جب وہ اقدار پہ سوال اٹھاتا ہے
از، فرحت اللہ
فِلم بینی کے شائقین شاید ہی اِس فلم سے بےخبر رہے ہوں گے! اِس شان دار فلم کی مختصر کہانی کُچھ یُوں ہے۔ میمفِس (امریکہ) میں چَک نولینڈ ’فیڈایکس‘ FedEx کا ایگزیکٹیو ہوتا ہے۔ توانائی سے بَھرپُور، گَھڑی کی سُوئیوں کے ساتھ چَلنے اور مَصرُوف ترین زندگی گُزارنے والا چَک.. جِس کےلیے فیڈایکس کا پَھیلاؤ اور حَرکت ہی زِندگی ہوتی ہے اور جو اِسی حوالے سے گَلوب کے گِرد سر گرداں رہتا ہے۔ چَک کیلی فریئر نامی پی ایچ ڈی سکالر کے ساتھ تَعلُّق میں بَندھا ہوتا ہے۔
یہ کافی عَجِیب تَعلُّق ہوتا ہے کہ کرِسمِس کے روز بھی وہ چند مِنٹ کے لیے مِلتے ہیں، وہ بھی تَحائِف کے تَبادلے کے لیے۔ چَک کہتا ہے کہ جَلد ہی دو بارہ مِلیں گے۔ وہ فیڈایکس کے ملائشیا جانے والے کارگو پہ سوار ہو جاتا ہے۔ جُنُوبی نِصف کُرّے میں اُن کا جَہاز عین بَحرُ الکاہِل کے اُوپر، طُوفان کی زَد پہ آ جاتا ہے۔ جَہاز سَمُندر میں گِر کر تَباہ ہو جاتا ہے۔ صرف چَک اور چَند ایک فیڈایکس پارسل بَچ جاتے ہیں۔ جِن کو خُوش قِسمتی ایک قَرِیبی جَزِیرے پر پَہُنچا دیتی ہے۔
سر سَبز جَزِیرے پہ کوئی آواز ہوتی ہے نہ کوئی جان دار ہوتا ہے۔ یہاں چَک کا سامنا جِبِلّی instinctual ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اَبدی، بے مُحِیط اور کَناروں سے چَھلکے وَقت کے ساتھ ہوتا ہے۔ کھانے پِینے سے لیکر موسموں کے مُطابِق خُود کو ڈَھالنے تک اُسے کِن کِن کَٹھنائیوں سے واسطہ پَڑتا ہے؟ یہ خاص طَور سے دیکھنے کی چِیز ہے۔
چَک اِبتِدا میں فیڈایکس کے پارسلوں کو نہ کھولنے کا فَیصلہ کرتا ہے مگر جان پہ آتی ہے تو ایک کے سِوا باقی تمام پارسل کھول کر اپنا کام چَلا لیتا ہے۔ یہاں چَک اِس جَزِیرے کو لاحَق لامُتناہی سَنّاٹے کو وِلسن سے مُکالَمے اور مَحبُوبہ کیلی کی تَصوِیر سے بَھرنے کی کوشِش کرتا ہے۔
ایک بار رات کو ضرورت سے اُٹھ جاتا ہے تو دُور سَمُندر کے اَندر کِسی جَہاز کی روشنی دیکھ لیتا ہے مگر پُکارنے پر بھی وہ جَہاز چَک کو نہیں دیکھ پاتا۔ (معمولی فَرق کے ساتھ یہ مَظہَر فلم لائف آف پائی اور آل اِز لاسٹ میں بھی سامنے آتا ہے۔)
ایک دِن وہ یہ جان جاتا ہے کہ بَس یہاں سے نِکلنے کا، جَزِیرہ چھوڑنے کا وَقت ہے۔ تَب پِھر وہ وِلسن کے مَشورے سے ایک کام چَلاؤ کَشتی تَیّار کر لیتا ہے اور آخِر کار ایک چَمکتے دِن وہ واپسی کے سَفر کا آغاز کر ہی لیتا ہے۔ راستے میں بڑی مُشکِلوں کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ وِلسن بھی ساتھ چھوڑ کر چَلا جاتا ہے۔ (اور چَک اُسے جانے دیتا ہے۔)
کافی وَقت بَعد چَک کو ریسکیو کر لیا جاتا ہے۔ واپس پَہُنچ کر سب کُچھ تبدیل ہو چُکا ہوتا ہے۔ کیلی فریئر کسی دوسرے آدمی کے ساتھ شادی کے بَندَھن میں بَندھ چُکی ہوتی ہے۔ چَک کیلی کو جانے دیتا ہے۔ فیڈایکس پہلے سے کہیں زیادہ پَھیل چُکا ہوتا ہے اور چَک اُسے بھی جانے دیتا ہے، کیوں کہ وہ جَزِیرہ پہ یہ سِیکھ چُکا ہوتا ہے کہ کُچھ بھی (یہاں تک کہ فیڈایکس کو آسمان تک پَہُنچانا بھی) اور کوئی بھی (حَتّٰی کہ وِلسن بھی) زِندگی کےلیے لازمی نہیں ہوتا۔ وہ آخری بَچا پارسل مُتَعَلِّقَہ واپسی کے پَتے پر پَہُنچاتا ہے تو یہ وہی لڑکی ہوتی ہے کہ جس نے یہ پارسل بھیجا ہوتا ہے۔ آخری مَنظر میں چَک ایک چَوراہے پہ کَھڑا سوچ رہا کہ تین پَکّی سڑکوں اور ایک کَچّی سڑک میں سے کِس پہ اپنی نَئی زِندگی کا سَفر شُرُوع کروں؟
مُکَمَّل کہانی جاننے کےلیے فِلم دیکھنا ہی بہتر رہے گا۔ اب آتے ہیں عَلَامَات کی طَرف….
