زبان بندی کوئی حل نہیں ہوتا

خورشید ندیم
خورشید ندیم

زبان بندی کوئی حل نہیں ہوتا

از، خورشید ندیم

مولانا فضل الرحمٰن نے کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ کیا ریاستی ادارے اِن سے صرفِ نظر کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ یہ باور نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی پاکستانی اپنی فوج کے خلاف ہو۔ یہ تصور بھی محال ہے کہ کوئی عدلیہ کو بے توقیر کرنا چاہے گا۔

فوج مضبوط نہ ہو تو ملک بیرونی دشمنوں کے لیے ایسی چراہ گاہ بن جائے جس کی کوئی باڑ نہ ہو۔ توانا دفاعی نظام اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور عقلِ عام کا تقاضا بھی۔کوئی غبی ہو گا جو اس بات کا انکار کرتا ہو۔ بایں ہمہ عدالت نہ ہو تو ملک فساد کا گھر بن جائے۔ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی اولیں ذمہ داری ہے اور یہ ادارے ریاست کا عملی ظہور ہیں۔

ان اداروں کی سلامتی کا انحصار دو باتوں پر ہے: پیشہ ورانہ مہارت و دیانت اور عوام کا اعتماد۔ دونوں یکساں درجے میں اہم ہیں۔ فوج کے پاس دشمن کے مقابلے کی پیشہ ورانہ تربیت اور ہتھیار نہ ہوں تو وہ ملک کا دفاع نہیں کر سکتی۔ عوام اگر اس کی اخلاقی تائید و نصرت پر آمادہ نہ ہوں، تو بھی وہ کوئی معرکہ سر نہیں کر سکتی۔

یہی معاملہ عدلیہ کا بھی ہے۔ عدالت کے ایوانوں میں ہونے والے فیصلے اگر عوامی اعتماد سے محروم رہیں تو پھر لوگ انصاف کے لیے اپنے دست و بازو پر بھروسا کرتے ہیں۔ یوں نظام کی باگ مفسدین کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔

مہذب معاشروں میں اسی لیے یہ شعوری کوشش کی جاتی ہے کہ یہ ادارے عوامی اعتماد سے محروم نہ ہوں۔ فوج اقتدار کی کشمکش سے دور رہے کہ یہ شرکت اسے فریق بنا تی اور سیاسی جماعت کی سطح پر لے آتی ہے۔ فوج سیاسی عمل سے دور رہتی ہے تو عام شہری، اپنی سیاسی وابستگی سے بے نیاز ہو کر، اسے جان و دل سے زیادہ عزیز رکھتا ہے۔ یہی معاملہ عدالت کابھی ہے۔اب دیکھیے کہ پاکستان کی تاریخ اس باب میں کیا کہتی ہے۔


مزید و متعلقہ: لالچ مستقل غلامی ہے از، وسعت اللہ خان

گھر کی صفائی اور سیاسی دُھند  از، معصوم رضوی

مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا فرض کفایہ  از، مولانا عمار خان ناصر


1960ء کی دھائی میں قائد اعظم کی بہن، جنہیں مادرِ ملت کہا گیا، سپہ سالار جنرل ایوب خان کے مدِ مقابل آ کھڑی ہوئیں۔ یہی نہیں، ملک کی قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں ان کی قیادت میں متحد ہو گئیں۔ یہ اقدام کیا پاکستان دشمنی تھا؟ مولانا مودودی نے انہی دنوں یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ باڑ ہی جب کھیت کو کھانا شروع کر دے تو پھر اسے بچایا نہیں جا سکتا۔ کیا مولانا مودودی غدارِ پاکستان تھے؟

جنرل یحییٰ خان بھی سپہ سالار تھے۔ انہیں پورے اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا مگر آج پاکستان میں کوئی یہ جرات نہیں کر سکتا کہ ان کے بارے میں کلمۂِ خیر کہے۔ وہ پاکستان میں غداری اور نفرت کی علامت بن گئے۔ ان کی اولاد بھی مجلسِ عام میں اپنا تعارف کراتے ہوئے سو بار سوچتی ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں، جس کا بچہ بچہ اپنی فوج سے محبت کرتا ہے، یہ رویہ کیا کسی تضاد کا اظہار ہے؟

جسٹس ایم آر کیانی ہماری عدالتی تاریخ کا ایک روشن نام ہیں۔ وہ بھی 1960ء کی دھائی میں ہمارے نظام ِ عدل کا حصہ تھے۔ اس دور میں بھی عدالت جبر کا شکار تھی۔ کہتے ہیں کہ میں نے جب بطور جج ایک فیصلہ سنایا تو متاثرہ خاتون رونے لگی۔ کہا: میں نے سنا تھا کہ یہ عدالت ہے اور میرے ساتھ انصاف ہوگا۔ جسٹس صاحب نے اسے کہا: یہ عدالت نہیں، کچہری ہے۔ یہاں انصاف نہیں، فیصلہ ہوتا ہے۔ کیا یہ کہنا چاہیے کہ جسٹس ایم آر کیانی اداروں کی توہین کے مرتکب ہوئے تھے؟ ان کی تقاریر کا مجموعہ”افکارِ پریشاں“ پاکستان کی تاریخ کے ہر طالب علم کو ضرور پڑھنا چاہیے۔

مولوی تمیز الدین کیس سے عدالتی فیصلوں کا ایک نہ ختم ہو نے والا سلسہ شروع ہوا جن کو تاریخ و سیاست کے ہر سنجیدہ عالم نے متنازع کہا۔ یہ سب فیصلے وہ ہیں جو کسی نہ کسی سیاسی منصوبے کا حصہ تھے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے سرِ عام اعتراف کیا کہ بھٹو صاحب کے مقدمے میں انہیں دباؤ کا سامنا تھا۔

