چند عالمی سازشیں
از، خضر حیات
سازشی مفروضے، سازشی نظریے اور سازشی کہانیاں تعمیر کرنا ایک ایسا کار و بار ہے جو تاریخی لحاظ سے کسی بھی دور میں مندی کا شکار نہیں ہوا۔ محض دو لَبوں سے نکلی اور سُنی سنائی پہ مبنی کہانی کو کانوں کان منتقل ہوکر لمحوں میں ہی حقیقی واقعے کا روپ دھارنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔
اس نفسیاتی مُخمصے کا بھی کوئی قابلِ عمل توڑ ملتا دکھائی نہیں دیتا جس کا شکار فرد یا معاشرہ خود کو در پیش ہر مسئلے کا الزام کسی بیرونی قوت یا فرضی دشمن پہ ہی ڈال کر مطمئن ہونے میں تسلی محسوس کرتا ہے۔
ایک ایسا ماحول جہاں زیادہ زور اپنے محاسبے کی بجائے ہمسائے کی دیوار گندی کرنے پر دیا جاتا ہو، یہی ماحول سازشی کہانیوں کے لیے سب سے زیادہ ساز گار منڈی کا کردار ادا کرتا ہے۔
علامہ اقبال فرما گئے ہیں کہ
؎ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اور چُوں کِہ ہمارے ہاں کی مٹی تو اس ماحول کے لیے ہمیشہ سے زرخیز رہی ہے اور اس میں سازشی مفروضوں کو پروان چڑھانے کے لیے درکار نمی وافر مقدار میں موجود رہی ہے اس لیے یہاں سازشی مفروضے اگر کھڑکی توڑ شو پیش کرتے آئے ہیں تو اس میں حیران ہونے والی کون سی بات ہے۔
اس تحریر میں کچھ ایسی عالمی سازشوں کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے جنہیں ابھی قابلِ ذکر مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
یہ در پردہ سازشیں ایک مدت سے ہماری ترقی اور خوش حالی کی راہیں کھوٹی کر رہی ہیں ورنہ اب تک ہم پتا نہیں کہاں پہنچ چکے ہوتے۔ ذرا ملاحظہ کیجیے:
1۔ ٹیلی فون ایجاد ہوا تو ریڈیو سگنلز کے ذریعے پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے کی آڑ میں جگہ جگہ کی معلومات اکٹھی کی گئیں جن کی بنیاد پہ بعد میں نقشے ترتیب دیے گئے اور جنگیں جیتنے کی حکمتِ عملیاں ترتیب دی گئیں۔ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کی اصل وجہ ٹیلی فون کی ایجاد تھی مگر یہ آج تک نہ ہمیں بتایا گیا ہے اور نہ بتایا جائے گا۔
2۔ ایک منصوبے کے تحت پوری دنیا میں کھمبوں کی لائنیں کھڑی کر کے ان کے ساتھ تاریں باندھ دی گئیں۔ ان تاروں کے ذریعے بجلی نام کی ایک ایسی چیز بھیجی گئی جس نے گھر گھر میں بیماریاں تقسیم کیں اور خاص طور پر کینسر کی شرح کو بہت بڑھا دیا۔ دوائیں تیار کرنے والی عالمی کمپنیاں اس سازش کی سب سے بڑی سپانسر بنیں۔ آپ خود غور کرلیں جب سے دنیا میں برقی روشنیاں بڑھی ہیں، بیماریوں کی شرح میں کمی آئی ہے یا اضافہ ہوا ہے۔ جواب آپ کے سامنے ہے۔
3۔ ٹیلی ویژن سکرینیں جن کے بارے میں ہم خیال کرتے ہیں کہ سکرینوں کو ہم دیکھ رہے ہیں حالاں کِہ اندر کی کہانی یہ ہے کہ سکرینیں ہمیں دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ گھر گھر ٹیلی ویژن بھجوا کر چہرے اور آنکھیں سکین کر لیے گئے ہیں اور ان کی مدد سے ذہن پڑھے جا چکے ہیں۔ ٹیلی ویژن سکرینوں کے ذریعے مانیٹرنگ کا ایک بہت بڑا جال بچھایا گیا تھا جس نے پوری دنیا کو اپنے نرغے میں لے لیا ہے۔ کاش ہم نے اپنے دوراندیش بزرگوں کی بات پہ عمل کرتے ہوئے ٹیلی ویژن جیسی شیطانی ایجاد کا مستقل بائیکاٹ کر دیا ہوتا تو ہم اتنے غیر محفوظ نہ ہوتے جتنے آج ہیں۔