آرکی ٹائپل لحاظ سے دیکھیں تو چَک نولینڈ ’کَھوجی/تَلاش کار‘ explorer کا آرکی ٹائپ ہے۔ یہ آرکی ٹائپ غَیرمَعرُوف خِطّۂ اَرض کو چَھانتا پِھرتا ہے۔ یہاں فِلم میں چَک جَزِیرے کو اپنی ہِمَّت سے قابِل بَرداشت بَنا کے رہتا ہے۔ واسکوڈے گاما، اِبنِ بَطوطہ، رابرٹ ای پَیری، سر ایورِسٹ وغیرہ کے کِردار پہ بھی یہ آرکی ٹائپ غالِب رہا۔
وَیسے کوئی کہہ سکتا ہے کہ چَک تو اپنی مرضی سے مُہِم جُوئی کرنے نہیں نکلا تھا، وہ تو حادِثاتی طَور سے اُدھر جَزِیرے پر جا پَہُنچا۔ تو دِھیان دِیجیے کہ وُجُودی فَلسَفے کہ مُطابِق اِنسان اِس دُنیا میں لا پَھینکا گَیا ہے۔ (فلم کے نام ہی سے ظاہِر ہے) اب یہ ہر اِنسان کی مَرضِی ہے کہ وہ اپنے لیے اِس وِیرانے میں کَون سا کِردار اپنانا پَسند کرتا ہے؟
آرکی ٹائپ کی مُختَصر تَعرِیف ہم فلم دَ گِیوَر کے عَلَامَتی مُطَالَعے کے ضِمَن میں کر چُکے ہیں۔ ہمیں اَدب کو، فلم کو سَمجھنے پَرکھنے میں آرکی ٹائپس، دیومالا/مائتھالوجی اور نَفسِیات کے شَخصِیّتی نَمُونوں کی مَدد حاصِل ہو تو ہم جَلد ہی خُود کو اِجتِماعی لا شُعُور کی مَنطِق سے آزاد، حَیران کُن اور طِلِسماتی دنیا کے کَناروں پر کَھڑے پائیں گے۔
۱: پَر wings کی عَلامَت عَقائد کی دنیا میں فَرِشتوں، پَیغام رَسانی اور مہر بانی کی نُمائِندگی کرتی ہے۔ جب کہ ادب اور فلم میں اِس کا کِردار مُختلِف مَعنی بھی لے کر آ سکتا ہے۔ جب فلم کے اَوّلِین حِصّے میں پہلی بار پَروں wings کا جوڑا دِکھایا جاتا ہے تو یہ مَصرُوف تَرین، گَھڑی کی پابَند اور یَکسانِیّت زَدہ زِندگی سے فَرار کی خواہِش یا مُحَرّک stimuli کے طَور پر سامنے آتا ہے۔ یعنی فلم کے آغاز میں پَروں کا جوڑا دیکھنا، دَر اصل نئی کَھوج کی لَہر تھی۔ چَک کو جَزِیرے پر یہ خواہِش اُسے ایک پارسل کی شَکل میں مِل جاتی ہے اور جَزِیرے سے نِکلتے وَقت بھی باد بان پر اِن پَروں کی تَصویر بَنی تھی۔ اِس مُعاملے کو تَقوِیَّت تب مِلتی ہے جب یہی بادبان اُڑ جاتا ہے تو چَک اُمّید تَرک کر دیتا ہے اور چَپُوؤں کو پانی کے حَوالے کر دیتا ہے۔ یہ امریکہ واپسی پر لڑکی کے ٹرک پر بنے پَروں کی صُورت میں، پہلے کی روٹین لائف میں کَبھی نہ لوٹنے کی خواہِش کا اِستِعارہ بھی بَنتا ہے۔
فلم کے آخِر میں چَک نولینڈ خُود کو ایک چَوراہے پر کَھڑا پاتا ہے۔ یہ چَوراہا crossroad تِین پَکّی سڑکوں اور ایک کَچّے راستے پر مُشتَمِل ہوتا ہے۔ کَچّا راستہ وہ ہوتا ہے جِس پہ لڑکی کا ٹرک، جس پر پَروں کا جوڑا ہوتا ہے، جاتا ہے۔ پَکّی سڑکیں شَہری اور جانی پہچانی زِندگی کی عَلَامَت، جب کہ کَچّی سَڑک اَنجانی اور غَیر مَحسُوس زِندگی کی عَلَامَت ٹھہرتی ہے۔ وَیسے آپ نے یہ سُنا ہوگا کہ موت کے مُنھ سے بَچ کر آنے والوں کی زِندگی پہلے جَیسے نہیں رہتی۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ چَک کہاں، کِس طَرف نِکل گَیا ہو گا؟