سوال یہ ہے کہ جن آمروں نے عدالت سے اپنی مرضی کے فیصلے لیے اور نظریہ ضرورت ایجاد کیا، کیا انہیں زیرِ بحث لانا ریاست دشمنی ہے؟

تاریخ سے میں نے یہ سب حوالے اس لیے دیے ہیں کہ ماضی کے واقعات اپنے نتائج کے ساتھ ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ عقلِ عام رکھنے والے بھی انہیں سمجھ سکتے ہیں۔ ماضی پر حکم لگانا آسان ہوتا ہے۔ اپنے عہد میں حق و باطل کا فیصلہ کرنا مشکل ہو تا ہے مگر سچ یہ ہے کہ عقل اور دیانت کا اصل امتحان یہی ہو تا ہے۔ دورِ مسیحؑ کے یہود نے ماضی کے سب پیغمبروں کو مان لیا تھا مگر اپنے سامنے کی سب سے بڑی سچا ئی کو تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے یہی غلطی دوسری بار کی جب اللہ تعالیٰ کے آخری رسول سیدنا محمد ﷺ کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے دور کی ایک سچائی کو بیان کیا ہے۔ اپنے مفہوم میں، یہ اس سے مختلف نہیں ہے جو محترمہ فاطمہ جناح اور مولانا مودودی اپنے دور میں کہہ رہے تھے۔ جسٹس ایم آر کیانی تمثیل کے اسلوب میں یہی حقیقت بیان کر رہے تھے۔ ان کی باتیں آج اس لیے ہمیں سمجھ میں آتی ہیں کہ ان کی سچائی پر وقت مہرِ تصدیق ثبت کر چکا۔ ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ فوج اور عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کو اقتدار کی کش مکش سے دور رہنا چاہیے اور سیاسی تنازعات میں فریق نہیں بننا چاہیے۔ یہ بات کہنا فوج کی مخالفت ہے نہ عدلیہ کی۔ یہ در اصل ان اداروں کی توقیر کو یقینی بنانا ہے۔

پاکستان کو ایک مضبوط فوج کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے پہلی شرط فکری  اور عملی یک سوئی ہے۔ فوج کو معلوم ہو کہ اس کا پہلا اور آخری کام ملک کا دفاع ہے۔ ملک میں اگر کرپشن ہے تو اس کا خاتمہ فوج کی ذمہ داری نہیں۔ اگر تعلیم کا نظام خراب ہے تو اسے درست کرنا عوام کے منتخب نمائندوں کا کام ہے۔ اسی طرح ڈیموں کی تعمیر عدالت کے فرائض منصبی میں شامل نہیں۔ اس کا اصل فریضہ یہ ہے کہ لوگوں کو انصاف ملتا رہے۔

اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ فوج داخلی معاملات سے لا تعلق ہو جائے۔ ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ مو لانا فضل الرحمٰن سمیت کوئی سیاست دان اس کا قائل نہیں کہ فوج ان معاملات سے لا تعلق ہو۔ دہشت گردی کے خلاف فکری اور عملی سطح پر جو منصوبہ سازی ہوئی، فوج اس میں شریک رہی۔ کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔

اسی طرح ہمارے آئین کے تحت کئی قومی فورمز ہیں جہاں مشاورت ہوتی ہے اور فوج اس میں شریک ہوتی ہے۔ سوال لا تعلقی کا نہیں، صرف یہ ہے کہ کیا یہ مداخلت آئینی حدود سے متجاوز تو نہیں؟

آج نا گزیر ہے کہ عوام اور فوج میں فاصلے پیدا نہ ہوں۔ عوام کی نمائندگی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ نون لیگ کو ان مشکوک انتخابات میں بھی ایک کروڑ اٹھائس لاکھ ووٹ ملے ہیں اور ملک کا سب سے بڑا صوبہ اس کی عوامی قوت کا مرکز ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن  ایک بڑی مذہبی عصبیت کا سیاسی چہرہ ہیں۔ محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی بلوچستان اور پختون خواہ میں ایک حلقۂِ اثر رکھتے ہیں اور پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں۔ ان تمام لوگوں کو غدار قرار دے کر دیوار سے نہیں لگایا جا سکتا اور نہ خاموش کرایا جا سکتا ہے۔ ان کی شکایات کا ازالہ ضروری ہے۔

عسکری اداروں کے اپنے تھنک ٹینکس ہیں۔ یہاں عسکری امور ہی پر تحقیق نہیں کی جا تی، خیال ہے کہ سیاسی اور سماجی تبدیلوں کا بھی مطالعہ کیا جا تا ہے۔ یقیناً فوج اور عوام کے باہمی تعلق پر بھی تحقیق ہوتی ہو گی۔ میرا گمان ہے کہ ان تحقیقی اداروں میں تازہ ترین سیاسی و سماجی پیش رفت پر بھی غور کیا جا رہا ہو گا۔ عوامی فیصلوں پر ریاستی اداروں کی اثر پزیری اور ان کے سیاسی و سماجی اثرات ایسا موضوع ہے، جو آج سب سے زیادہ ان اداروں کی توجہ کا مستحق ہے۔

ملک کا مفاد متقاضی ہے کہ ان امور پر کھل کر بات ہو۔ زبان بندی بحران میں صرف اضافہ کرتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے جو سوالات اٹھائے ہیں، انہیں نظرا نداز کرنا ہمارے قومی مفاد میں نہیں۔