالف گفتگو “ کا خاتمہ کیا جائے اور پاک فوج اور ریاست پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر کیا جائے۔ بہ الفاظِ دیگر ملاقات میں سینسرشپ کے مختلف طریقوں پر غور کیا گیا۔
فسطائی Fascist ریاستیں آزادی اظہار رائے کو اپنا اولیں دشمن سمجھتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر جو کر رہے وہ غیر آئینی تو ہے ہی کہ فوج کا کام میڈیا ریگولیٹ کرانا نہیں۔ تاہم آئین پاکستان میں دیا گیا آزادئِ اظہار کا حق ایسا بے کار ہے کہ ریاست عملی طور پر آپ کی زبان بندی تمام تر قانونی طریقوں سے کر سکتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے آئین پاکستان کا آرٹیکل انیس:
“ہر شہری کو اظہار رائے کا حق حاصل ہو گا۔ صحافت آزاد ہو گی۔ تاہم یہ حق قانون میں لگائی گئی معقول شرائط کا پابند ہو گا۔ یہ شرائط اسلام کے مفاد اور عظمت، پاکستان یا اس کے کسی حصے کے تحفظ، سلامتی اور عظمت، بیرونی ریاستوں سے دوستانہ تعلقات، سماجی نظم، اخلاقیات، شرم و حیا، اور عدالتی عزت و احترام کے حوالے سے لگائی جا سکتی ہیں۔”
آئینِ پاکستان آزادئِ اظہار کا جو حق نصف سطر میں دیتا ہے اس کے اگلی چار سطروں میں اس حق پر پابندیاں لگاتا ہے اور مزید قانونی پابندیوں کی بھی گنجائش پیدا کرتا ہے۔ ایسے آزادئِ اظہار کے تحت آپ فقط پاکستان، اسلام اور فوج زندہ باد کے نعرے لگا سکتے ہیں۔ اس سے ما وَراء ہر بات غیر قانونی ہے۔
مزید دیکھیے: انسانی حقوق اور آزادئ اظہارکے جدید تصورات از، ارشد معراج
اظہار رائے پر پابندیاں از، مجاہد حسین
ایک نظر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے آئین پر جو پہلی ترمیم میں آزادئِ اظہار کے حق کو یوں بیان کرتا ہے۔
“کانگریس (پارلیمنٹ) کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو آزادئِ اظہار رائے یا آزادئِ صحافت کو روکتا ہو۔”
مختصر، دو ٹوک اور ہر قسم کی اگر مگر، تاہم، چُوں کہ اور چُناں چِہ سے بے نیاز۔