۲: ’چک نولینڈ‘ فلم کے بائیسویں منٹ پر ہوائی حِادِثے کا شِکار ہو جاتا ہے۔ اور آخر کار ’لائف بوٹ‘ پر ایک جَزِیرے تک پَہُنچ جاتا ہے۔ یہاں ’جَزِیرہ‘ ہمیں چَند اور جَزِیروں (فلم آئی لینڈ، لائف آف پائی، اوڈیسی، شٹّر آئی لینڈ، ڈارک سٹی اور لِلّی پُٹ کے جَزائِر) کی یاد دِلاتا ہے۔ یہ جَزِیرہ مُسَلسَل جَذباتی اُتار چَڑھاؤ کا اِشارہ بھی ہے اور مَرِیضانہ بے گانگی کا اِستِعارہ بھی ہے۔ (خُشکی پر کوئی بھی نَفسیاتی مَرِیض ایک اَلگ جَزِیرے کا مالِک ہوتا ہے)
ہم پہلے کے مَضامین میں یہ فرض کر چُکے ہیں کہ ہیروئن کو ہم ’نَظَریہ‘ کے طَور پر لیں گے۔ سو یہاں اِس فلم میں ہیرو کی دوست کیلی (تحقِیقی طَالَبَہ) اور پَیامبَرانہ پیشہ مِل کر ’بُلند تر شُعُوری وَحدَت‘ کو جَنم دیتے ہیں۔ آسان لَفظوں میں کہا جائے تو چَک نولینڈ ’تَفَکُّر‘ کی اُونچائیوں پہ ہوتے ہیں۔ ایک حادِثہ، ایک فِکری مَرحَلہ ایسا آ جاتا ہے کہ وہ آسمان سے سِیدھا زمین پر بل کہ سَمُندر میں خُود کو پاتا ہے۔ اور سَمُندر تو پہلے سے زندگی کا بغیر کِسی نظریے کے نَنگی آنکھوں سے دیکھنے کا اِستِعارہ ہے۔ سَمُندر اِس فِلمی تَجزِیاتی مُطالَعَوں کے سِلسِلے میں ’بےتَناظُر زندگی‘ perspectivelessness کے طَور پر سامنے آتا جائے گا۔
ویسے اَیسے دانش ور جو اونچا اونچا اُڑتے ہیں، وہ سماج کے حَقِیقِی اور زَمِینی مَسائِل اور عَوام کے دُکھوں سے نا آشنا ہی رہتے ہیں۔ یہ چِیز چَک کے ساتھ بھی واقِع ہوئی۔ مَرد پھیلاؤ اور عورت گہرائی کی علامت ہے۔ وُسعَت اور گہرائی مِل کر ہی ایک فَرد کی تَشکیل کرتی ہے۔ کیلی زمین سے جُڑی رہتی ہے جب کہ چَک اُڑنا، پھیل جانا پَسند کرتا ہے۔
اَب اِس کو ذرا جَدَلّیات dialectics کے نُقطۂ نَظر سے دیکھتے ہیں۔ ذرا اِس مُسَاوات کو دیکھیے:
تِھیسِس + اینٹی تِھیسِس= سینتِھسِسز
یہی وہ عَمل ہے جِسے جَدَلّیات کہتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ سادہ مِثال سے سَمجھنے کی کوشِش کریں گے۔ آپ کِسی مُلک و قَوم پہ اپنی تھیوری نافِذ کرنا چاہتے ہیں۔ تو اِس نَظریے کا کبھی بھی سو فیصدی اِطلاق مُمکِن نہیں ہوتا، کیوں کہ جَہاں آپ یہ اِطلاق کرنے جا رہے ہیں، وہاں بھی اِنسان بَستے ہیں اور اُن کے بھی نَظریے ہوتے ہیں، زِندگی کے مُتَعلّق جُداگانہ سوچ رکھتے ہیں۔ سو غالِب نَظریہ مَغلُوب نَظریے کے ساتھ مِل کر ایک نئی صُورت اِختِیار کرتا ہے۔ یہی جَدَلیات ہے۔
اِسی طَرح کوئی بھی اِنسان یک رُخا ہو کے ایک پہلو دیکھنے کے بَجائے ہَمہ پہلو دیکھ پاتا ہے۔ اور یہی وہ چِیز ہے (اگر آپ اپنے تَخَیُّل کے پَردے پر اِس پیراڈاکس کا عَکس اُتار سکتے ہیں تو!) جو بَرّ اَعظمی رَنگا رَنگ جَمُود اور سَمُندری مُتَحرک سَپاٹ پن کو مِلانے کے نَتِیجے کے طَور پر سامنے آتا ہے۔ اسی کو فَردِیَّت کہتے ہیں۔
۲: فلم کے اٹھائیسویں مِنٹ پر ہمیں لائف بوٹ کا کام خَتم ہوتا دِکھائی دیتا ہے۔ اور چَک طُوفاں، باد و بَاراں اور تارِیکی کے سَنگم پر جَزِیرے پر اُترتا ہے۔ جَزِیرہ بَرّ اَعظم کے مُقابلے میں ایک جُزو کی حَیثِیَّت رکھتا ہے۔ یہ بَرّ اَعظم کے مُقابلے میں ’کم اِنسانی‘ (بَل کہ یہاں غَیر اِنسانی) ہے۔ جِس طَرح اِنسانی فِکری سَماج کے اَندر بھی کَہیں کَہیں جَزیرے مِل جاتے ہیں، جِنہیں ہم ’پاگل، مَردُم بیزار، جُنُونی، خَبطی، سَنکی‘ وغیرہ کے ناموں سے جانتے، پہچانتے ہیں۔