4۔ اور پھر اب تک کی سب سے بڑی وباء کو چھوڑنے کے لیے بھی جگہ جگہ زیرِ زمین تاروں کے جال بچھائے گئے اور ان تاروں کے ذریعے انٹرنیٹ کی یہ بلا پہلے مرحلے میں بڑے بڑے دفتروں میں پہنچائی گئی۔ پھر گھروں میں اور آخری مرحلے میں ہر ہر انسان کے پاس انفرادی حیثیت میں، موبائل کے ذریعے۔ تاروں کے جال بچھا کر جو وباء چھوڑی گئی اس میں بہت زیادہ کثافتیں شامل تھیں۔ سوشل میڈیا کا جِن بھی اسی دھارے کے ساتھ بہہ کر آیا اور سب ذہنوں کو اپنی ہتھیلی میں جکڑ لیا۔ آزادانہ سوچنا سمجھنا اب عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہ گیا۔ ہماری نوجوان نسل میں اب تک نہ جانے کتنے آئن سٹائن پیدا ہو چکے ہوتے اگر ہمیں اس سوشل میڈیا نے اسیر نہ بنا لیا ہوتا۔
5۔ دنیا کے ایک خاص حصے میں پینے والا پانی بوتلوں میں بند کیا گیا اور اس میں ایک انتہائی خطرناک سفوف ملا کر اسے پوری دنیا میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ سب سے پہلے اس محلول کی ڈِلیوری پاکستان میں کی جائے۔ یہ پانی جہاں جہاں پِیا گیا وہاں وہاں لوگ جینیاتی تبدیلیوں سے گزر کر محکومی اور غلامی کی جانب راغب ہونے لگے۔ اس پانی نے دشمن کے لیے پوری مسلم دنیا پر غلبہ پانے کی راہ آسان تر بنا دی ہے۔ مسلمانوں میں سرد پڑتے جذبۂِ ایمانی اور دم توڑتے باہمی خلوص کی اصل وجہ یہی محلول ہے مگر حیرت ہے کہ ہماری اکثریت اس بات سے نا واقف ہے۔
6۔ پولیو کے قطرے پِلا کر تیسری دنیا کے ممالک کی آبادی روکنے کا منصوبہ بنایا گیا اور یہ کامیاب بھی رہا۔ اسے بچے کو پلا دیں یا بچی کو، دونوں طرف یہ متوازی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ شروع میں ہم نے بجا طور پر اس پر روک ٹوک لگائی مگر اب محدود سی مخالفت کے ساتھ یہ قطرے ملک کے کونے کونے میں تولیدی نظام کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
7۔ دوائیں بنانے والی عالمی کمپنیوں کو خاص طور پر اس سازشی نیٹ ورک کا حصہ بنایا گیا اور ان کی دواؤں سے ایک بہت ہی اہم مقصد حاصل کیا گیا کہ دوائیں مریض کو کچھ بھی دیں مگر صحت نہ دیں۔ یہ سازش بھی کامیاب رہی اور تمام دنیا کے انسان اب دائمی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ساری ساری عمر دوائیں کھاتے رہنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہم اگر جڑی بوٹیوں سے ہی علاج پر اکتفا کرتے تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔
مزید دیکھیے: جذبات، احساسات اور جبلّتوں کو ماپنے والی مشین
چھوٹا منھ بڑی بات ، یا بڑا منھ چھوٹی بات
8۔ پروپیگنڈے کے ذریعے بھی بہت سے مَذمُوم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے بڑا پروپیگنڈا تو یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگاؤ کیوں کہ درختوں کی کمی سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور زمینی کٹاؤ بھی خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔
حالاں کِہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب جو درخت نرسریوں میں دستیاب ہیں انہیں ایک خاص طرح کی کھاد دی جا رہی ہے۔ یہ کھاد درختوں کو ایک خاص قسم کی آکسیجن خارج کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ نئے دور کے درخت اب اس طرح کی گیسیں چھوڑتے ہیں جو انسانی ذہنوں کو عقلی بنیادوں پر سوچنے کے قابل بنا سکتی ہیں اور خطرہ ہے کہ منطقی سوچ کے پروان چڑھنے سے آبادی کا ایک بڑا حصہ مذاہب سے دُوری اختیار کر سکتا ہے۔ آبادی کے ایک بڑے حصے کو دین سے بیزار کرنے کے لیے تیار کی گئی اس عالمی سازش کو ہم نے بہت بُرے طریقے سے ناکام بنا دیا ہے۔ ہم نے درخت لگانے کے حوالے سے خود پر بڑی بھاری پابندیاں عائد کر دی ہے بَل کِہ ہم میں سے کچھ سیانوں نے تو پہلے سے موجود فتنہ پرور درختوں کو بھی جڑوں سے اکھاڑنے کا نیک کام شروع کر دیا ہے۔ آخر یہ مذاہب کی بقاء کا معاملہ ہے۔
