چمن کس کا ہے ؟
از، ملک تنویر احمد
یہ چمن کس کا ہے ؟ گل و بلبل میں اس پر جھگڑا ہوا تو حالی نے اسے شاعرانہ نفاست سے کچھ یوں بیان کر دیا تھا ع
گل و بلبل میں ہے جھگڑا کہ چمن کس کا ہے
کل بتا دے گی خزاں آکے وطن کس کا ہے
پاکستان نامی چمن کی ملکیت پر بھی جھگڑا ہے۔ یہ قضیہ دو چار برس نہیں نصف صدی سے زائد عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس چمن سینچنے اور آباد کرنے والے سیاستدان تھے۔ سر تا پا اٹکل کھرے، ایثار کیش، اصولوں پر کاربند اور پیکر صدق و وفا سیاستدان۔ چمن کو آباد کرنے کے لیے انہوں نے انگریز سامراج اور انڈین نیشنل کانگریس سے ایک طویل و پر امن سیاسی، جمہوری اور قانونی جنگ لڑی جس کا منطقی نتیجہ پاکستان نامی چمن کے آباد ہونے کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔
اس چمن کے آباد ہونے کے بعد اس کے اشجار پر جمہوریت پسندی، قانون کی سربلندی اور آئین کی پاسداری کے برگ و بار پھوٹنے والے ہی تھے کہ اس چمن کی ملکیت پر جھگڑا کھڑا ہو گیا، اس چمن کو آباد کرنے والے طبقۂِ سیاستدان اور افسر شاہی کے درمیان کھینچا تانی شروع ہو گئی۔
افسر شاہی سے تعلق رکھنے والے افراد نے نظریہ ضرورت نامی سند سے اس چمن کی ملکیت کے سارے حقوق اپنے نام محفوظ کرا لیے۔ اس سند کی فراہمی کو مسند انصاف پر بیٹھے قاضیوں نے اپنی من پسند تشریح کے ذریعے قانونی جواز فراہم کر ڈالا۔ افسر شاہی ابھی چمن کی ملکیت کے حقوق اپنے نام منتقل کرا کے مسندِ اقتدار پر فروکش ہی ہوئی تھی کہ اس چمن کی ملکیت کا ایک بار پھر قضیہ کھڑا ہو گیا۔
پورب و پچھم سے آنے والی مُنھ زور آندھیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے جو سپاہ اس کی حفاظت پر معمور تھی اس نے افسر شاہی کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا کہ جتنا چمن کی ملکیت پر ان کا حق ہے اس کے مساوی حق سپاہ چمن کو بھی ہے جو بیرونی حملوں سے اسے محفوظ رکھنے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر خدمات انجام دے رہی ہیں۔
افسر شاہی نے سپاہ چمن کے سرخیلوں کو اپنے حق ملکیت سے کچھ حصہ ان کے نام منتقل کر کے خوش کرنے کی کوشش کی لیکن سپاہ چمن اس پر قانع نہ ہوئیں۔ جب افسر شاہی اور سپاہ چمن کے درمیان ملکیت کا قضیہ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تو سپاہ چمن نے اپنی ڈنڈا بردار قوت کے بل بوتے پر بابوؤں کو کھڈے لائن لگا کر چمن کے سارے حقوق اپنے نام منتقل کرا لیے۔
اب چمن تھا اور سپاہ چمن۔ اس کی ملکیت پر سوال اٹھانے والے تو بہت تھے لیکن کسی میں اتنی قوت و طاقت نہ تھی کہ چمن کی ملکیت کو اپنے نام کر اسکے۔ مہ و سال بدلے تو سپاہ چمن کے سرخیلوں کے قوائے مضمحل ہونے لگے۔ جس طبقۂِ سیاستدان نے اس چمن کو آباد کیا انہوں نے دوبارہ سے اپنے دعویٰ ملکیت کو اٹھایا اور آخر کار اس چمن کے حقوق کے اپنے نام دوبارہ منتقل کرانے میں کامیاب ٹھہرے۔
طبقۂِ سیاستدان کے نام چمن کے حق ملکیت کو منتقل ہوئے قلیل عرصہ ہوا گزرا تھا کہ سپاہِ چمن نے دوبارہ ایک نئی قوت سے انگڑائی لی اور ایک بار پھر چمن کی ملکیت کو اپنے دام گرفت میں لانے میں کامیاب ٹھہرے۔ سپاہ چمن اس حق ملکیت کو بلا شرکت غیرے استعمال کرنے کی عادی ہو چکی تھیں کہ آسمانی قوتوں کو چمن کے طبقۂِ سیاستدان کی کسمپرسی اور بے بسی پر رحم آگیا۔ آسمانی قوتوں کے دست قوت نے طبقۂِ سیاستدان کے لیے اس چمن کی ملکیت کو حاصل کرنے کی راہ ہموار کی تو یہ طبقہ ایک بار پھر اس چمن کا مالک بن بیٹھا۔
تاہم اس طبقۂِ سیاستدان سے تعلق رکھنے والے افراد آپس میں ہی اس طرح جوتم پیزار ہوئے کہ اپنے طبقے کو ہی کمزور کر ڈالا۔ اس طبقے کے مختلف افراد نے سپاہ چمن سے حمایت و تائید چاہی۔ سپاہ چمن کے سرخیلوں نے یکے بعد دیگرے مختلف افراد پر اپنا دست شفقت رکھ کر اس طبقے کو اس طرح کمزور کر ڈالا کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ ایک بار پھر چمن کے مالک بن بیٹھے۔ اب طبقۂِ سیاستدان کو ندامت و پشیمانی دامن گیر ہوئی تو اس نے ایکا کر کے سپاہ چمن کو اس کے اصل فرض تک محدود کرکے دوبارہ سے چمن کی ملکیت حاصل کرنے کا عہد کیا۔
چمن کے طبقۂِ سیاستدان نے ایک بار پھر سپاہ چمن سے ملکیت حاصل کر کے اس کا حق اپنے نام پر محفوظ کر ا لیا ہے۔ اس حق ملکیت کو حاصل کیے ہوئے تقریباً دس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ بظاہر اس چمن کی ملکیت طبقۂِ سیاستدان کے نام پر رجسڑڈ ہے انہیں ہی اسے سنوارنے کے سارے اختیارات حاصل ہیں۔ لیکن طبقۂِ سیاستدان پھر بھی شاکی ہے اور وہ ان سازشوں کی بو سونگھتا پھر رہا ہے جو چمن پر اسے اس کے حق ملکیت سے محروم کرنے کے لیے تیار کی جا رہی ہیں۔
اس طبقۂِ سیاستدان کا ایک بڑا المیہ ہے کہ اسے یہ فکر تو دامن گیر ہے کہ اسے چمن کی ملکیت سے محروم کرنے کے لے منصوبے دوسرے دعویٰ داروں کے نخل فکر سے پھوٹ رہے ہیں اور وہ اسے دبے لفظوں اور کبھی کھل کر بیان بھی کرتاہے لیکن اپنے اعمال کی درستی کا اسے ذرا بھر بھی احساس نہیں۔ اس طبقہ کو اس چمن کے باسیوں نے بھرپور اختیارات اور قوت سے نوازا کہ وہ اس چمن کو سنوارنے کے لیے اپنی بھرپور توانائیاں بروئے کار لائیں گے۔
اس چمن میں خوشحالی، ترقی اور کامرانی کے برگ و بار پھوٹیں گے۔ چار سو روشن خیالی، تحمل و برداشت اور انصاف و مساوات کے پھول کھل اٹھیں گے۔ قانون کی پاسداری اور عدل کی حکمرانی کے اشجار اس چمن میں سایہ فگن ہوں گے لیکن افسوس اس نوع کے خوب صورت آدرشوں اور مسحور کن تصورات کو اس طبقہ نے لائق توجہ ہی نہ سمجھا۔ چمن کی ملکیت پر جھگڑا بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی ملکیت کے دعویدار باہمی آویزشوں میں مبتلا ہیں۔یہ چمن کے مستقبل کو خطرات سے دوچار کر سکتا ہے۔حالی کے بقول جب چمن کی ملکیت پر گل و بلبل کے مابین جھگڑا بڑھتا ہے تو خزاں آکر چمن اجاڑ دیتی ہے۔
ماضی میں پاکستان نامی چمن کی ملکیت کے جھگڑے نے اس چمن کو اجاڑ کر رکھ دیا تھا اور اس کے ایک حصے کو بھی کاٹ ڈالا تھا۔ خاکم بدہن یہ جھگڑا دوبارہ کسی خزاں کو دعوت نہ دے کہ وہ اس چمن کی مالک بن بیٹھے۔ سن دوہزار اٹھارہ ہے اس چمن کی ملکیت کا فیصلہ آئین و قانون کے تحت ہونے دیں کیونکہ یہی اس چمن اور اس کے باسیوں کے لیے بہتر ہے ورنہ کہیں چمن میر درد کے الفاظ میں یہ نہ کہہ اٹھے ع
دل کی ویرانی کا کیا مذکور
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا ہے