اِسی طَرح سَمُندری جَزِیرہ، فِکر کے اعلٰی صَلاحِیَّتوں سے بَہرہ مَندوں کے نَصِیب میں لِکّھا ہوتا ہے۔ یہ جَزِیرہ دَراصل جَذباتی ہَیجان، حَسّاسانہ تَشوِیش اور بےیَقینی کا مَظہَر ہے، جو اَعلٰی تَفَکُّر کےلیے ضَرُوری عَناصِر ہیں۔ اِسی طرح لائف بوٹ یَقِین سے شَک کی جانِب عُبُوری مَرحَلے کی نُمائِندگی کرتا ہے۔
۴: چک پَیامبَرانہ پیشے کے مُتَعلّقات (یعنی ڈاک پارسل، جو دَراصل سَماجی اَقدار/ویلیوز ہیں) ، لائف بوٹ اور آخر میں بےجان پائلٹ کو کھینچ کر جَزِیرے پر لے جاتا ہے۔ جو ثَابِت کرتا ہے کہ ‘نومین لینڈ’ یا سَرحَدات کے پر جا کر مَذکُورہ ‘شخص/پَرسن‘ (جو فرد individual بننے جا رہا ہے) اپنے سَابِقَہ زندگی کی تَربِیّت و نَشو وَ نُما کے اَثرات سے مَحفُوظ نہیں رہتا۔ شاید یَہی وجہ ہے کہ فَردِیَّت individuality کی تَکمِیل ہونے پر فرد اپنے ہی سَماج کے اُصُول و ضَوابِط کو اپنے ہی رنگ میں رنگ کر قُبُول کرتا چَلا جاتا ہے۔
فَردیَّت کو مزید سَمجھنے کےلیے پڑھیے: فردیت کیا ہے؟
۵: مَحبوبہ کی تَصویر ایک پُرانے اور سَابِقہ نَظریے کی طرف مُراجعَت کی تَڑپ دِکھاتی ہے۔ یہ ایک اُمّید ہے، کُچھ نہ کُچھ اَیسا ہے جو خالی پَن اور بے مَعنوِیَّت کے (عارضی) جَزِیرے پر اُمّید کی کِرن بن رہی ہے۔
۶: جَزِیرے کی سَب سے اُونچی جَگہ پر کَھڑے ہو کر سمُندر میں کُچھ (مَعنَوِیَّت، مَقام، مَنزِل، سَماجی رَبط) تَلاشنا، پانیوں پر دُور دُور تَکنا، فَردِیَّت کے عَمل میں گَھبراہٹ مَحسوس کرتے ہوئے فَرار ہونے کی کوشِش کی عَلامَت ہے۔ اِس کو ہَم اپنے شَرائِط پہ جینے کی کوشش سے بھی عِبارت مان سکتے ہیں۔
۷: پائلٹ کی لاش سے مِلنے والی ”ٹارچ کی روشنی“ میں اپنی مَحبوبہ کی تَصویر اور پارسلز کا جائزہ لینا، اُنھیں دیکھنا، دَر اصل یاد کے جِبِلّی عَمل instinctive reflection کا سَابِقَہ مِعیارات اور دَرپیش وُقُوعے کا تَنقِیدی جَائزہ ہے۔ یہ سب دَر اصل یہ یاد کرنا ہے کہ گُزرے واقعات کا حالِیہ وُقُوعے سے کیا تَعَلُّق ہے؟ ہمارا کل ہمارے آج پر کِس طرح سے اور کہاں کہاں سے اثر انداز ہوتا ہے؟
۷: رات میں دُور اُفُق پر کِسی بَحری جَہاز کی روشنی اور اُس روشنی کو مُتَوجّہ کرنے کے لیے مَر چُکے پائلٹ کی ٹارچ اِستِعمال کرنا، جَزِیرے کے مَاحول سے فَرار کی جِبِلّی کوششوں میں رَوایتی حَربے کا اِستِعمال ہے۔ یہ عَمل فلم ’لائف آف پائی، آل اِز لاسٹ‘ میں بھی نظر آتا ہے۔
فَرار کےلیے رَوایتی طَرزِ عَمل اِختِیار کرنے کا مطلب یہ کہ فرد بَننے والا ابھی تک اپنے ثَقَافَتی اَقدار کے زیرِ اثر ہے۔ جب کہ فَردِیَّت کےلیے آپ کو ایک بار تو اپنے مُتَعَلّقہ اَقدار پر شَک اور اُن کی نَفی کرنا پڑتا ہے۔ ایک عَرصے تک زمین و آسماں کے بِیچ مُعَلَّق رہنا ہوتا ہے۔ تب کہیں جا کر سَمجھ آتا ہے کہ زمینی اَقدار، اَدھُورے ہو کر بھی زِندگی کےلیے کیوں ضروری ہوتے ہیں؟ کیوں اَدھُورے اقدار کے اَدھُورے پَن کو نَظر اَنداز کر کے بَنی آدم کے ساتھ رہا جائے؟ تبھی تو ایک بار پِھر الَبیر کامیو کو دُہراتے ہیں کہ ’اِنسان ہی انسان کا انجام ہے!‘
اِس کے بعد چَک کا اُس جَہاز کی مُعَاونت حاصِل کرنے کی نا کام کوشِش اِس بات کی عَلَامَت ہے کہ سَماج سے ایک خاص فاصلہ پر عُبُوری دَور کے عَوامِل کام نہیں آتے۔ یعنی آپ کی شَخصِیَّت چلی گئی اور آپ ابھی تک فَرد نہیں بَنے۔ یہی مَناظِر ہمیں لائف آف پائی میں تب نَظر آتے ہیں جب پائی اپنی کَشتی میں موجُود لائف کِٹ میں سے ایک کِتابچہ نِکال کے پَڑھتا اور بَچنے کی جِد و جہد کرتا ہے۔ اِسی طرح یہی عَمل ہمیں ’آل اِز لاسٹ‘ میں بھی نَظر آتا ہے جب ’ہمارا آدمی‘ بوٹ میں ریڈیو نِکال کر اور لائف بوٹ میں کِتابچہ اور کِتاب پَڑھ کے مَدد طلب کرتا اور بَچنے کی راہ تَلاشتا نَظر آتا ہے۔ با لکل یہی عَمل فلم ’گریویٹی‘ میں بھی نظر آتا ہے۔
۸: چَک واپسی کی راہ کی نا کام جُستُجو کے بعد، پَیامبَرانہ اور دُنیا دَارانہ اُصُول پَرستی کے جَذبات سے مَغلُوب ہو کر پارسلز کی حِفاظَت کرتا ہے۔ یہ دیکھا جائے تو، پُرانے دِنوں کی یاد ہے۔
۹: فلم کے اُنسٹھویں مِنٹ پر چَک مَظہَری روّیے کا مُظاہِرہ کرتے ہوئے پارسلز کو کھولنے لگ جاتا ہے، جِن سے نکلنے والا سامان (مَعمُولی فرق کے ساتھ ‘آل اِز لاسٹ’ اور ‘لائف آف پائی’ کی طرح کا) ہیرو کےلیے اَجنَبی جَزِیرے کے مُسلسل راس نہ آنے والے ماحول میں دُنیا دارانہ/سَماجی رنگ پیدا کرتا ہے۔ (فلم گریویٹی میں یہ عَمل خلائی اسٹیشن پہ ریڈیو پر کُتّے کی آواز سُن کے اور فلم اِنٹرسٹیلر میں جِھینگر کی ریکارڈ شُدہ آواز سُنتے دِکھایا جاتا ہے)۔
یہ پارسلز سَماجی اَقدار ہیں، چَک جِن کا پَالَن کرتا ہے۔ مگر ایک بار کُچھ اَیسا ہو جاتا ہے کہ اُسے اپنے یہ اَقدار بے مَعنی دِکھائی دینے لگتے ہیں اور وہ اُس کی جَرّاحی/ آپریشن کر ڈالتا ہے۔ اِس سے چَک کو پَتا چَل جاتا ہے کہ اِن میں کاہِلی (والی بال/وِلسن) بھی ہے۔
۱۰: جَزِیرے پر آگ جَلانے کی کوششیں، دَر اصل ’ذات کے شُعُور‘ کا لا شُعُوری آغاز ہے۔ اِسی طرح ‘آل از لاسٹ’ میں ہیرو اپنی ’ذات‘ کو عُبُوری مَرحلے (لائف بوٹ) پہ آگ کی نَذَر کرتے ہوئے مُعَاشَرے (کَنارے) کی جانِب اپنے گہرے ہوتے جَذبات کو نِکاس کا راستہ دے دیتا ہے۔)
۱۱: گیند پر بنے اِنسانی شَکل ’وِلسن‘ سے بات چیت، تنہائی کے دِنوں میں ہمیں اپنے قَدبیم کی یاد دِلاتی ہے، ’تنہائی کے سو سال‘ کی ’سولہ نُقرَئی مچھلیوں کی ڈھلائی اور پگھلاؤ‘ کے تَکراری عَمل کی طرح، وِلسن سے یہ بات چیت ایک مُسَلسَل مُکالَمَہ ہے جو ’ذات اور شخصیت‘ کے ما بَین چلَتا رہتا ہے۔ اور اسی مُکالَمَے کے دَوران ہیرو اَپنی ‘آگ’ جلا ہی لیتا ہے۔ ذرا سُنیے! یہ آگ تَہذِیب کا تَجرِبہ ہے۔ تَہذِیب کی باز یافت ہے۔ واپسی پر جب چَک لائٹر کو جَلاتا بُجَھاتا ہے تو یہ مَنظَر بَتاتا ہے کہ جو کُچھ مُفَکِّر یا دانِش ور لائبریریوں میں کَٹھنائیوں کے بَعد حاصِل کرتا ہے، وَہی کُچھ سَماج کے اِجتِماعی لا شُعُور میں خام صُورت میں پَڑا ہوتا ہے۔ (خام اِن مَعنی میں کہ عوام اِسے پہچان نہیں سکتے، اِن کا تَجزِیہ و تَحلِیل نہیں کر سکتے اور سب سے بڑھ کر اِن کی بازیافت کر کے کام میں نہیں لا سکتے!)
وِلسن: وِلسن کے کِردار کا تَجزِیہ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ وِلسن کب سامنے میں آتا ہے؟
فلم کے مُطابِق جب چَک آگ جَلانے کی کوشِش میں اپنے ہاتھ زخمی کر لیتا ہے تو غُصّے میں آ کر ہنگامہ اور توڑ پھوڑ کرتا ہے۔ اس دَوران چَک کے ہاتھ والی بال آ جاتا ہے۔ وہ غُصّے میں گیند کو زخمی ہاتھ میں لے کر دُور پَھینک دیتا ہے۔ بَعد میں جَب وہ والی بال کو دیکھتا ہے تو اُسے اُس میں سپائکس یا کَھڑے بالوں کی شَبِیہ نَظر آتی ہے تو وہ اُس میں دو آنکھوں اور مُنھ کو اِضافَہ کر دیتا ہے۔ اِسی طَرح وِلسن کا کِردار وجود میں آتا ہے اور یہ رہا وِلسن نامی چَک جب کہ چَک اپنی ذات/سیلف میں ڈَھل جاتا ہے۔
یونانی دیو مالا/مائتھالوجی میں ’پرومیتِھیوس دیوتاؤں کے مَسکَن سے آگ لے کے آتا ہے۔ نفسیات کے مُطابِق مائتھالوجی مُختلِف نفسی، فِطرِی یا سَماجی مَظاہِر کی تَجسِیمی داستان incarnation saga ہے۔ سو تَعبیر کے مُطابِق آگ اِنسان کے شُعُور حاصِل کرنے کی علَامت ہے۔
یہ شُعُور سَیَّال اور پارہ صِفَت ہے جو اپنے شَب و روز کی بِساط کے سِیاہ و سَفید خانوں کے زِنداں میں تَنّوع کا اِیجاد کار ہے اور یوں زندگی کے ساتھ ساتھ چَلنے والا ہے۔
٭٭٭(اس حوالے کے ساتھ فلم ’دَ گِیوَر‘ کے تَجزِیے میں شامِل ’سیب‘ کی تَعبیر یاد کیجیے) یہاں فلم میں چَک اپنی آگ جَلانے کی کوشِش کرتا ہے۔ اِس کا مَطلب یہ ہوا کہ چَک شُعُورِ ذات/سیلف کانشِیَسنیس حاصِل کرنے کے سَفر میں ہوتا ہے۔ جو وہ آخِرِ کار حاصِل کر کے رہتا ہے۔
دوسری تَعبیر یہ بھی مُمکِن ہے کہ وِلسن دَر اصل چَک کا دُنیا دارانہ چہرہ ہوتا ہے۔ چَک جب آگ جلانے کی کوشِش میں نا کام رہتے ہوئے ہاتھ زخمی کر لیتا ہے، تَب اُس کی ذات کا دُنیا داریوں میں لِپٹا خول اُتر کر باہَر جَزِیرے کی غَیر آباد اور خاموش دنیا میں وِلسن کی صُورت میں مُجَسّم ہو کے سامنے آتا ہے۔ جِتنا جَزِیرے کا چیلنجز سے بَھرپُور، خالی پَن سے لَبریز اور سنّاٹے دار ماحول ایک مُکَمَّل شَہری اور گَھڑی کی سُوئیوں سے بَندھے، مَصرُوفِیات میں سر تا پَیر لِتھڑے چَک کے لیے بے مَعنی ہوتا ہے، اُتنا ہی چَک کے لیے وِلسن نامی والی بال بھی بے کار ہوتا ہے۔ تاہم بَعد میں جَب چَک اُس پہ اپنے خون کے بَنے نَقش و نِگار دیکھ لیتا ہے تو یہ گیند اُس کےلیے اِنسان کا اوتار بن جاتی ہے۔
آگے چَل کر دیکھیں تو ہمیں نَظر آئے گا کہ چَک جب جَزِیرے کے ماحول میں گُھل مِل جاتا ہے تو اُس کا موٹاپا ختم ہو جاتا ہے اور وہ اِکہرے بَدن (سِنگل باڈی) کا ہو جاتا ہے۔ اُس کے سر اور ڈاڑھی کے بال لمبے ہو جاتے ہیں۔ تَب کے مناظِر میں وِلسن کی بھی یہی حالت ہو جاتی ہے اور وہ ہَوا کے بَغیر پِچکا اور پَھٹا ہُوا ہوتا ہے جِس کی پَھٹی جَگہ میں گَھاس پُھونس ٹھونس کر سُنہرے بال دِکھائے گئے ہوتے ہیں، بالکُل چَک کی طَرح… چَک کی ذات/سیلف اپنے دُنیا دارانہ اور بے کار چہرے وِلسن کے ساتھ مُکَمَّل یکسُوئی کے ساتھ مُکالَمَہ میں مَصرُوف ہوتا ہے۔ اِس مُکالَمَہ سے اِنسان کے سَماجی جِبِلَّت social instinct کی طرف بھی اِشارہ ہوتا ہے کہ اِنسان حَیوانِ ناطِق ہو کے اِنسان کی قُربَت ہی میں خُوش رہ سَکتا ہے۔
۱۲: اِس کے بَعد چَک اپنا تَقوِیمی نَقشَہ calendar تَیار کر لیتا ہے۔ جو اِس ذات یا فَردِیَّت کے سَفر میں مُشَاہِدے اور شُعُورِ ذات کا حاصِل ہوتا ہے، جو نِروان کی تَکمِیل کے بَرابَر اور جِس کی روشنی میں ‘چک’ کو جَدَلّیاتی (یعنی سَماج کی طرف) واپسی کا سفر طے کرنا ہے۔ اِس کا یہ بھی مَطلب لیا جا سکتا ہے کہ کامیابی کا راستہ ہر اِک کا جُدا ہوتا ہے۔ تَصَوُّف میں سُلُوک کے حوالے سے مُختلِف مَکاتِبِ فِکر کے ہاں بھی یہی رَوَیّہ پایا جاتا ہے کہ ہَر سَالِک کو پِیر و مُرشَد سے ذِکر و فِکر کا اَلگ اَلگ نِصاب مِلتا ہے۔ تَصَوّف کا ذِکر اِس لیے کہ سُلوک اور فَردِیَّت راقم کے نزدِیک مُتَوازی یا مَماثِل اَعمال ہیں۔
۱۳: جزیرہ چھوڑتے ہوئے خَوف کا سامنا کرنا، مُستَقبِل کے بارے میں تَشوِیش anxiousness کا اِظہار ہے، بالکل ‘دَ ٹرُومین شو’ کے اور ‘شٹّر آئی لینڈ’ کے ہیرو کی طرح، (بُنیادی اَسباب سے قطعِ نَظر) جِنھیں اپنے کَنارے سے دُور جانے میں ڈَر کا سَامنا کرنا پَڑ رہا ہے۔ یاد رہے کہ عام آدمی یا شخص کَبھی بھی کَناروں کی طرف یا سَرحَدی عِلاقوں کی طرف نِکلنا نہیں چاہتا کہ وہ پیشگی طَور سے اَنجانی زمینوں اور no man’s land کے حوالے سے ڈَر اور تَشوِیش میں مُبتِلا ہوتا ہے۔
۱۴: ایک لَہر جو بادبان لے آتی ہے، خَارِج سے اُمّید کے تَعلُّق کو واضِح کرتی ہے، شاید ایک اِتِّفَاق، جِس کے بَل پر وہ (چَک) پِھر سے دنیا کھوجنے پر کَمَر بَستہ ہو جاتا ہے۔ یوں ہمارا ہیرو ‘ذاتی دانش’ (آگ) ، یاد/سَماجی جِبِلّت (گیند)، پُرانے طَرزِ حَیات کی باز یافت recall کے بجائے اَحیاء renaissance ( ہیروئن کی تصویر) ، اُمّید (باد بان) اور فرض (پارسل) کے اِحساس کے نُقطَۂ اِتّصال پر واپسی کے سَفر کا آغاز، اپنے لکڑیوں سے تَیّار کَردہ سادہ تَرین کَشتی پر کرتا ہے۔ کَشتی سادہ تَرین شَخصِیّت ہے یہاں، ذات نہیں!
اِس سَفر کے دَوران لَہروں کی طُغیانی اور سَر کَشی اُس کے واپسی کے سَفر کو یاد سے خالی (وِلسن کی جُدائی) اور ہمّت کو نا امّیدی (چپُّوؤں کو لہروں کے حوالے کر دینا) میں تَبدِیل کرتی ہے۔ یہاں فلم ‘آل از لاسٹ’ کے ہیرو کی طَرح اپنی لائف بوٹ کو آگ کی نظر کرکے، خود کو سَمُندر کی لَہروں کے حَوالے کر دینے کا مَنظَر آنکھوں میں گُھوم جاتا ہے۔ اور جب ہیرو نا اُمّید اور مایُوس ہو جاتا ہے، تَب اُسے ‘سَماج’ میں جَگہ مِل جاتی ہے۔ (فلم: لائف آف پائی، آل از لاسٹ!) شاید سَماج مُتَحَرّک مِزاجی کو بَرداشت نہیں کر پاتا۔
۱۵: ہیرو ‘چَک’ کی ہیروئن ‘کیلی’ کی طرف واپسی پر ایک کُھلی حَقِیقَت کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ سَماجی غَیر حاضِری کے دَورانیے میں’اَحیاء‘ کے بجائے ’باز یافت‘ کا عَمل وُقُوع پَذِیر ہو جاتا ہے۔ چِیزیں تبدیل ہو چُکی ہوتی ہے۔ تَعلُّقات میں بَدلاؤ اور ہَٹاؤ کو جَگہ مِل چُکی ہوتی ہے۔ چَک اس کے با وجود کہ کیلی کَہیں اور بَس چُکی ہوتی ہے، اُے بُھلا نہیں پا رہا پِھر بھی اُسے اِس اَجنبی حَقیقت کو تَسلِیم کرنا ہی پڑے گا۔ اور یُوں آخِر میں ہیرو مُعاشَرے میں واپسی کے بعد، پہلے پہل عَمل کے مُتَعلّق اِبہام کا شِکار نَظر آتا ہے، لیکن اُس کی پر امّید آنکھیں جَلد یا بَدیر اپنے سَماج میں ڈَھل جانے کے لیے تَیّار دِکھائی دیتی ہیں۔