9۔ پھر دنیا کے بڑے بڑے نام نہاد عالموں، جعلی پڑھے لکھوں، نقلی سائنس دانوں اور جھوٹے فلسفیوں کے ذریعے ایک پروپیگنڈا یہ بھی عام کیا گیا کہ علم حاصل کرو، انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے۔ دنیا کی ترقی کا راز بھی اسی میں پِنہاں ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ہمیں لاکھوں کے حساب سے کتابیں لکھ کر دے دیں۔ مگر ہم نے ان کی یہ سازش بھی ناکام بنا دی۔ اگر یہی سب کچھ ہم بھی پڑھنے لگ گئے تو بالکل اسی طرح سوچنے لگ جائیں گے جس طرح وہ چاہتے ہیں کہ ہم سوچیں۔ اس کا توڑ ہم نے یہ نکالا کہ بھلے معیاری ہوں یا غیر معیاری، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں، ہم یہاں صرف اپنی ہی کتابیں پڑھاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ یہ کتابیں بھی پڑھنے والے بس سرسری نظر سے ہی پڑھیں۔ کہیں واقعی کچھ پڑھ پڑھا لیا تو انہی لوگوں کے راستے پر چل پڑیں گے جو پہلے ہی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
علمی پروپیگنڈے کا بھی ہم نے کرارا توڑ نکال لیا ہے۔
10۔ پتا نہیں ان لوگوں کو کب عقل آئے گی بیٹھے بیٹھے کروڑوں روپے ضائع کرتے جائیں گے۔ اب یہی فلم والا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ صرف ہمارے ہاں فحاشی اور عریانی کا کلچر عام کرنے کے لیے کتنی کتنی ڈرامے بازیاں کرتے ہیں۔ کہتے ہیں جی کہ بڑی محنت سے سکرپٹ لکھواتے ہیں، پھر اس سکرپٹ کو پردے پر لانے کے لیے کروڑوں اربوں روپے لگ جاتے ہیں تب کہیں جا کر کوئی کہانی کہے جانے کے قابل ہوتی ہے۔ اور پھر یہ جھوٹ کہ یہ سب کچھ ہم محض اس لیے کرتے ہیں کہ اس دنیا کا آنے والا کل آج سے بہتر ہو اور نئی سوچ لے کر ہم آگے بڑھتے رہیں۔ بکواس کرتے ہیں۔ جان بوجھ کے ایسی چیزیں بناتے ہیں کہ ہمیں اندر سے کھوکھلا کر سکیں۔ بنیادی طور پر ان کی فلم فحاشی کا ایک تفصیلی پروگرام ہوتی ہے جس میں درمیان درمیان میں کہیں تھوڑی بہت کہانی بھی ٹانک دی جاتی ہے۔ ہمیں سب پتا ہے اس سازش کا، اسی کہانی کا دھوکا کھا کر کئی لوگ بے راہ روی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے اُن کی فلم انڈسٹری کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور مقامی طور پر بھی اس مکروہ دھندے کے مُنھ پر چمڑے کا دستانہ چڑھا دیا ہے۔ نہ ہو گی فلم اور نہ رہے گی فحاشی، اللہ اللہ خیر سلاّ۔
11۔ اور سب سے بڑی سازش تو ہمارے خلاف پورن انڈسٹری بنا کے کھڑی کی گئی ہے۔ اگر یہ سب آرٹ کے نام پہ ہی کیا جا رہا ہے تو پھر یہ فلمیں مغربی ممالک میں کیوں نہیں ملتیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ ایک گھناؤنی سازش ہے جو تیار ہی ہمارے لیے کی گئی ہے اور حیران کن طور پر ایسی فلمیں صرف ہمارے ہاں ہی زیادہ دیکھی جاتی ہیں کیوں کہ پائی جو صرف یہاں جاتی ہیں اور یہاں اس لیے پائی جاتی ہیں کہ وہ بناتے ہی یہاں سمگل کرنے کے لیے ہیں۔ اگر یہ فلمیں وہ اپنے ملکوں میں بھی چلنے دیتے تو پھر ہم دیکھتے کہ مسلمان ممالک ہی پورن ویب سائٹس دیکھنے میں کیسے پیش پیش رہ سکتے تھے۔ یقیناً کوئی مغربی ملک بھی اس فہرست میں شامل ہو جاتا مگر چُوں کِہ یہ سب ایک سازش ہے اور ہم اس کے سب سے بڑے شکار، اس لیے فی الحال ہم ہی اس فہرست کے اونچے درجوں میں موجود رہنے پر مجبور ہیں۔
اللہ جانے ہم کب ذاتی مخالفت سے بالا تر ہوکر ان عالمی سازشوں کے توڑ کے بارے میں بھی سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔ بس ہمیں ذرا آپس میں لڑنے سے فرصت مل جائے، پھر دیکھیں ہم کیا حال کرتے ہیں ان سازشیوں کا۔
احمد ندیم قاسمی نے لکھا تھا:
؎ اک حقیقت سہی فردوس میں حُوروں کا وجود
حُسنِ انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں