جب مایوسی ہونے لگے، نئے استعارے ڈھونڈ لینا
از، یاسر چٹھہ
1۔ “اللہ کا شکر ہے، وکلاء تحریک کے رگڑے کے بعد فقیر نے کسی سیاسی تحریک کو نظریاتی، یا انقلابی تحریک سمجھنے کی غلطی نہیں کی۔”
2۔ “اب انقلاب کا نہیں ارتقاء کا دور ہے۔ نظریاتی ہمیں خود ہونا چاہیے اور جو ہمارے ساتھ ہو، جب تک ساتھ ہو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔”
یہ دو دوستوں کے بیچ ہوئے ایک مختصر مکالمے کو نقل کر رہا ہوں۔ نام نہیں لکھ رہا کہ یہ جملے اکثر و بیش تر کئی ایک دوستوں سے سننے کو ملتے ہیں۔ ان کو کسی حد تک عمومیت کے جامے میں بھی دیکھنا، غیر مناسب نہیں لگتا۔
تو کیا ہم بھی اسی لمحے میں ہار مان بیٹھیں۔ نہیں! بھائی صاحب، معاملہ شاید یہ ہے کہ ہم میں موجود، پڑھنے لکھنے والے لوگ بھی جانے کیا پڑھتے لکھتے رہتے ہیں کہ جو سطحی شعور ہمیں سرکاری ٹویٹر ہینڈلز، اور ضبط کی حامل طاقتوں کے دیگر طوطے بار بار کی دُہرائی، اور منحوس گردان گیری سے سناتے جاتے ہیں، اس کے نتیجے میں ہمارے ارد گرد جو پُتلی تماشا اور ابلتے کھولتے جوش کی دھمال ہوتی ہے، اس کا دباؤ ہم قبول کرتے کرتے اپنا فہم و ذکاء معطل کر دیتے ہیں، held in abeyance والا حسبِ دستور معاملہ ہو جاتا ہے، یا تذبذب میں گِھر جاتے ہیں۔
تو کیا پھر یوں ہی چلتا رہے؟
یقیناً نہیں۔ ہمیں وہ نئے metaphors سوچنے اور گہرائی میں جا کر سوچنے کی اشد ضرورت ہے، جن پر ہمارے مضبوط شخصی کردار، character of the secular ilk، کا اعتقاد ہو؛ بہ طور آغازی اشاریے کے عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں مطالعہ، فکر اور reconstructive and synthetic thought، یعنی اس تالیفی فکر اور تخیل کے لیے استعارے پیدا کرنے چاہییں جو ہمیں باور کرائیں کہ لمحہ اپنے تُخم سے کیسے پھوٹتا ہے، دوسرے لمحے سے کیسے جڑتا ہے، وہ وقت کی بڑی اکائیوں میں کیسے ڈھلتا ہے۔
راقم کو خدشہ ہے کہ ہمیں مطالعے و فکر کے لیے میسر آلات و کتب سستے ہیں، شاید۔ یہ ہی وجہ ہو سکتی ہے، جس سے ہم تذبذب میں جلدی چلے جاتے ہیں۔ اور اکثر کسی فوری لمحے کا جامِ نحیف گر نوش کر جاتے ہیں۔
سینٹ کے عدمِ اعتماد میں ہونے والی جادو گری کوئی نئی بات نہیں۔ االبتہ نئی بات کچھ اور ہے، جو نئے سیاسی و سماجی شعور کی دھیرے دھیرے بنیادیں رکھ رہا ہے۔ جس کا ادراک جادو گر نہیں کر پا رہے۔
اس جادو گری عاشقی میں عزتِ سادات کے ساتھ جو جو ہو رہا ہے، وہ کم تجزیہ کاربہ طورِ اہم عامل factor کے طور پربھانپ سکے ہیں۔ لیکن بات وہ ہی ہے نہ کہ عسکری تخیل جو طاقت کو اپنا آقا مانتا ہے، اصل میں ہے وہ اپنے تخیل میں antibiotic مزاج ہی، یا اس کا محض tactical level میں ہی بے شعور چشمِ تخیل ہے۔
کسی بھی دنیا کی عساکر زیادہ تر اتنی ہی عقل اور مستقبل بِینی کی حامل ہو سکتی ہیں۔ یہ سینٹ چیئرمینی کا متعفن شکار، اور انتخابات کو الیکشنڈم بنانے کی حرص کو فتحِ مبین کہنے کا حوصلہ طویل تر تخیل کی نظر میں ان ہی خدشات اور وہ ہی دن لائے گا کہ جب وردیاں بدل کر، اور گاڑیوں کے نمبروں پر مٹی مل کر سفر ہوتے تھے۔ کس قدر رنج ہوتا تھا، اُن دِنوں بھی!
کم از کم اپنے جاننے والے عسکری افراد سے یہ ہی کشید کر سکا۔ مجھے اپنے شعور کو محیط فی العرض بھی نہیں کہنا، لیکن اسے میں اس قدر رگید بھی نہیں سکوں گا۔
بس، یہ ہی عرض کرنا ہے کہ ہمیں بڑے اور طویل منظر ناموں کے استعارے چاہییں: ان کو بھی جنہیں طاقت کے سامنے ساری عمر جوانی دکھائی دیتی ہے، اور ان کو بھی جن کا جسم جوان ہے، مگر روح اور فکر ضُعف کا شکار ہو گئی۔