جَزِیرے پر لا پَھینکا گیا چَک اپنے لیے جو کِردار پَسند کرتا ہے، اُس کےلیے یہاں کہنا پڑ رہا ہے کہ چَک کا کِردار مُعاشرے کے حُدُود کے باہر کے اَقدار کی سَیّاحی والا ہے۔ یعنی وہ مُعاشرے کے حُدُود کے پار جا نِکلتا ہے۔ لیکن وہاں کا ماحول راس نہ آیا اور سَمُندر کے بےرنگ اور بے تَناظُر مَنظر میں پَھنس جاتا ہے، بےتَناظُر زِندگی سے فَرار ہو کر جَزِیرے پر پَہُنچ کر پَناہ لیتا ہے۔ جَزِیرہ کیا ہے؟
زِندگی کا اَیسا مَحدُود شُعُور جو جَذباتی اُتَھل پُتَھل، شُکُوک اور بےیَقِینی کا شِکار ہوتا ہے۔ آخِر کار ایک اُمّید اور مَحَبَّت کی ضرورت اُسے اِس جَزِیریائی کِردار سے نِکال لیتا ہے۔ لیکن اِس سَفر میں اُسے اپنی شَخصِیَّت کے بَہُت کُچھ (وِلسن) کو سَمُندر ہی میں جانے دینا پڑتا ہے اور آخرِ کار وہ دو بارہ بَرّ اعظم (اِنسانوں کے پاس) پَہُنچ جاتا ہے۔
کہانی کو ایک اور طرح سے بیان کرنے کی کوشِش کرتے ہیں۔
ایک عالی دِماغ (یَقِیناً بہتر نَظریے کے ساتھ یعنی کیلی) حادِثاتی طَور سے جَذباتی تَصَادُم (فِکر کی اُڑان میں) میں اُلَجھ کر سَماج سے دُور ہو جاتا ہے۔ اور ایک تَنہائی اور اَکیلے پَن میں نَفسِی اُتار چَڑھاؤ (جَزِیرہ) بِتاتا ہے۔ وہ تَفَکُّر کے رَوایتی سَماجی مَنطِق اِستِعمال کرتا ہے مگر وہ اِن نَفسِی مَسائل سے پِیچھا چُھڑانے میں نا کام رہتا ہے۔ پِھر وہ اِن رَوایتی طَرِیقوں کو خَیر باد کہہ دیتا ہے اور تَشکِیک سے کام لیتا ہے۔ (پارسلز کھولتا یعنی اقدار پہ سوال اٹھاتا ہے) رَفتہ رَفتہ وہ چِیزوں پر کَنٹرول کرنا سِیکھ جاتا ہے۔ اِس کے بَعد وہ کئی بار سَماج سے جا جُڑنے کی کوشِش کرتا ہے۔ اِس عَمل میں وہ کئی بار ٹُوٹ کر رہ جاتا ہے مگر خُود کو وہ دوبارہ مُجتَمَع کر لیتا ہے۔ اَور آخِر کار وہ اِس فِکری اُلجَھن کو سُلجَھا لیتا ہے اور پُرانے نَظریے (کیلی) کو چھوڑ دیتا ہے اور کِسی نئی اُڑان کےلیے پَر تولنے لگتا ہے!
اِس کہانی کو ایک اور طَور سے بھی دیکھ سکتے ہیں، یعنی…
چَک کی حادِثے سے پہلے کی زندگی= رَوایَت
چَک کی جَزیرے پر زِندگی= جَدِیدِیَّت
چَک کی واپسی پر زندگی= پَسِ جَدِیدِیَّت
سادہ الفاظ میں کہا جائے تو رَوایَت کے مُتعَلِق شُکُوک و شُبہَات رَوایَت کے سِحر سے آزاد کرتے ہیں، یہ جَدِیِدِیت ہے۔ جَدِیدِیت میں اپنی جَڑوں سے دُوری یا سَماجی اَقدار کی غَیر موجُودگی میں فَرد بننے والا مُکَمَّل خالی پَن اور بے تَناظُرِیَّت کا مُشَاہِدہ کرتا ہے۔ اُسے پِھر سے سَماج کی چاہ ہونے لگتی ہے اور اُسے پِھر سے سَماج کی طَرف لَوٹنا پَڑتا ہے تا کہ اِنسانوں کے ساتھ اپنے دِن گُزارے۔ سو اُسے پِھر سے چَند اِک پُرانی اَقدار کو نئی صُورت میں قُبُول کرنا پَڑتا ہے، چَند اِک اپنی طَبع زاد اَقدار بھی سامنے لاتے ہیں۔ اِسے ہی ہم پَسِ جَدِیدیت کہہ سکتے ہیں۔