نواز شریف اور چودہری نثار میں ’’لڑائی‘‘ کب سے شروع ہے
انور عباس انور
سابق وزیر داخلہ چودہری نثار علی خاں کی جانب سے اپنے سابق باس نواز شریف کو اداروں سے محاذ آرائی نہ کرنے کا مشورہ سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، چودہری نثار علی خان نے اپنے سابق باس سے بغاوت کے لیے وہیں طرز عمل اور انداز سیاست اختیار کیا ہے جو اس سے قبل مرحومین غلام مصطفی جتوئی اور ملک معراج خالد اور ان کے رفقائے کار نے بے نظیر بھٹو شہید کی قیادت کے خلاف اپنایا تھا، بے نظیر بھٹو کے خلاف بغاوت کرنے والے ’’انکلز چار کا ٹولہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے، ان انکلز میں ملک معراج خالد،میاں احسان الحق، سندھو ۔۔۔اور شامل تھے ویسے تو مولانا کوثر نیازی ،پیر علی جان سرہندی ، حنیف رامے ملک غلام مصطفی کھر، ڈاکٹر مبشر حسن اور غلام مصطفی جتوئی سمیت متعدد اور نام بھی بے نظیر بھٹو شہید کے باغیوں میں شامل ہیں۔
بے نظیر بھٹو کی قیادت کو چیلنج کرنے والوں میں سے صرف ملک معراج خالد اورغلام مسطفی جتوئی نگران وزیر اعظم بن کر وزارت عظمی انجوائے کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں باقی سب نے بے نظیر بھٹو کے سامنے سجدہ سہو کرکے دوبارہ پارٹی میں شمولیت کرنے میں عاقبت محسوس کی جبکہ ممتاز بھٹو ابھی تک بے نظیر بھٹو کے لگائے ہوئے زخم چاٹ رہے ہیں۔
چودہری نثار علی خاں نواز شریف کے دل کے چین اور آنکھوں کی ٹھنڈک مریم نواز شریف کے راستے میں اکیلے کھڑے ہیں یا ان کے ساتھ بھی کچھ اور انکلز موجود ہیں؟ یہ راز ابھی تک راز ہی ہے، کچھ عناصر کا اصرار ہے کہ چودہری نثار علی خاں کو درپردہ چند ارکان اسمبلی نے اپنے تعاون اور حمایت کا یقین دلا رکھا ہے، کہاجاتا ہے کہ چودہری نثار کو یقین دلانے والوں کے بارے میں نواز شریف اور شہباز شریف پوری طرح باخبر ہیں۔ اور چودہری نثار کو تعاون کا یقین دلانے والے ’’رستم وسہراب‘‘ نواز شریف کو بھی تسلیاں کروا رہے ہیں لیکن نواز شریف اور چودہری نثار کے درمیان پھنسے ارکان تیل دیکھو اور تیل کی دھار کے اصول پر کام کر رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ جس کا پلہ بھاری ہوگا یہ ارکان اس کا دامن پکڑ لیں گے۔
چودہری نثار علی خاں اور نواز شریف کے درمیان تعلقات مین خلیج کب پیدا ہوئی ؟ ہر کوئی اس لمحہ سے آگاہی چاہتا ہے، میری اطلاعات تو یہ ہیں کہ دونوں کے تعلقات میں دراڑ اس وقت پیدا ہوئی جب چودہری نثار علی خاں جنرل پرویز مشرف کو عدالت میں پیش کرنے کی بجائے سیدھا ملٹری ہسپتال لے گئے تھے، اور اس صورتحال میں نثار نے اپنے سابق باس کو اندھیرے میں رکھا، جنرل پرویز مشرف کوئی کوئی بیماری نہ تھی اور نہ ہے، ریڑھ کی ہڈی جسے بیک بون بھی کہا جاتا ہے اور اس میں تکلیف کو مہروں میں درد کی بیماری بھی کہاجاتا ہے، میں مبتلا ہونے والے بے شمار افراد عدالتوں میں پیش ہوتے رہتے ہیں اوروہ کاروبار زندگی بھی چلاتے ہیں جیسے جنرل مشرف مہروں کی تکلیف کے باوجود کلب میں ڈانس کرتے دیکھے گئے ہیں۔
جنرل مشرف کو عدالت کی بجائے ملٹری ہسپتال لے جانے کے دن سے بلکہ اسی گھڑی نثار نواز کے درمیان اعتماد کی دیوار میں دراڑ پر گئی تھی جس میں آہستہ آہستہ روز بروز اضافہ ہوتا گیا، جن ارکان کابینہ پر خوشامدی ہونے کا الزام چودہری نثار لگاتے ہیں انہیں ارکان نے چودہری نثار کی وفاداری پر انگلیاں اٹھائی تھیں اور چودہری نثار ان ارکان کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا کر اپنی خفت مٹا نے کی کوشش کرتے ہیں۔
ملک معراج خالد سے لے کر غلام مصطفی جتوئی تک اور ملک غلام مصطفی کھر سے شاہ محمود قریشی تک جس نے بھی اپنی قیادت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا انہیں ’’سب کی خبر رکھنے والے ’’ خفیہ برادران‘‘ کی آشیرباد حاصل تھی اور اب بھی نواز شریف یا ان کی دختر مریم نواز کی قیادت کو چیلنج کرنے والوں کو پس پردہ رہ کر کام کرنے والی قوتوں کی’’ تھپکی‘‘ ملی ہوئی ہے، چودہری نثار علی خاں کو باور کروا دیا گیا تھا کہ نواز شریف کا کھیل ختم ہوچکا ہے، او یہ اب کبھی برسراقتدار نہیں آئے گا اور نہ ہی آنے دیا جائے گا۔
کچھ طبقات کا اصرار ہے کہ چودہری نثار علی خاں آئندہ کے وزیر اعظم پاکستان ہوں گے، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ٹیکنوکریٹس کی قیادت کے لیے منتخب کر لیے جائیں یا جو بھی صورتحال بنے اس میں چودہری نثار علی کا کلیدی کردار متعین ہوگا،اسلام آباد سے خبریں تو مل رہی ہیں کہ مسلم لیگ کے اندر سے ایک ’’ تگڑا فارورڈبلاک‘‘ تشکیل دینے کی کوششیں فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوچکی ہیں، اگر پیپلز پارٹی نے انتخابی بل کی طرح مفاہمانہ تعاون جاری نہ رکھا تو فارورڈ بلاک کی تشکیل میں مصروف لوگوں کو مشکلات پیش آنے کے امکانات ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی باغی عائشہ گلالئی اور مسلم لیگ قائد اعظم کے باغی ارکان کے فارورڈ بلاک کی حمایت مسلم لیگ نواز کے لیے وبال جان بن جائے گی، کیونکہ ممکن ہے کہ مسلم لیگ نواز آئندہ آنے والے دنوں میں چودہری نثار کے خلاف الیکشن کمیشن کے پاس انہیں نااہل قرار دینے کی درخواست جمع کروائے تو عائشہ گلالئی اور عطا محمد مانیکا ماڈل ان کے مقصد کے راستے کی دیوار بن جائے۔